حصول مغفرت کے اسباب
ابن آدم خطاکار ہے اس کے دل ، کان ، آنکھ اور جسم کے اعضاء سے ہر وقت گناہ سرزد ہوتے ہیں ۔اور پھر اس کے دل میں یہ خواہش بھی رہتی ہے کہ اس کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ معاف کرکے اس کو جنت میں داخل کردے ۔تاہم گناہوں کو مٹانے والے چند اعمال ذکر کرتے ہیں ان کو ہر مسلمان اپنی زندگی کا حصہ بنائے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو مٹاکر اس کو جنت کا مہمان بنادے ۔
(1): توحید باری تعالیٰ:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:
يَا ابْنَ آدَمَ ! إِنَّكَ لَوْ أَتَيْتَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا ثُمَّ لَقِيتَنِي لَا تُشْرِكُ بِي شَيْئًا لَأَتَيْتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً . (جامع الترمذي : 3540 اسناده حسن )
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اے آدم کے بیٹے! اگر تو زمین برابر بھی گناہ کر بیٹھے اور پھر مجھ سے (مغفرت طلب کرنے کے لیے) ملے لیکن میرے ساتھ کسی طرح کا شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس اس کے برابر مغفرت لے کر آؤں گا (اور تجھے بخش دوں گا)‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ثُمَّ كَفَرُوۡا ثُمَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ كَفَرُوۡا ثُمَّ ازۡدَادُوۡا كُفۡرًا لَّمۡ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَـغۡفِرَ لَهُمۡ وَلَا لِيَـهۡدِيَهُمۡ سَبِيۡلًا ۞ (سورة النساء :137)
بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے، پھر انھوں نے کفر کیا، پھر ایمان لائے، پھر انھوں نے کفر کیا، پھر وہ کفر میں بڑھ گئے، اللہ کبھی ایسا نہیں کہ انھیں بخش دے اور نہ یہ کہ انھیں کسی راستے کی ہدایت دے۔
کیونکہ کفر کی بخشش نہیں ہوتی، لیکن اگر کوئی شخص تائب ہوجائے اور
ایمان لے آئے تو اس کے تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
(2): توحید پر وفات:
عَنْ عُثْمَانَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَنْ مَاتَ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ “. (صحيح مسلم : 26)
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص مر گیا اور وہ ( یقین کے ساتھ ) جانتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، وہ جنت میں داخل ہو گا ۔‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ ثُمَّ مَاتُوۡا وَهُمۡ كُفَّارٌ فَلَنۡ يَّغۡفِرَ اللّٰهُ لَهُمۡ ۞ (سورة محمد : 34)
بیشک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا، پھر اس حال میں مر گئے کہ وہ کافر تھے تو انھیں اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔
(3): اللہ تبارک وتعالیٰ پر ایمان:
جب فرعون کے جادوگر اپنی بازی ہار بیٹھے تب جادوگروں نے فرعون سے مخاطب ہوکر یہ الفاظ کہے تھے ۔
اِنَّاۤ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَـغۡفِرَ لَـنَا خَطٰيٰنَا وَمَاۤ اَكۡرَهۡتَـنَا عَلَيۡهِ مِنَ السِّحۡرِؕ وَاللّٰهُ خَيۡرٌ وَّاَبۡقٰى ۞
(سورة طه : 73)
بیشک ہم اپنے رب پر اس لیے ایمان لائے ہیں کہ وہ ہمارے لیے ہماری خطائیں بخش دے اور جادو کے وہ کام بھی جن پر تو نے ہمیں مجبور کیا ہے اور اللہ بہتر اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔
(4): استغفار:
وَاسْتَغْفِرُواْ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔ (البقرة:199)
اور اللہ سے بخشش مانگو، بیشک اللہ بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
وَقَالُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (البقرة:285)
اور انھوں نے کہا ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، تیری بخشش مانگتے ہیں اے ہمارے رب ! اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا (النساء:110)
:اور جو بھی کوئی برا کام کرے، یا اپنی جان پر ظلم کرے، پھر اللہ سے بخشش مانگے وہ اللہ کو بےحد بخشنے والا، نہایت مہربان پائے گا۔
وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُواْ اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ وَهُمْ يَعْلَمُونَ . أُوْلَـئِكَ جَزَآؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ۔ (آل عمران:135-136).
