سوال (4713)

الحمد للہ میں نے گیارہ اور بارہ تاریخ کو رمی مکمل کرلی ہے، لیکن میں ایک تحریر پڑھی ہے، اس میں یہ لکھا تھا کہ آپ تیرہ کو بھی رکیں اور تینوں جمرات کو کنکریاں ماریں، سنا ہے کہ ایک کنکر کے بدلے ایک کبیرہ گناہ معاف ہوتا ہے، اس طرح اکیس کبیرہ گناہ معاف ہونگے، میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں تیرہ کو رک جاؤں تو اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔ باقی یہ بھی بتائیں کہ تیرہ کو زوال کے بعد کنکریاں مارنی ہیں۔

جواب

جی تیرہ ذوالحجہ کو رکنا بھی درست ہے، تفصیل ملاحظہ فرمائیے

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَ اذۡکُرُوا اللّٰهَ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡدُوۡدٰتٍ فَمَنۡ تَعَجَّلَ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡه ۚ وَ مَنۡ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡهِ ۙ لِمَنِ اتَّقٰی وَ اتَّقُوا اللّٰه وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ اِلَیۡه تُحۡشَرُوۡنََ (سُورَةُ البَقَرَةِ آیت نمبر 203)

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا:
’’ایام معدودات ایام تشریق،، (۱۱، ۱۲، ۱۳ ذوالحجہ) ہیں۔‘‘
[ بخاری، العیدین، باب فضل العمل… قبل، ح: ۹۶۹ ]
پھر امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے: ’’منیٰ میں ٹھہرنے کے دنوں میں تکبیر کہنا اور جب عرفات کو جائے۔‘‘
عمر رضی اللہ عنہ منیٰ میں اپنے خیمے کے اندر تکبیر کہتے، مسجد والے اسے سنتے تو وہ بھی تکبیر کہتے اور بازاروں والے بھی تکبیر کہتے، یہاں تک کہ منیٰ تکبیرات سے گونج اٹھتا۔ اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنھما بھی ان دنوں میں منیٰ میں تکبیر کہتے، نمازوں کے بعد تکبیر کہتے اور اپنے بستر پر، اپنے خیمے میں، اپنی مجلس میں اور چلتے پھرتے ان تمام دنوں میں تکبیر کہتے اور ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا قربانی کے دن تکبیر کہتیں اور عورتیں ابان بن عثمان اورعمر بن عبد العزیز کے پیچھے مسجد میں مردوں کے ساتھ تشریق کی راتوں میں تکبیر کہتیں۔ [ بخاری، العیدین، باب التکبیر أیام منیً …، قبل ح:  ۹۷۰]
معلوم ہوا ان ایام سے مراد عرفہ کی صبح سے لے کر ۱۳ ذوالحجہ کے سورج غروب ہونے تک کا وقت ہے۔
قربانی کے دن اور ایام تشریق میں روزہ رکھنا منع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’یہ کھانے پینے اور اللہ کے ذکر کے دن ہیں۔‘‘ [ مسلم، الصیام، باب تحریم صوم أیام التشریق …: ۱۱۴۱ ]
اللہ کے ذکر سے مراد وہ تمام تکبیرات ہیں جو جمرات کو کنکر مارتے وقت، جانور ذبح کرتے وقت یا دوسرے اوقات میں کہی جاتی ہیں اور تکبیر کے علاوہ کوئی بھی ذکر ہو وہ بھی اس حکم میں شامل ہے۔ یعنی ان ایام میں ذکر الٰہی میں مصروف رہو۔
لِمَنِ اتَّقٰى، کا مطلب:
یعنی گیارہ اور بارہ کو دو دن جمرات کو کنکر مار کر چلا آئے تب بھی جائز ہے اور اگر کوئی تاخیر کرے یعنی پورے تین دن منیٰ میں ٹھہرا رہے تو بھی جائز ہے، بشرطیکہ دل میں تقویٰ ہو اور حج کے احکام خلوص سے ادا کرے۔ (ابن کثیر)

فضیلۃ العالم عبد الخالق سیف حفظہ اللہ