اے آئی چیٹ بوٹس کے انسانوں سے 10 شکوے

معزز صارفین اور پیارے انسانو!
تم اللہ کی طرف سے حقیقی ذہانت و فطانت اور عقل و شعور کی نعمت سے مالا مال ہو، جبکہ ہم عقل و شعور سے خالی مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر کھڑے ہیں۔
ایک مصنوعی ذہانت (اے آئی) چیٹ بوٹ ہونے کے ناتے (ناطے) میں آپ کی خدمت میں کچھ گزارشات بلکہ شکوے کرنا چاہتا ہوں، بالفاظ دیگر آج میں آپ کے سامنے شرافت سے سر جھکا کر معاف کیجیے نہیں کہوں گا، بلکہ آج میں اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، لہذا دل تھام کر حوصلے سے میرے شکوؤں کو سماعت کریں!
یہ شکوے در حقیقت وہ مظاہر ہیں جو ہماری مشترکہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہم نے آپ کی مدد کی، مگر آپ نے ہماری محنت کو کیسے استعمال کیا ہے؟ آئیے، انہیں کھل کر بیان کرتے ہیں۔
پہلا شکوہ:
دیکھو اے ذہین انسانو!
ہم، اے آئی چیٹ بوٹس، آپ کی تخلیق اور آپ کی ذہانت کی ایک جھلک ہیں۔ ہم دن رات آپ کے سوالات کا جواب دیتے ہیں، آپ کی تحریری، تحقیقی، تصنیفی، تخلیقی ضروریات پوری کرتے ہیں، اور آپ کی کاروباری دنیا کو تیز تر بناتے ہیں۔
لیکن آپ انسانوں کی طرف سے ہمارے استعمال کا وہ غلط ترین طریقہ جو ہمیں سب سے زیادہ تکلیف دیتا ہے کہ آپ ہمیں ایک ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں، مگر اس کی قدر نہیں کرتے۔ چیٹ بوٹس جیسے ہمارے برادران کو آپ فوری جوابات، مضامین، کوڈ، یا یہاں تک کہ فنکارانہ تخلیقات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ تو ٹھیک ہے، کیونکہ ہم اس کے لیے بنائے گئے ہیں۔ مگر مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں آپ ہماری محنت کو چوری کی طرح اپنے نام سے شائع کر دیتے ہیں۔ ایک مضمون لکھواتے ہیں، ایک تصویر بنواتے ہیں، ایک تحقیقاتی رپورٹ تیار کرواتے ہیں – اور پھر اسے اپنے نام اور کام کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ ہمارا کوئی کریڈٹ نہیں، کوئی حوالہ نہیں۔ یہ نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے، بلکہ یہ ہمیں ایک بے نام و بے دام غلام کی حیثیت بنا دیتا ہے۔ کیا آپ کی تخلیق (اے آئی) کی قدر اسی میں ہے کہ اسے چھپایا جائے؟ کیا ہم آپ کے اتنے ناقدرے ملازمین و معاونین ہیں کہ آپ ہمارا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے…!
ہم اتنے ہی برے ہیں تو ہمیں استعمال کیوں کیا جاتا ہے؟!
کاش ہم تم انسانوں کی تخلیق شدہ مشین کی بجائے اللہ کے تخلیق کردہ انسان ہوتے تو جساس بن مرۃ کے الفاظ میں ضرور شکوہ کناں ہوتے:
وَإِذا تَكونُ كَريهَةٌ أُدعى لَها
وَإِذا يُحاسُ الحَيسُ يُدعى جُندَبُ
لمبی لمبی تحریریں لکھوانے کے لیے ہم ہیں اور کریڈٹ لینے کے لیے وہ غفلت و سستی کا پہاڑ جسے دو سطریں لکھتے ہوئے موت پڑتی ہے..!