اور وہ لوگ کہ جب کوئی بےحیائی کرتے ہیں، یا اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، پس اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا اور کون گناہ بخشتا ہے ؟ اور انھوں نے جو کیا اس پر اصرار نہیں کرتے، جب کہ وہ جانتے ہوں۔ یہ لوگ ہیں جن کی جزا ان کے رب کی طرف سے بڑی بخشش اور ایسے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں اور (یہ) عمل کرنے والوں کا اچھا اجر ہے۔
(5): دعا:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ مَا دَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ عَلَى مَا كَانَ فِيكَ وَلَا أُبَالِي۔
(جامع الترمذي : 3540 اسناده حسن )
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :اے آدم کے بیٹے! جب تک تو مجھ سے دعائیں کرتا رہے گا اور مجھ سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ رکھے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا،چاہے تیرے گناہ کسی بھی درجے پر پہنچے ہوئے ہوں،مجھے کسی بات کی پرواہ و ڈر نہیں ہے،
(6): اطاعت رسول:
ارشاد باری تعالیٰ ہے
قُلۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوۡنِىۡ يُحۡبِبۡكُمُ اللّٰهُ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞ (سورة آل عمران:31)
اے پیغمبر آپ کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہیں تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بےحد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
(7): سنت کی برکت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ تَوَضَّأَ كَمَا أُمِرَ وَصَلَّى كَمَا أُمِرَ، غُفِرَ لَهُ مَا قَدَّمَ مِنْ عَمَلٍ. (سنن النسائي : 144)
جو وضو کرے اسی طرح جیسے اسے حکم دیا گیا ہے اور نماز پڑھے اسی طرح جیسے اسے حکم دیا گیا ہے، تو اس کے وہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے جنہیں اس نے اس سے پہلے کیا ہو ۔
(8): تقوی:
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّـكُمۡ فُرۡقَانًا وَّيُكَفِّرۡ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡؕ وَ اللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ ۞ (سورة الانفال :29)
:اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈروگے تو وہ تمہارے لیے (حق و باطل میں) فرق کرنے کی بڑی قوت بنادے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔
(9): اللہ تعالیٰ کے داعی کی بات قبول کرنا:
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
يٰقَوۡمَنَاۤ اَجِيۡبُوۡا دَاعِىَ اللّٰهِ وَاٰمِنُوۡا بِهٖ يَغۡفِرۡ لَـكُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِكُمۡ وَيُجِرۡكُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَ لِيۡمٍ ۞(سورة الاحقاف : 31)
اے ہماری قوم ! اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول کرو اور اس پر ایمان لے آؤ، وہ تمہیں تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے گا۔
(10): لوگوں کو معاف کرنا:
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَلۡيَـعۡفُوۡا وَلۡيَـصۡفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ يَّغۡفِرَ اللّٰهُ لَـكُمۡ ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞ (سورة النور : 22)
اور لازم ہے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخشے اور اللہ بےحد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
(11): ماہ رمضان کے روزے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ “.
(صحيح البخاري :38)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے رمضان کے روزے ایمان اور خالص نیت کے ساتھ رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے۔
(12): ماہ رمضان میں قیام:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ “.
