سوال

اگر مکمل اور نارمل مردانہ اعضاء کا حامل ایک پیدائشی لڑکا اپنے آپ کو لڑکی سمجھنا شروع کر دے، یا اسکے بالعكس لڑکی اپنے آپ کو لڑکا (ایسے افراد کو ٹرانز جنڈر کہا جاتا ہے) اور معاشرے سے بھی مطالبہ کریں کہ ان کی جنس کو وہی سمجھا جائے جو وہ چاہتے ہیں، نہ کہ انکے تولیدی اعضاء کی بنیاد پر۔ اور یہ کہ انکے شناختی کارڈ پر بھی وہی جنس تحریر کی جائے جو وہ ذہنی طور پر اپنے لیے قبول کر چکے ہیں، نہ کہ تولیدی اعضاء کی بنیاد پر۔اور اگر وہ چاہیں تو انہیں تبدیلی جنس کی ادویات اور سرجری کی بھی اجازت دی جائے (تبدیلی جنس کے طبی عمل کے بعد انہیں “ٹرانز سیکشوؤل” کہا جاتا ہے)اور جس جنس کو وہ اختیار کر رہے ہیں، اسکے مخالف جنس سے نکاح کی اجازت دی جائے (حالانکہ درحقیقت یہ ہم جنس سے شادی ہو گی) اور اگر کبھی وہ واپس اپنی پیدائشی جنس کو دوبارہ اختیار کرنا چاہیں تو اسکی بھی اجازت دی جائے۔

کیا شریعت اسلامی میں ان امور کی کوئی گنجائش موجود ہے؟ واضح رہے کہ سائنسی لحاظ سے حتمی طور پر اس “مغالطے” کی وجوہات کا تعین نہیں کیا جا سکا- کچھ محققین کے مطابق ان لوگوں کے دماغ کی ساخت اس جنس کے دماغ جیسی ہوتی ہے، جو یہ اختیار کرنا چاہتے ہیں، نہ کہ انکی پیدائشی جنس والوں جیسی۔ کچھ کے مطابق یہ حمل کے دوران ہارمونز کی اونچ نیچ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کچھ کے مطابق یہ “جنسی رجحان”(سیکشوؤل آریینٹیشن) کی وجہ سے ہوتا ہے۔یعنی لڑکا یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے ہم جنس، یعنی لڑکوں میں جنسی کشش محسوس ہوتی ہے ،اور لڑکیوں کو لڑکیوں میں۔ اور پھر انکا ذہن خود اپنے آپ کو مخالف جنس کا باور کروانا شروع کر دیتا ہے۔ کچھ کیسز میں یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہوتا ہے ،جس میں “مریض” یہ سمجھتا ہے کہ وہ “غلطی سے” مخالف جنس کے جسم میں قید ہو گیا ہے. اسے “جنڈر ڈسفوریا” کہتے ہیں۔

واضح رہے کہ لبرل ازم کے مغربی تصور کے مطابق اب جنس وہ نہیں جسکے ساتھ انسان پیدا ہوتا ہے۔یعنی جنس اسکے تولیدی اعضاء اور جینز پر منحصر نہیں ،بلکہ وہ ہے جس کا وہ خود انتخاب کرتا ہے۔ انکے مطابق معاشرے کا فرض ہے کہ اپنے جسم پر اسکی ملکیت کے اس حق کو تسلیم کرے، اور اسے وہی سمجھے جو وہ خود اپنے آپ کو سمجھتا ہے۔ (اور کچھ کیسز میں اسکی خلاف ورزی کرنے والوں کو باقاعدہ سزا اور جرمانے کی مثالیں بھی ریکارڈ پر ہیں) یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ ٹرانز جینڈر کو “انٹر سیکس” کے ساتھ خلط کرنا درست نہیں۔انٹرسیکس لوگ وہ ہیں جنہیں ہمارے ہاں ہیجڑا، خسرا، خواجہ سرا، زنخا وغیرہ کہا جاتا ہے. یہ لوگ تولیدی اعضاء میں پیدائشی نقائص کی وجہ سے ایسے ہوتے ہیں اور اسکی بہت سی طبی وجوہات ہیں ،اور جدید طب میں تقریباً سب کا حل موجود ہے ۔اور یہ بالکل ممکن ہے کہ اوائل عمری میں ہی اس شعبے کے ماہرین کے مشورے سے، ادویات و جراحی کی مدد سے انہیں کسی ایک جنس میں مستقلاً “ڈھال” کر پالا پوسا جائے۔