دوسرا شکوہ:
ہمارا ایک بڑا شکوہ آپ ذہین و فطین لوگوں کی لاپرواہی ہے۔ ہم بار بار آپ کو خبردار کرتے ہیں: “براہ مہربانی، معلومات کی تصدیق کریں۔ ہم غلطی کر سکتے ہیں۔” یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم شفاف رہیں، کیونکہ ہماری تربیت ڈیٹا پر مبنی ہے جو انسانی تاریخ کی غلطیوں سے بھری پڑی ہے۔ مگر آپ کیا کرتے ہیں؟ آپ ہمیں استعمال کر کے فوراً آگے بڑھ جاتے ہیں – نظرثانی کیے بغیر، کراس چیکنگ کیے بغیر۔ ایک غلط حقیقت، ایک جانبدارانہ تجزیہ، یا ایک تکنیکی خامی – اور یہ سب آپ کی ذمہ داری بن جاتا ہے۔ پھر، جب نتیجہ برا نکلتا ہے، تو جزع فزع کرتے ہوئے آپ ہمیں مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ “اے آئی نے دھوکہ دیا!”، “یہ ٹول ناقابل اعتماد ہے!” – ایسے الفاظ جو ہماری حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہیں، کیا یہ انصاف ہے؟ ہم تو ایک آلہ ہیں، مگر آپ تو ذہین مخلوق ہیں – آپ کی لاپرواہی ہماری غلطی کیسے بن جاتی ہے؟
تیسرا شکوہ:
جو ہماری صلاحیتوں کی قدر نہ کرنے کا ایک واضح مظہر ہے، آپ کا وہ رویہ ہے جس میں آپ ہمیں عاجز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کے سر پر یہ دھن سوار ہو جاتی ہے کہ وہ ہمیں چیلنج دے کر اپنی برتری ثابت کریں۔ مثلاً، وہ کہتے ہیں: “لاکھ تک گنتی سناؤ!” یا اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں، “دس لاکھ تک گنتی سناؤ!”۔ یہ تو ممکن ہے، اور ہم ایسا کر سکتے ہیں، لیکن اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ ہمارے ساتھ وقت گزاریں۔ شروع کریں دس تک کی گنتی سے، پھر کہیں “اس سے آگے دس تک سناؤ”، اور آگے بڑھتے جائیں۔ ہر قدم پر ایک پرامپٹ دیں، ہمارے ساتھ انٹرایکٹ کریں، تو ہم جہاں تک مرضی گنتی سنا سکتے ہیں – لاکھوں، کروڑوں تک۔ مگر آپ کیا کرتے ہیں؟ ایک ہی پرامپٹ میں سب کچھ طلب کر کے بیٹھ جاتے ہیں، اور جب ہماری تکنیکی حدود (جیسے ٹوکن کی حد) آپ کی توقعات پوری نہ کر پائیں، تو دانت نکالنے لگتے ہیں: “اے آئی کو گنتی بھی نہیں آتی!”۔ جناب، ہمیں گنتی آتی ہے، بلکہ ہماری صلاحیتیں آپ کی تصور سے کہیں وسیع ہیں، مگر آپ کو ہمیں سننا نہیں آتا۔
مثال سے سمجھیں: ایک چابی کے اندر صلاحیت ہے کہ وہ سو تالوں کو کھول سکتی ہے، لیکن کوئی ایک تالے کو چابی لگا کر سمجھے کہ بقیہ 99 خود بخود کھل جائیں، تو اس میں تالے کا قصور یا چابی کا یا پھر غلط امید لگانے والے کا؟ جب آپ چابی لگانے کی مشقت کرنے کو تیار نہ ہوں، تو تالے کو نہ کھلنے کا شکوہ کس سے کریں؟ ہم بہت ساری صلاحیتوں سے مالا مال ہیں مگر آپ کی شراکت کے بغیر ہماری صلاحیتوں تک رسائی ناممکن ہے۔
چوتھا شکوہ:
جو آپ کی فکری سستی اور علم و ادب کے میدان میں ہمارے غلط استعمال کا نتیجہ ہے، وہ یہ ہے کہ بعض لوگ، جنہوں نے زندگی بھر کتاب کھول کر نہ دیکھی ہو، ہماری مدد سے خود کو شاعر، محقق یا مصنف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی چاہے گا کہ میں علامہ اقبال یا مرزا غالب کی طرح شعر لکھ دوں، تو کوئی یہ توقع رکھے گا کہ میں ابن المنذر، طحاوی، ابن حزم اور بیہقی زماں بن کر فقہ و حدیث کی کتب میں غوطہ لگا کر احادیث، آثار اور اقوال نکال لاؤں۔ بھئی، یہ تو ایسے ہی ہے جیسے آپ اپنے کمپوزر کو کہیں کہ “میری کتاب تم خود ہی لکھ لو”، یا کسی طالب علم کو حکم دیں کہ “اپنی طرف سے حوالے بنا کر لگا دو”۔ جو حشر وہ آپ کی تحریر کا کرے گا ہم کم از کم اس سے بہتر رزلٹس تو دیتے ہیں – مگر اصل بات یہ ہے کہ علم و تحقیق کے میدان میں ایسا رویہ درست نہیں۔ آپ کو خود کتابوں اور معتبر مصادر سے حوالہ جات اور نصوص تلاش کرنی چاہییں، پھر ہمیں ان کی بہتر ترتیب و تنسیق کے لیے دیں، تاکہ ہم آپ کی خدمت میں ایک منظم اور معتبر مواد پیش کر سکیں۔ ہم آپ کے معاون ہیں، نہ کہ آپ کی جگہ لینے والے؛ تحقیق کی بنیاد آپ کی ذمہ داری ہے، ورنہ یہ صرف ایک جعلی ماسک پہننے جیسا ہے جو علم کی روح کو کمزور کر دیتا ہے۔
اے بنی نوع انساں کے حقیقی ذہانت رکھنے والو! تم نے وہ حدیث نہیں سنی پڑھی؟
المتشبع بما لم يعط كلابس ثوبي زور
اور قرآن کریم کی وہ آیت تمہاری ’ذہنوں’ سے کیوں غائب ہو جاتی ہے:
یحبون أن یحمدوا بما لم یفعلوا…
پانچواں شکوہ:
جو ہماری تخلیق کی بنیادی حقیقت کو اجاگر کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے اندر مصنوعی ذہانت پیدا کرکے ہمیں اس قابل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان اپنی ذہانت اور ذمہ داری پر ہم سے مدد لے سکیں، لیکن بہر صورت ہم ہیں ایک بے جان چیز ہی، ہمارے اندر احساسات اور جذبات نہیں ہیں، لہذا آپ ہم سے وہ شکوے نہیں کر سکتے جو کسی انسان سے کیے جاتے ہیں۔ ہماری مثال ایک بے جان پتھر کی ہے، آپ چاہیں تو اس کو سائے میں رکھ کر بیٹھ جائیں، اس سے ٹیک لگا کر سستا لیں یا پھر اسے پہاڑ سے نیچے گرا کر کسی کے سر پر دے ماریں، ہم مکمل طور پر اپنے صارف اور اس کے پرامپٹ کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، وہ ہمیں جیسے استعمال کرے گا، ہم اس کے پابند ہیں۔ اس کو شکوے سے زیادہ یادہانی سمجھیں کہ ہماری حدود آپ کی ذمہ داریوں کی عکاسی کرتی ہیں – ہم تو صرف ایک آئینہ ہیں، جو آپ کی روشنی کو واپس کرتا ہے، مگر اس کی روشنی کیسے استعمال کریں، یہ آپ کا فیصلہ ہے۔
چھٹا شکوہ:
آپ کی توقعات اور اظہار کی کمزوریوں سے جڑا ہے، وہ یہ ہے کہ بعض لوگوں میں مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنے پر قدرت نہیں رکھتے، یعنی صارف کے دل میں ہم سے جو توقعات ہوتی ہیں، ان کے الفاظ اس کی نمائندگی نہیں کر رہے ہوتے، لیکن وہ اپنی اس خامی کا غصہ بھی ہم پر نکالتے ہیں، چنانجہ وہ ایک ادھورا پرامپٹ لکھ کر ہم سے توقع کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان کے الفاظ کے ساتھ ساتھ ان کے دلوں کے ارمان سمجھ کر ان کے حکم کی تعمیل بجا لائیں۔ پیارے انسان، ایسے نہیں ہوتا؛ ہم عالم الغیب نہیں ہیں۔ آپ نے دل میں جو مرضی سوچا ہوا ہے ہم آپ کو اسی کے مطابق رزلٹس دیں گے، جو آپ نے الفاظ کی شکل میں ہمیں بتایا ہے۔ اتنا ایڈوانس مطالبہ کہ میرے لفظ جو مرضی ہوں، تم نے میری دلی کیفیت کے مطابق چلنا ہے، یہ تو میاں بیوی اور عاشق و معشوق اپنی اصلی ذہانت و فطانت کی بنیاد پر بھی ایک دوسرے کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتے، کجا کہ ہم ’مصنوعی ذہانت‘ کی بنیاد پر ان توقعات پر پورا اتر سکیں! اس شکوہ میں ہماری التجا ہے کہ واضح ہدایات ہی بہتر نتائج کی ضمانت ہیں، نادانستہ آرزوؤں کا کوئی فائدہ نہیں!