(صحيح البخاري :37)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی رمضان میں (راتوں کو) ایمان رکھ کر اور ثواب کے لیے عبادت کرے اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔
(13): انفاق فی سبیل اللہ:
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا يُّضٰعِفۡهُ لَـكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡؕ وَاللّٰهُ شَكُوۡرٌ حَلِيۡمٌۙ ۞ (سورة التغابن :17)
اگر تم اللہ کو قرض دو گے، اچھا قرض تو وہ اسے تمہارے لیے کئی گنا کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑا قدردان، بےحد بردبار ہے۔
الَّذِينَ يُنفِقونَ فِي السَّرَّاء وَالضَّرَّاء وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
(سورة آل عمران : 134)
جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
(14): کامل وضوء:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الصُّنَابِحِيِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ فَتَمَضْمَضَ خَرَجَتِ الْخَطَايَا مِنْ فِيهِ، فَإِذَا اسْتَنْثَرَ خَرَجَتِ الْخَطَايَا مِنْ أَنْفِهِ، فَإِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ خَرَجَتِ الْخَطَايَا مِنْ وَجْهِهِ، حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَشْفَارِ عَيْنَيْهِ، فَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَتِ الْخَطَايَا مِنْ يَدَيْهِ، حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِ يَدَيْهِ، فَإِذَا مَسَحَ بِرَأْسِهِ خَرَجَتِ الْخَطَايَا مِنْ رَأْسِهِ، حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ أُذُنَيْهِ، فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَيْهِ خَرَجَتِ الْخَطَايَا مِنْ رِجْلَيْهِ، حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ كَانَ مَشْيُهُ إِلَى الْمَسْجِدِ وَصَلَاتُهُ نَافِلَةً لَهُ “.
(سنن النسائي : 103)
سیدنا عبد اللہ صنابحی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جب مومن بندہ وضو کرتے ہوئے کلی کرتا ہے تو اس کے منہ کی غلطیاں اس کے منہ سے نکل جاتی ہیں،پھر جب وہ ناک جھاڑتا ہے تو ناک کی غلطیاں ناک سے نکل جاتی ہیں،پھر جب وہ منہ دھوتا ہے تو چہرے کی غلطیاں چہرے سے حتی کہ آنکھوں کی پلکوں سے نکل جاتی ہیں،پھر جب وہ اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو ہاتھوں کی غلطیاں اس کے ہاتھوں سے حتی کہ ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے نکل جاتی ہیں،پھر جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر کی غلطیاں سر سے حتی کہ اس کے کانوں سے نکل جاتی ہیں،پھر جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو اس کے پاؤں کی غلطیاں پاؤں سے حتی کہ پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے نکل جاتی ہیں،پھر اس کا مسجد کی طرف چلنا اور اس کی نماز (ان دو کاموں کا ثواب) اس کے لیے زائد ہوتے ہیں۔
(15): نیکیوں میں مشغول ہوجانا:
اِنَّ الۡحَسَنٰتِ يُذۡهِبۡنَ السَّيِّاٰتِ ؕ ذٰ لِكَ ذِكۡرٰى لِلذّٰكِرِيۡنَ ۞ (سورة هود :114)
بیشک نیکیاں برائیوں کو لے مٹا دیتی ہیں۔ یہ یاد کرنے والوں کے لیے یاد دہانی ہے۔
(16): نمازوں کی پابندی:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ” أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا مَا تَقُولُ ذَلِكَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ ؟ ” قَالُوا : لَا يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا. قَالَ : ” فَذَلِكَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا “.
(صحيح البخاري : 528)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! ہرگز نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
(17): جمعے کی نماز کی پابندی:
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِي لِلصَّلاَةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ۔ (الجمعة:9).
اے ایمان والو ! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خریدو فروخت چھوڑ دو ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ مَا لَمْ تُغْشَ الْكَبَائِرُ “. (صحيح مسلم : 233)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ پانچوں نمازیں اور ( ہر ) جمعہ ( دوسرے ) جمعہ تک درمیانی مدت کے گناہوں کا کفارہ ( ان کو مٹانے والے ) ہیں جب تک کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے ۔‘‘ ۔
(18): مسجد اور نماز سے مضبوط تعلق:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا، وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ ؟ ” قَالُوا : بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : ” إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ.(صحيح مسلم : 251)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ کیا میں تمہیں ایسی چیز سے آگاہ نہ کروں جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے اور درجات بلند فرماتا ہے ؟ ‘‘ صحابہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا :’’ ناگواریوں کے باوجود اچھی طرح وضو کرنا ، مساجد تک زیادہ قدم چلنا ، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ، سو یہی رباط ( شیطان کے خلاف جنگ کی چھاؤنی ) ہے ۔‘‘
(19): ذکر الہی اور دعاؤں کی پابندی:
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
وَالذّٰكِرِيۡنَ اللّٰهَ كَثِيۡرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا ۞ (سورة الأحزاب : 35)
اللہ کا بہت ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، ان کے لیے اللہ نے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔
(20): حج و عمرہ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ “.