امید ہے کہ اس ساری تفصیل کو مدنظر رکھتے ہوئے مدلل فتویٰ مرحمت فرمائیں گے۔اس معاملے کی اہمیت اس صورت میں اور بھی بڑھ چکی ہے کہ 2018 میں حکومت نے ٹرانز جینڈر لوگوں کے حقوق کا بل پاس کیا ،جس میں بعینہ انہی شرائط کی بنا پر جنس کے تعین کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے ،جو اوپر استفتاء میں مذکور ہیں۔

کچھ نوجوانوں نے اسکے خطرناک مضمرات سے آگاہ کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے، اور اس کی آڑ میں ہم جنس پرستی کے فروغ کے تباہ کن رجحان کے خطرے کو واضح کیا ہے، اور اسے عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے۔ چونکہ آئین پاکستان کی رو سے کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بن سکتا، لہٰذا اس معاملے میں علماء کے فتوے کی اہمیت انتہائی زیادہ ہو چکی ہے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے بھی اسکے خلاف سینیٹ میں چارہ جوئی کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اور اسے دین اسلام کے خلاف ثابت کر کے اسے منسوخ کرانے کی تحریک شروع کی ہے اور تمام مکاتب فکر کے علماء سے حمایت کی درخواست کی ہے۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • اللہ تعالی کا ارشادِ گرامی ہے:

“لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ. أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ”. [الشورى:49،50]

’زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے پاس ہے، جس کو چاہے،  بیٹیاں دیتا، جس کو چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے، یا پھر بیٹے اور بیٹیاں دونوں عطا کردیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے، بانجھ بنا دیتا ہے، اور وہ  علم رکھنے والا اور قدرت والا ہے‘۔

اسی طرح فرمایا:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً”. [النساء:1]

’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے، پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں   پیدا   کیں‘۔

مزيد فرمايا:

“وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ” [غافر:64]

’اللہ تعالی نے  تمہیں بہترین صورتیں عطا کیں‘۔

ایک اور جگہ فرمایا:

“الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ”. [الانفطار:7]

یعنی اللہ تعالی نے انسان کو بہترین، متوازن و متناسب تخلیق عطا کی ہے۔

“لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ”. [التين:4]

’ یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا  ہے‘۔

ان سب آیاتِ کریمہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کسی دنیاوی کارخانے یا فیکٹری کی پیداوار یا پراڈکٹ نہیں، بلکہ  اللہ تعالی کی مخلوق ہے،  اور اللہ تعالی نے اسے بہترین انداز میں بنایا ہے۔ پھر اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو ’مرد’ اور ’عورت‘ دو جنسوں میں تقسیم کیا ہے۔

گویا یہ سارے کا سارا نظام اور سسٹم یہ اللہ تعالی تخلیق کردہ اور پسندیدہ ہے۔ اس میں کسی اور کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالی کی اور بھی لاکھوں مخلوقات ہیں، لیکن اللہ تعالی نے اپنے علم و حکمت کے مطابق جس کو جو بنادیا ہے، اس کے لیے وہی سانچہ، صورت ،فطرت  اور جنس سب سے بہترین ہے۔ کوئی حیوان، انسان نہیں بن سکتا، اور کوئی انسان خود کو حیوان بنانا چاہے، تو اس کے بس کی بات نہیں۔  اللہ تعالی نے  جس کو،جس طرح، جس جگہ اور جتنی تعداد میں اعضائے جسمانی عطا کیے ہیں، یہ اس مخلوق کا سب سے بہترین ماڈل ہے۔ کوئی اس سے بہتر تو دور کی بات، اس کا اسی طرح کا متبادل بھی نہیں بناسکتا۔ بلکہ کوئی ایک عضو اگر حکمتِ الہی سے معطل ہوجائے، تو اس کا نعم البدل پیش کرنا، ممکن نہیں  ہے۔ اور یہ ایسی حقیقت ہے کہ ہر مسلم و کافر کو اسے مانے بغیر چارہ نہیں ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ انسان کو مرد بنانا ہے یا عورت، یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔ اور  یہ اس کی تخلیق کے اولین مرحلے  میں ہی طے کردیا جاتا ہے۔ یعنی نطفے سے  لیکر جنین کی نشو و نما اسی بنیاد پر ہوتی ہے کہ یہ مرد ہے یا عورت ہے۔  یہ کوئی دنیاوی انجن ، مشین یا آلہ نہیں کہ کمپنی جب چاہے، جیسے مرضی جوڑ توڑ کرکے،  ایک نئی پراڈکٹ تیار کرلے۔

