سوال

ایک شخص نے عورت سےولی کے بغیر نکاح کرلیا۔  اس کے بعد اس شخص نے مختلف مجالس میں اس عورت کو تین مرتبہ طلاق دی ۔پھر وہ شخص اسی مطلقہ عورت سے دوبارہ نکاح کرنا چاہ رہا ہے ،اس حجت سے کہ چونکہ اس کا نکاح عورت کے ولی کے بغیر ہوا تھا، اس لئے اس کا یہ نکاح شرعاً نہ ہونے کی وجہ سے، وہ اس عورت سے نکاح کرسکتا ہے۔تو کیا اس کی یہ بات درست ہے؟ اور کیا وہ اسی عورت سے دوبارہ نکاح کرسکتا ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں فتویٰ عنایت فرمائیں۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

کسی بھی مرد کے لیےحلال نہیں کہ وہ عورت سے اس کے ولی کے بغیر شادی کرے ،چاہے وہ عورت کنواری ہو یا شادی شدہ ۔ جس کے دلائل مندرجہ ذيل ہیں :

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

“فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ”. [البقرہ :232]

اورتم انہیں اپنے خاوندوں سے شادی کرنے سے نہ روکو ۔

دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :

“وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا “. [البقرہ:221]

(اپنی بہن بیٹیاں )مشرکوں  کے نکاح میں، اس وقت تک نہ دو، جب تک وہ ایمان نہيں لے آتے  ۔

اورایک مقام پر یہ فرمایا :

“وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ”. [النور:32]

اوراپنے میں سے بے نکاح مرد و ں اورعورتوں کا نکاح کردو  ۔

مندرجہ بالا سب آیات میں اللہ تعالی نے عورت کے ولی کو عقدنکاح کے بارے میں مخاطب کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے ۔اگر معاملہ ولی  کی بجائے، صرف عورت  کے متعلق ہوتا، تو پھر اس کے ولی کو مخاطب کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کی فقہ ہے، کہ انہوں نے اپنی صحیح بخاری میں ان آیات پر درج ذیل باب قائم کیا ہے:

“باب من قال :” لانکاح إلا بولی “

بغیر ولی کے نکاح نہ  ہونے کے بارے میں باب ۔

اور یہ در اصل حدیث ہے، جیسا کہ ابوموسی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

“لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ”. [ترمذی: 1101،سنن ابوداود :  2085 ، سنن ابن ماجہ : 1881 ]

کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ۔

علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 1 / 318 ) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔

ام المومنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

“أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا فَإِنْ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ”. [سنن ترمذی : 1102 ، سنن ابوداود: 2083 ، سنن ابن ماجہ : 1879 ]

جوعورت بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اوراگر ( خاوندنے ) اس سے دخول کرلیا تو اس سے نفع حاصل ،اوراستمتاع کرنے کی وجہ سے اسے مہر دینا ہوگا ، اوراگر وہ آپس میں جھگڑا کریں ، تو پھر جس کا کوئی ولی نہیں حکمران اس کا ولی ہوگا ۔

علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 1840 ) میں اسے صحیح قرار دیاہے ۔

لہذا  ولی کے بغیر کیا گیا نکاح باطل ہے۔ اگر کوئی اس طرح کرتا ہے، تو ان کے درمیان فورا جدائی کروائی جائے۔ اور پھر  ولی کی رضامندی سے تمام شرائط کا خیال رکھتے ہوئے، نکاح کیا جائے۔

پوچھے گئے سوال میں عجیب صورت حال بیان کی گئی ہے۔ اگر اس شخص کو پتہ تھا کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، تو پھر اس نے نکاح کیا کیوں؟ جب نکاح ہی نہیں تھا، تو طلاقیں کیوں دیں؟ اور اب پھر دوبارہ نکاح کیوں کرنا چاہتا ہے؟ ہمارے نزدیک یہ اسلامی احکامات کو مذاق بنانے والی بات ہے۔

اگر واقعتا اس سے پہلے یہ سب لاعلمی میں ہوا، اور اب وہ سچی توبہ کرکے، اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنا گھر بسانا چاہتا ہے، تو نئے سرے سے لڑکی اور اس  کے اولیاء کی رضامندی سے نکاح کرکے، گھر بسا سکتا ہے۔  ورنہ نہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