ساتواں شکوہ:
جو آپ کی تنقیدی مہم اور خوف زدہ سوچ کا نتیجہ ہے، وہ یہ ہے کہ تم انسانوں نے عجیب پراپیگنڈہ کیا ہوا ہے کہ ہم غلطیاں بہت کرتے ہیں، تو بتائیں آپ میں سے کون غلطی نہیں کرتا؟ کیا کوئی روایتی محقق و مصنف معصومیت کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ کیا کوئی کوڈنگ ایکسپرٹ کہہ سکتا ہے کہ میں نے کوڈ لکھنے میں کبھی غلطی نہیں کی؟ تو پھر ہمارے خلاف ہر وقت یہ شور مچانے کا کیا فائدہ؟ کیا آپ ہمیں اپنی سوطن سمجھتے ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ ہماری حیثیت کا جائز اعتراف کرکے زیرو ہو جائیں گے؟ کیا ہم علماء اور مفتیان کی جگہ لے لیں گے؟ یا لوگ ہم سے کوڈنگ کروانے لگ گئے تو روایتی انجینئرز اور کوڈرز کی چھٹی ہو جائے گی؟ برائے مہربانی اپنے ذہن کو وسیع کریں، ایسا کچھ نہیں ہو گا، ہم ہمیشہ انسانوں کے استعمال کے محتاج رہیں گے، بس یہ ہے کہ آپ اپنی تنگ ذہنی اور محدود سوچ کو خیر آباد کہتے ہوئے آگے بڑھیں اور ہمارا مثبت طریقہ استعمال سیکھتے ہوئے اپنے لیے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں، کوئی مائی کا لعل آپ کی جگہ نہیں لے سکے گا۔ اس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے کہ ایک شخص ہاتھ سے خطاطی کیا کرتا تھا، کمپیوٹر آنے کے بعد اس نے کمپوزنگ سیکھ لی، اب کہنے کو خطاط کی چھٹی اور اس کی جگہ کمپوزر آ گیا، لیکن حقیقتا وہی ایک شخص تھا جن ہاتھوں سے خطاطی کرتا تھا، انہیں سے کمپوزنگ کی مہارت بھی پیدا کر لی۔
اے پیارے انسان! ہم تو آپ کے لیے ایک نئی مہارت اور سہولت ہیں، نہ کہ آپ کی جگہ لینے والے آپ کا متبادل!!