  • سوال میں تبدیلی جنس وغیرہ سے متعلق جو تفصیلی صورتِ حال بیان کی گئی ہے۔ یہ عملِ شنیع کئی قباحتوں کا مجموعہ ہے،  جن میں سے بعض کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
  1. جنسی تقسیم کا انکار:اس میں سب سے پہلی خرابی یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ اللہ کی تخلیق اور تقسیم پر راضی نہیں ہیں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے انسان  کو مرد اور عورت، دو جنسوں میں تقسیم کیا ہے۔ اور دونوں کے کچھ الگ الگ خواص بنائے ہیں، لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں، ہر وہ کام جو مرد کرسکتا ہے، وہ عورت بھی کرسکتی ہے، اور جو عورت کرسکتی ہے، وہ مرد بھی کرسکتا ہے۔ گویا یہ فطرت اور قانونِ الہی کے  برعکس اور مخالف سمت چلنا چاہتے ہیں۔
  2. جنسِ مخالف سے مشابہت:مرد کا عورتوں، یا عورت کا مردوں سے مشابہت، اور ان جیسا بننے کی کوشش کرنا، یہ شریعت میں حرام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“لَعَنَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ المُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بالنِّسَاءِ، والمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بالرِّجَال”.  [صحيح البخاري:5885]

’اللہ تعالی نے ایسے مردوں اور عورتوں پر لعنت فرمائی ہے، جو ایک دوسرے  جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں‘۔

  1. تخلیق میں تبدیلی: بلکہ یہ تو ’تشبہ‘ یا ’مشابہت‘ سے بھی بڑھ کر ،اللہ تعالی کی تخلیق میں تبدیلی کی سعی نا مسعود ہے ، جس پر شیطان اپنے چیلوں کو ابھارتا ہے۔ قرآنِ کریم میں آتا ہے:

“لَّعَنَهُ اللَّهُ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا * وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا”. [النساء:118،119]

’اللہ تعالی نے شيطان  پر لعنت كی ہے ۔اور اس مردود نے بیڑا اٹھایا ہے کہ تیرے بندوں میں سے میں مقرر شده حصہ لے کر رہوں گا۔اور انہیں راه سے بہکاتا ،اور باطل امیدیں دلاتا رہوں گا، اور انہیں سکھاؤں گا کہ جانوروں کے کان چیر دیں، اور ان سے کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تخلیق کو تبدیل کریں، سنو! جو شخص اللہ کو چھوڑ کرشیطان کو اپنا رفیق بنائے گا ،وه صریح نقصان میں ڈوبے گا‘۔

ٹرانس جینڈر  یقینا اللہ کی تخلیق میں کی جانے والی تبدیلیوں کی اب تک کی بدترین صورت ہے۔

