سوال

مجھے ایک شرعی مسئلہ پوچھنا تھا ۔طلاق سے متعلق 14اگست کو بحث و تکرار ہوئی فیملیز کے درمیان، جس میں میں بیٹھا ہوا تھا ،اور میری وائف بھی موجود تھی، شکوے شکایات جب بہت زیادہ ہونے لگ گئے اور بحث نہیں سمٹ رہی تھی ،تو میں نے یہ الفاظ ایک دفعہ کہے  کہ ’مجھے نہیں رکھنی میری طرف سے ختم ‘۔یہ کہہ کر ہم لوگ اٹھ گئے، کیونکہ ہم لوگ لڑکی والوں کی طرف تھے تو اپنے گھر واپس آ گئے۔

ایک دن گزرنے کے بعد ہی لڑکی والوں کی طرف سے مجھے وکیل کی کال آنے لگ گئی جس سے میرے والدین کافی پریشان ہوئے، کیوں کے میں دبئی میں مقیم ہوں اور مجھے 20 اگست کو دبئی واپس آنا تھا ،تو میرے والدین نے یہ سوچ کر کہ تمہارے دبئی جانے میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے، قانونی کاروائی نہ کی جائے ،میرے سامنے ایک تحریر لا کر رکھی، جو کہ طلاق نامہ تھی اور اس میں تین طلاق لکھی ہوئی تھی، مجھے دستخط کرنے کو کہا جس کو میں نے یہ کہہ کر منع کیا ،کہ میں کبھی بھی اپنی طرف سے ختم نہیں کرنا چاہتا ۔لیکن کیونکہ وہ بہت زیادہ پریشان تھے انہوں نے کہا کے کہ’ تم یہ دستخط کر دو ہم یہ دستخط تمہاری سیفٹی کے لیے کروا رہے ہیں ،نہ ہم یہ طلاق نامہ کسی کو بھیجیں گے نہ بتائیں گے، اس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ تمہارے دبئی جانے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے‘ جس پر میں نے دستخط کر دئے اور کہا کہ میں صرف آپ کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے دستخط کر رہا ہوں، لیکن اس تحریر یا طلاق نامے کی کوئی حیثیت یا مرتبہ نہیں ۔

جس وقت معاملات خراب ہوئے، اس وقت سے اب تک میری وائف امید سے ہے اور پانچواں مہینہ چل رہا ہے، اور اگست میں ہی جب میں دبئی پہنچا تو ہم نے آپس میں رجوع کرلیا، لیکن ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ وہ پاکستان میں ہے اور میں دبئی میں۔ اس دوران میں نے ہر مہینے نان نفقہ بھی دیا ہے کیوں کہ میرا ارادہ اور نیت اس رشتے کو ختم کرنے کی نہیں تھی، تو میں نے دبئی آکر طلاق نامہ پھاڑ دیا، اور ابھی تک کے رابطے میں اپنی وائف کو نہیں بتایا کہ ایسا کوئی طلاق نامہ دستخط کیا تھا ۔

اس طلاق نامے کا صرف اور صرف میرے والدین اور مجھے علم ہے، مجھے اور میرے والدین کو اس دستخط کرنے کی شرعی حیثیت کا بالکل بھی معلوم نہیں تھا ،اور اگر میرے دبئی آنے کا معاملہ نہ ہوتا تو اس تحریر یا طلاق نامے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،اس معاملے پہ مجھے شرعی رہنمائی چاہیے تھی ،کیوں کہ ہم میاں بیوی اگست سے ہی رجوع کرنا چاہتے ہیں کیونکہ میرے نزدیک اس طلاق نامے کی کوئی حیثیت نہیں تھی ،اور میری وائف کو اس کا علم نہیں تو آیا یہ صحیح ہے کہ نہیں؟ اور رجوع کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • جب كوئى شخص اپنى بيوى كو طلاق دے دے اور يہ پہلى يا دوسرى طلاق ہو ،اور بيوى ابھى عدت ميں ہى ہو، اس كى عدت ختم نہ ہوئى ہو ( يعنی حاملہ ہو تو وضع حمل نہ ہوا ہو، يا پھر اس كے تين حيض پورے نہ ہوئے ہوں ) تو خاوند كے ليے اپنى بيوى سے رجوع كرنا جائز ہے۔

اور وہ رجوع كے ليے ” ميں نے تجھ سے رجوع كيا ” يا پھر ميں نے تجھے ركھ ليا ” كہے تو يہ رجوع صحيح ہوگا۔ يا پھر رجوع كى نيت سے بيوى سے تعلقات قائم كرلینا بھی رجوع ہی تصور ہوتا ہے۔

رجوع ميں دو گواہ بنانا سنت ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

{فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ} [الطلاق: 2]

’جب وہ عورتيں اپنى عدت پورى كرنے كے قريب پہنچ جائيں، توانہيں يا تو قاعدہ كے مطابق اپنے نكاح ميں رہنے دو ،يا پھر دستور كے مطابق انہيں اپنے سے الگ كر دو، اور آپس ميں دو عادل شخصوں كو گواہ بنا لو‘۔