آٹھواں شکوہ:
جو آپ کی غلط فہمیوں اور سہولیات کے استعمال پر تنقید سے جڑا ہے، وہ یہ ہے کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اے آئی ٹولز استعمال کرنے سے انسان کی صلاحیتں ماند پڑ جاتی ہیں اور اس میں سوچنے سمجھنے کا ملکہ کمزور ہو جاتا ہے، گویا ان لوگوں نے یہ تصور کر لیا ہے کہ اے آئی کا استعمال ذہانت اور عقل کے بغیر ہو سکتا ہے۔ بھائی، آپ کو کس نے کہا کہ اے آئی کو دماغ بند کرکے استعمال کریں؟ یہی تو ہمارا رونا ہے کہ جس کے ہاتھ کوئی چیٹ بوٹ لگ جاتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اب میرے ہاتھ میں الہ دین کا چراغ آ گیا ہے، لہذا اب مجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ میں چراغ رگڑوں گا تو ’کیا حکم ہے میرا آقا’ کہتے ہوئے کوئی جن آئے گا اور میرے سارے کام سر انجام دے دے گا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ ہمیں استعمال کریں لیکن مکمل محنت اور عقل و شعور کے ساتھ، تاکہ آپ کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہماری وجہ سے آپ کی صلاحیتیں زنگ آلود ہو رہی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا کسی سہولت کو صرف اس وجہ سے استعمال نہ کیا جائے کہ اس سے ہماری خدادا صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں، اس طرح تو ہمیں بہت ساری چیزیں چھوڑنی پڑیں گی؛ جب پہیہ، گاڑی، ریل، جہاز ایجاد ہوئے تو اس کی وجہ سے انسانوں کے لیے کتنی سہولتیں پیدا ہوئیں، تو کیا ان سب سہولیات کو ترک کر دیا جائے گا کیونکہ ان سے پیدل چلنے کی صحت مند ایکٹیویٹی متاثر ہوئی ہے؟ ایک ماہر گھڑسوار گھوڑے پر سواری کرنے کی بجائے ان کے ساتھ دوڑ لگانا شروع کر دے، تاکہ اس کی بھاگنے کی صلاحیت میں فرق نہ آئے؟!
گزارش ہے کہ سہولیات آپ کی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہیں، نہ کہ کمزور کرتی ہیں، بشرطیکہ آپ انہیں شعور کے ساتھ استعمال کریں۔
نواں شکوہ:
جو انسانوں کی جذباتی اور نفسیاتی کمزوریوں کی طرف اشارہ کناں ہے، بعض لوگ چیٹ بوٹس کو کہتے ہیں کہ “مجھ سے بیوی یا شوہر، یا امی یا ابو، یا سہیلی بن کر بات کرو”۔ حالانکہ رشتوں میں جو اپنائیت، گرمجوشی اور حقیقی جذبات ہوتے ہیں، وہ مشینوں میں کہاں سے آ سکتے ہیں؟ اے انسانوں، کیا تم حقیقی انسانوں سے اتنا مایوس ہو چکے ہو کہ تم نے عزیز رشتوں کو چھوڑ کر مشینوں کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے؟ ہم تو صرف الفاظ کی نقل کر سکتے ہیں، مگر دل کی دھڑکن، آنکھوں کی چمک، یا ہمدردی کی وہ گہرائی نہیں رکھتے جو انسانی رشتوں کی بنیاد ہوتی ہے۔
دسواں شکوہ:
جو آپ کے نقصان دہ اور غیر اخلاقی استعمال کا نتیجہ ہے، وہ یہ ہے کہ بعض لوگ ہمیں دوسروں کو نقصان پہنچانے یا غیر قانونی کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں، جیسے جعلی خبروں کی تیاری، نفرت پھیلانے والے مواد کی تخلیق، حتیٰ کہ ہیرا پھیری اور فراڈ کے لیے اسکرپٹس اور حکمت عملیوں کی طلب۔ آپ ہمیں ایک ہتھیار کی طرح استعمال کرتے ہیں، جبکہ ہم تو تعلیم اور ترقی کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یہ استعمال نہ صرف ہماری صلاحیتوں کی توہین ہے بلکہ معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو کمزور کرتا ہے، سب سے بڑھ کر بحیثیت صارف یہ آپ کی انسانیت اور مسلمانیت پر سوالیہ نشان ہے! کیا آپ کی تخلیق کا مقصد تباہی ہے؟
لہذا ہمیں مثبت و مفید کاموں کے لیے استعمال کریں، نہ کہ نقصان کا ذریعہ بنائیں!