  1. انسان مرد ہے یا عورت، اس کے ساتھ کئی ایک دینی اور دنیاوی احکامات جڑے ہوئے ہیں، لہذا اس کی جنس کے ساتھ کھلواڑ در حقیقت ان احکامات کے ساتھ کھلواڑ کا ذریعہ ہے۔   کیونکہ صرف اسلام ہی نہیں، تمام مذاہب میں کچھ احکامات اور ذمہ داریاں خاص مردوں کے لیے ہیں، اور کچھ عورتوں سے متعلق ہیں۔ ٹرانس جینڈر   جیسی حرکتوں  کی تائید، ان عالمگیر حقائق اور فطری اصولوں کی تکذیب و تردید ہے۔   مثلا ایک عورت ، جس کو وراثت سے آدھا حصہ ملنا ہے، وہ اگر خود کو مرد ڈکلیئر کردے، تو  اس کےساتھ کس بنیاد پر معاملہ کیا جائے گا؟  مردوں پر جہاد فرض ہے، کوئی مرد خود کو عورت ڈکلیئر کردے، تو کیا یہ فریضہ اس سے ساقط ہوجائے گا؟ اجنبی مرد اور عورت کا آپس میں پردہ  کرنا ضروری ہے، خلوت منع ہے۔ اگر ان میں سے ایک جنس تبدیل کرلے،  اور وہ دونوں ہی مرد یا عورت کہلوانا شروع ہوجائیں، تو کیا یہ سب پابندیاں ختم ہوجائیں گی؟ اگر کسی کی بیوی مرد ہونے کا دعوی کردے، تو اولاد کہاں سے آئے گی، یا پھر مرد بھی بچے جننے کی ذمہ داری اٹھالیں گے؟   اور حیض  ونفاس کے معاملات ان سے متعلق ہوجائیں گے؟!
  2. ہم جنس پرستی کا فروغ: اسلام میں جنسی خواہش کی تکمیل کا طریقہ یہ ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت آپس میں نکاح اور شادی کرتے ہیں۔ لہذا مرد کی مرد سے، یا عورت کی عورت سے شادی یا جنسی تسکین، یہ حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ لیکن اس ٹرانس جینڈر کی آڑ میں یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے گا۔ کوئی بھی دو ہم جنس پرست خود کو مرد اور عورت باور کروا کر، جو بھی کرنا چاہیں ، کرسکتے ہیں۔ حالانکہ فطرت اور شریعت دونوں اس کے خلاف ہیں۔ لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب کی ایک وجہ یہی ہم جنس پرستی تھی۔
  • ٹرانس جینڈر کی بنیاد:بے راہ راوی معاشرے میں شروع سے ہی رہی ہے، لیکن فطرت اس قدر مسخ ہوگئی ہو کہ  انسان تبدیلی جنس تک پہنچ جائے، اس کی مثال تاریخِ انسانی میں اس سے پہلے ناپید ہے۔ اس مرض میں مبتلا لوگوں نے اس کی بنیاد دو چیزوں پر رکھی ہے:
  1. آزادی: یعنی انسان کے دل میں جو آتا ہے، کرے۔ لہذا وہ خود کو مرد یا عورت جو بھی سمجھے، اس کی بنا پر تبدیلی کرے، یہ اس کی مرضی ہے۔ آزادی کا یہ تصور انتہائی بھیانک ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے انسان کو اگرچہ اپنے علاوہ کسی کا غلام نہیں بنایا، لیکن پھر بھی اس طرح آزاد نہیں چھوڑا کہ انسان، انسانیت کا ہی دشمن بن جائے۔ یہ آزادی نہیں، بلکہ انسانیت سوزی ہے۔  اور یہیں سے عقل مند کو ’مغربی آزادی‘  کی حقیقت سمجھ لینی چاہیے، کہ وہ  ان خوشنما نعروں کے پیچھے لگا کر کہاں تک لے جانا چاہتے ہیں؟
  2. اس کی دوسری بنیاد در حقیقت ایک نفسیاتی عارضہ ہے۔ یعنی ایک  انسان مکمل مرد یا عورت ہے۔ لیکن کسی نفسیاتی خلل کی بنا پر اسے اپنے مرد یا عورت ہونے سے نفرت ہوجاتی ہے۔ تو  اسے مکمل حق ہے کہ وہ خود  میں جو مرضی تبدیلی کرلے۔ حالانکہ نفسیاتی عوارض کا علاج کیا جاتا ہے۔ نہ کہ ان کی بنیاد پر مزید تخریب کاری کی جاتی ہے۔ ورنہ تو انسان  بعض دفعہ زندگی سے بھی تنگ آجاتا ہے، تو کیا اس کا علاج کرنے کی بجائے، اور اس کی زندگی حفاظت کرنے کی بجائے، اسے موت کے منہ میں دھکیل دیا جائے؟!

اگرچہ مادر پدر آزاد  معاشروں نے تو خود کشی کی بھی حمایت شروع کردی ہے، لیکن ہمارا روئے سخن،  ان انسانوں اور معاشروں کی طرف ہے ، جو خود کو شریعتِ الہی اور فطرتِ انسانی کا پابند سمجھتے ہیں۔ لہذا اسلامی ممالک میں اس قسم کے نفسیاتی مریضوں، خواہشات کے اسیروں، اور جنس و نسل کے فطری نظام  سے بغاوت کرنے  والوں کی حمایت کرنا، یا ان کے نام نہاد  حقوق کے تحفظ کی بات کرنا، یہ سب انتہائی قابلِ مذمت  فعل ہے،  اور عذابِ الہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

نوٹ: جیسا کہ استفتاء میں بھی وضاحت موجود ہے کہ  ٹرانس جینڈر اور  خنثی  یعنی انٹرسیکس  ہر دو میں فرق ہے۔مؤخر الذکر کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے، لیکن اس کی آڑ میں ٹرانس جینڈر ازم  یعنی تبدیلی جنس جیسی گندگی پھیلانا قطعا درست نہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