  • ليكن اگر پہلى يا دوسرى طلاق ہو اور بيوى كى عدت ختم ہو جائے تو پھر نيا عقد نكاح كرنا ضرورى ہے۔ اور اس کا طریقہ وہی ہے جو عموما نکاح کا ہوتا ہے کہ  ولى كو نكاح كا پيغام دے كر اس سے رشتہ طلب كريگا، اور جب ولى اور عورت رضامند ہوں، تو پھر نئے مہر كے ساتھ گواہوں كى موجودگى ميں عقدِ نكاح ہوگا۔

ليكن اگر آخرى ( يعنى تيسرى ) طلاق ہو جائے تو پھر عدت ختم ہونے کا انتظار کیے بغیر، وہ عورت اس كے ليے حرام ہو جاتى ہے، اور رجوع کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ الا كہ اس  سےکوئی دوسرا شخص  گھر بسانے کی نیت سے شرعى نكاح كرے ، اور پھر  وہ شخص فوت ہوجائے، یا پھر ویسے طلاق دے دے، تو ایسی صورت میں  پہلا مرد اس عورت سے نکاح کرسکتا ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ} [البقرة: 230]

اور اگر وہ اسے ( تيسرى ) طلاق دے دے، تو وہ اس كے بعد اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں ہو گى جب تك كہ وہ كسى دوسرے شخص سے نكاح نہ كر لے۔

  • یہاں ایک اور بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طلاق کی دو قسمیں ہیں: صریح اور کنایہ۔ پہلی قسم جس میں واضح طور پر لفظ طلاق بولا جاتا ہے، وہ طلاق ہوجاتی ہے، چاہے نیت نہ بھی ہو۔ جبکہ دوسری قسم جس میں ’تم آزاد ہو‘’اپنے گھر چلی جاؤ‘، یا مجھے نہیں رکھنا، میری طرف سے ختم‘ وغیرہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں، تو یہ خاوند کی نیت پر منحصر ہے، اگر وہ واقعتا طلاق کی نیت سے اس قسم کے الفاظ بولے، تو یہ طلاق ہوجاتی ہے۔ جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جونیہ عورت  کو کہا تھا:

“الحقي بأهلك”

اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ۔ (بخاری:5254)

یہ الفاظ اگرچہ صریح طلاق کے نہیں ہیں، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے مراد طلاق تھی،  جیساکہ  امام ابن عبد البر  وغیرہ نے لکھا ہے۔ (الاستذکار6/23)

جبکہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی یہی الفاظ اپنی بیوی کے لیے بولے تھے، البتہ ان کی مراد طلاق نہ تھی، لہذا ان کی طلاق واقع نہ ہوئی تھی۔(بخاری:4418)

گویا اس میں طلاق کے وقوع اور عدم وقوع کا فیصلہ نیت کے مطابق کیا جائے گا۔

  • صورتِ مسؤلہ میں سائل نے دو دفعہ طلاق کی بات ذکر کی ہے، پہلی طلاقِ کنایہ ہے، اور چونکہ بقول اس کے اس کی طلاق دینے کی نیت نہیں تھی، لہذا طلاق نہیں ہوئی۔ جبکہ دوسری مرتبہ جو طلاق لکھی ہوئی تھی، اس پیپر پر اس نے دستخط کیے، یہ ایک طلاق ہو جائے گی ، بھلا اسکی نیت طلاق کی نہیں تھی، کیونکہ طلاقِ صریح میں نیت ہو نہ ہو، طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔ ليكن  چونکہ بیوی عدت کے اندر   ہے، لہذا  سائل کے پاس رجوع کا حق موجود ہے، اور وہ رجوع کرسکتا ہے۔
  • مزید کچھ گزارشات سن لیں: طلاق کا حق مرد کے پاس ہے، جب اس کی طرف سے طلاق ہوجائے، تو بیوی کو پتہ ہو یا نہ ہو، طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح نکاح طلاق یہ کوئی کھیل اور مذاق نہیں ہیں، یہ اللہ کی حدود اور احکامات ہیں، کاروبار یا اندرون بیرون آنے جانے ، یا دیگر معاملات کی وجہ سے ان سے کھلواڑ مناسب نہیں، جیسا کہ سوال سے معلوم ہوا۔ والدین کو اس پر اللہ تعالی سے توبہ کرنی چاہیے۔ جس طرح دنیا میں رہنے کے لیے دنیا کے متعلق جاننا ضروری ہے، اسی طرح شرعی احکامات ومعاملات کو سیکھنا بھی ضروری ہے، تاکہ ہم خلافِ شریعت کاموں سے بچ سکیں۔  یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ دنیا میں رہتے ہوئے، اونچ نیچ ہوجاتی ہے، فیملی میں مسائل ہوجاتے ہیں، لیکن اس کا حل یہ نہیں ہوتا کہ انسان آپے سے باہر ہو کر طلاق تک پہنچ جائے، ان سب مسائل و معاملات کو ٹھنڈے دل اور ہوش سے دیکھنا چاہیے۔ اللہ تعالی آپ کو خوش وخرم رکھے، اور مشکلات ومعاملات آسان فرمائے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