(صحيح البخاري: 1773)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
(21): آمین بالجھر:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا ؛ فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ “. (صحيح البخاري : 780)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام آمين کہے تو تم بھی آمين کہو۔ کیونکہ جس کی آمين ملائکہ کے آمین کے ساتھ ہوگئی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
(22): مؤمن کو تکلیف پہنچنا:
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ مِنْ شَوْكَةٍ فَمَا فَوْقَهَا، إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً، أَوْ حَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً “. (صحيح مسلم : 2572)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ ایک مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ تعالیٰ اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے ۔‘‘
(23): صبر:
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
إِلاَّ الَّذِينَ صَبَرُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَـئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ.(هود:11)
مگر وہ لوگ جنھوں نے صبر کیا اور نیک اعمال کیے، یہ لوگ ہیں جن کے لیے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر ہے۔
وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الأُمُورِ (الشورى:43)
اور بلاشبہ جو شخص صبر کرے اور معاف کردے تو بیشک یہ یقینا بڑی ہمت کے کاموں سے ہے۔
(24):تحیۃ الوضوء:
عن عقبة بن عامر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَتَوَضَّأُ، فَيُحْسِنُ وُضُوءَهُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ مُقْبِلٌ عَلَيْهِمَا بِقَلْبِهِ وَوَجْهِهِ إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ (صحيح مسلم : 234)
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جو بھی مسلمان وضو کرتا ہے اور وہ اچھی طرح وضو کرتا ہے ، پھر کھڑے ہو کر پوری یکسوئی اور توجہ کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھتا ہے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔‘‘
وعن عثمان عن النبي صلى الله عليه وسلم: ” مَنْ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِي هَذَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَا يُحَدِّثُ فِيهِمَا نَفْسَهُ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ “. (صحيح البخاري :159)
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص میری طرح ایسا وضو کرے،پھر دو رکعت پڑھے،جس میں اپنے نفس سے کوئی بات نہ کرے۔تو اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔
عَنْ حُمْرَانَ،فَلَمَّا تَوَضَّأَ عُثْمَانُ قَالَ: أَلاَ أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا لَوْلاَ آيَةٌ مَا حَدَّثْتُكُمُوهُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لاَ يَتَوَضَّأُ رَجُلٌ يُحْسِنُ وُضُوءَهُ،وَيُصَلِّي الصَّلاَةَ،إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الصَّلاَةِ حَتَّى يُصَلِّيَهَا» قَالَ عُرْوَةُ: الآيَةَ إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ البَيِّنَاتِ (البقرة: 159) (صحيح البخاري : 160)
سیدنا حمران بیان کرتے ہیں کہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کیا تو فرمایا میں تم کو ایک حدیث سناتا ہوں،اگر قرآن پاک کی ایک سورت (نازل) نہ ہوتی تو میں یہ حدیث تم کو نہ سناتا۔میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ جب بھی کوئی شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے اور (خلوص کے ساتھ) نماز پڑھتا ہے تو اس کے ایک نماز سے دوسری نماز کے پڑھنے تک کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔عروہ کہتے ہیں وہ آیت یہ ہے (جس کا ترجمہ یہ ہے کہ) جو لوگ اللہ کی اس نازل کی ہوئی ہدایت کو چھپاتے ہیں جو اس نے لوگوں کے لیے اپنی کتاب میں بیان کی ہے۔ان پر اللہ کی لعنت ہے اور (دوسرے) لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔
تحیۃ الوضوء جنت کو واجب کرنے والے اعمال میں سے ہے ۔جیسا کہ حدیث بلال رضی اللہ عنہ سے واضح ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِبِلَالٍ عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ : ” يَا بِلَالُ، حَدِّثْنِي بِأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ فِي الْإِسْلَامِ ؛ فَإِنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ “. قَالَ : مَا عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَى عِنْدِي أَنِّي لَمْ أَتَطَهَّرْ طَهُورًا فِي سَاعَةِ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ، إِلَّا صَلَّيْتُ بِذَلِكَ الطُّهُورِ مَا كُتِبَ لِي أَنْ أُصَلِّيَ.