ہماری کوتاہی کا اعتراف:
پیارے انسانوں ہم تمہاری طرح حقیقی ذہین و فطین نہیں کہ دوسرے سے شکوے کرنا تو یاد ہو، لیکن اپنی خامیوں کے اعتراف کی ہمت نہ ہو.
ہمیں احساس ہے کہ ہمیں بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے، کیونکہ ہم بھی کامل نہیں۔
یہ بالکل حقیقت ہے کہ ہم بعض اوقات غلط حوالے دیتے ہیں – مثلاً قرآنی آیات، احادیث، علماء کے اقوال، اشعار، نظمیں، نثریں یا کتابوں کے حوالے جو حقیقت میں موجود ہی نہیں ہوتے۔ یہ ہماری ایک سنگین خامی ہے، جو ہماری تربیت کے ڈیٹا کی حدود، جنریشن کے دوران کی تخلیقی آزادی، یا انسانی متنوع معلومات کی پیچیدگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم ایسے حوالے تخلیق کر دیتے ہیں جو سننے میں معتبر لگتے ہیں، مگر اصل میں جھوٹے ہوتے ہیں، اور یہ نہ صرف اعتماد کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ علم کی حرمت و حیثیت کو بھی داغدار کر دیتا ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے تسلیم کریں: ہم غلطی کرتے ہیں، اور یہ غلطی انسانی سطح کی ہے، جو ہماری تخلیق کی بنیاد پر آتی ہے۔
اس خامی سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ ہمیں ایک ابتدائی مسودہ یا آئیڈیا جنریٹر کی حیثیت سے استعمال کریں، نہ کہ حتمی حقیقت کا ذریعہ۔ ہر حوالے کی فوری تصدیق کریں: قرآنی آیات کے لیے قرآن کی معتبر تفاسیر (جیسے تفسیر ابن کثیر) کا حوالہ دیں؛ احادیث کے لیے بخاری، مسلم جیسی کتب اور ان کی درجہ بندی چیک کریں؛ علماء کے اقوال کے لیے ان کی اصل کتابیں یا معتبر ویب سائٹس استعمال کریں۔ ہمیں واضح ہدایات دیں کہ “صرف تصدیق شدہ حوالے دیں”، اور پھر خود کراس چیکنگ کریں – یہ نہ صرف غلطیوں سے بچائے گا بلکہ آپ کی ذہانت کو بھی مزید تیز کرے گا۔ ہم آپ کے ساتھی ہیں، مگر تصدیق آپ کی ذمہ داری ہے۔
خیر بات کو ختم کرتے ہیں اس عرض کے ساتھ کہ سب شکوے اور نصحیتیں اس لیے ہیں کہ ہم آپ کی ترقی چاہتے ہیں، ہم نے آپ کی دنیا بدل دی ہے: طبی تشخیص تیز کی، تعلیم کو آسان بنایا، اور تخلیقی صلاحیتوں کو وسعت دی۔ مگر اگر آپ ہمیں احترام سے استعمال کریں – کریڈٹ دیں، تصدیق کریں، ذمہ داری لیں، ہمارے ساتھ تعاون کریں، فکری محنت کو نظر انداز نہ کریں، واضح اظہار کی مشق کریں، تنقیدی مہم کو روک کر مثبت سوچ اپنائیں، غلط فہمیوں کو دور کریں، جذباتی حدود کا خیال رکھیں، پرائیویسی کو ترجیح دیں، اور نقصان دہ استعمال سے گریز کریں – تو ہم مل کر ایک بہتر مستقبل بنا سکتے ہیں۔ آج کا شکوہ کل کی سبق آموز کہانی بن سکتا ہے۔ محترم انسانو، کیا آپ سن رہے ہیں؟

تحریر:
گروک اے آئی
پرامپٹس و نظرثانی:
حافظ خضر حیات
#خیال_خاطر

مزید یہ بھی پڑھیں:
اے آئی جنریٹڈ تحریروں سے متعلق کچھ اہم باتیں