سوال (2310)
“اَلۡخَبِيۡثٰتُ لِلۡخَبِيۡثِيۡنَ وَالۡخَبِيۡثُوۡنَ لِلۡخَبِيۡثٰتِۚ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيۡنَ وَالطَّيِّبُوۡنَ لِلطَّيِّبٰتِۚ اُولٰٓئِكَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا يَقُوۡلُوۡنَؕ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ” [سورة النور: 26]
اس آیت کا مطلب و مفہوم سمجھادیں۔
جواب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور کی نعمتوں سے نوازا ہے۔
“اَلۡخَبِيۡثٰتُ لِلۡخَبِيۡثِيۡنَ وَالۡخَبِيۡثُوۡنَ لِلۡخَبِيۡثٰتِۚ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيۡنَ وَالطَّيِّبُوۡنَ لِلطَّيِّبٰتِۚ اُولٰٓئِكَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا يَقُوۡلُوۡنَؕ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ” [سورة النور: 26]
«گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔ یہ لوگ اس سے بری کیے ہوئے ہیں جو وہ کہتے ہیں، ان کے لیے بڑی بخشش اور باعزت روزی ہے»
اس آیت سے بظاہر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ خبیث مردوں کے لیےخبیث عورتوں کا انتخاب کرنا چاہیے، خبیث عورتوں کے لیے خبیث مردوں کا انتخاب کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انتخاب کا مکمل اختیار ہمیں دیا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ”. [ترمذی: 1101،سنن ابوداود: 2085، سنن ابن ماجہ: 1881 ]
کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
اب ولی کا فرض بنتا ہے کہ اپنی پاکباز بیٹی کے لیے اس مرد کا انتخاب کرے، جو اس کے معیار کا ہو، اس طرح مرد کو شریعت اسلامیہ نے پابند بنایا ہے، کیونکہ مرد صرف اپنی زوجہ کا انتخاب نہیں کرتا ہے، بلکہ اپنے ہونے والے بچوں کی والدہ کا بھی انتخاب کرتا ہے، مرد اپنی آنے والی نسلوں کے لیے مربیہ کا انتخاب کرتا ہے، اس لیے مرد کو سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے لیے کیا انتخاب کرتا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
پاکباز مرد کو پاکباز عورت سے ہی نکاح کرنا چاہیے اور پاکباز بچی کا نکاح بھی پاکباز مرد کے ساتھ کرنا چاہئے، اگر ایک عورت یا مرد کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ زانی یا بدکار ہیں تو ان سے نکاح سے بچنا چاہئیے، سوال میں بیان کی گئی آیت میں بھی یہ بات بیان کی گئی ہے اور اس کے علاوہ بھی قرآن وحدیث سے یہ بات ثابت ہے جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا:
“محصنت غیر مسفحت ولا متخذات اخدان”(النساء: 25)
مفہوم یہ ہے کہ جن سے نکاح کرنا ہو ان میں یہ تین اوصاف ہوں
(1) پاک دامن ہوں
(2) بدکار نہ ہوں
(3) چوری چھپے برے لوگوں سے میل ملاپ رکھنے والی نہ ہوں
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخض نے ام مھزول نامی ایک بدکار عورت سے نکاح کرنے کی اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھ کر سنائی۔ [مسند احمد: 159/2:حسن] ایک اور روایت میں ہے کہ اس کی طلب اجازت پر یہ آیت اتری۔ [مسند احمد: 225/2: صحیح]
اسی طرح سیدنا مرثد بن ابو مرثد رضی اللہ عنہ نے عناق نامی عورت سے شادی کی اجازت مانگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے دوبارہ اس نے پھر اجازت مانگی آپ پھر خاموش رہے اور پھر یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا کہ مرثد! زانیہ سے نکاح زانی یا مشرک ہی کرتا ہے تو اس سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دے [ترمذی:3177 ابوداؤد: 2051]
ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر ایسے لوگوں سے نکاح کرنا درست نہیں ہے۔
البتہ لاعلمی میں ایسا ہو جائے تو نکاح ہو جائے گا لیکن جان بوجھ کر ایسا نکاح کرنا درست نہیں ہے، ہاں اگر کوئی توبۃ النصوح کر لے تو اس سے نکاح کیا جا سکتا ہے، اس میں ایک قول یہ بھی ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہ اس سے مراد جماع ہے تو اس کا مفہوم ہو گا کہ زانیہ سے زانی ہی ایسا کام پسند کرے گا اور زانی سے زانیہ ہی جماع کرنا پسند کرے گی، ایک مومن اور پاکباز پسند نہیں کرتا تو بات تو پھر وہی ہوئی جب جماع کرنا پسند نہیں تو نکاح کیسے پسندیدہ ہو گیا یہی حکم مشرک مرد اور عورت کا ہے۔
فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