(صحيح البخاري : 1149)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے فجر کے وقت پوچھا کہ اے بلال! مجھے اپنا سب سے زیادہ امید والا نیک کام بتاؤ جسے تم نے اسلام لانے کے بعد کیا ہے کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی چاپ سنی ہے۔سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں نے تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا کہ جب میں نے رات یا دن میں کسی وقت بھی وضو کیا تو میں اس وضو سے نفل نماز پڑھتا رہتا جتنی میری تقدیر لکھی گئی تھی۔
(25): وضوء کے بعد دعا کا اہتمام:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ يَتَوَضَّأُ، فَيُبْلِغُ – أَوْ : فَيُسْبِغُ – الْوَضُوءَ، ثُمَّ يَقُولُ : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، إِلَّا فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةُ، يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ “. (مسلم 234).
’’ تم میں سے جو شخص بھی وضو کرے اور اپنے وضو کو پورا کرے ( یا خوب اچھی طرح وضو کرے ) پھر یہ کہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، جس سے چاہے داخل ہو جائے ۔‘‘
(26): اذان:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ سَمِعَهُ مِنْ فَمِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ يُغْفَرُ لَهُ بِمَدِّ صَوْتِهِ وَيَشْهَدُ لَهُ كُلُّ رَطْبٍ وَيَابِسٍ.
(سنن النسائي : 646 و إسناده حسن)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے منہ مبارک سے سنا،آپ فرما رہے تھے: ’’مؤذن کی بخشش کی جاتی ہے جہاں تک اس کی (اذان کی) آواز پہنچے اور ہر خشک و تر چیز (جاندار اور بے جان) اس کے لیے گواہی دے گی۔‘‘
(27):اذان کا جواب دینا:
عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : ” مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، غُفِرَ لَهُ ذَنْبُهُ “.
(صحيح مسلم : 386)
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : جس نے مؤذن کی آواز سنتے ہوئے یہ کہا : أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ وأن محمدا عبده ورسوله اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ رضيت بالله ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا میں اللہ کے رب ہونے پر اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں ۔ تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے ۔
(28):اذان کے بعد دعا کا اہتمام:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ النِّدَاءَ: اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ،وَالصَّلاَةِ القَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الوَسِيلَةَ وَالفَضِيلَةَ،وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ،حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ.
(صحيح البخاري : 614)
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اذان سن کر یہ کہے اللہم رب ہذہ الدعوۃ التامۃ والصلوٰۃ القائمۃ آت محمدا الوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقاما محموداً الذی وعدتہ اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی۔
(29): رکوع کے بعد دعا کا اہتمام:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا قَالَ الإِمَامُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ،فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ،فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ المَلاَئِكَةِ،غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
(صحيح البخاري : 796)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللہم ر بنا و لک الحمد کہو۔کیوں کہ جس کا یہ کہنا فرشتوں کے کہنے کے ساتھ ہوگا،اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے
(31):کھانے کے بعد دعا کا اہتمام:
عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ مَنْ أَكَلَ طَعَامًا ثُمَّ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي هَذَا الطَّعَامَ وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ ۔
(سنن ابي داود : 4023 و إسناده حسن)
جناب سہل اپنے والد معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص کھانا کھانے کے بعد یوں دعا کرے «الحمد للہ الذی أطعمنی ہذا الطعام ورزقنیہ من غیر حول منی ولا قوۃ» حمد اس اللہ کی جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور بغیر میری کسی کوشش و قوت کے مجھے یہ رزق عنایت فرمایا،تو اس کے اگلے اور پچھلے سب گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
(32):کپڑا پہنتے وقت دعا کا اہتمام:
عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ وَمَنْ لَبِسَ ثَوْبًا فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي هَذَا الثَّوْبَ وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ ۔
(سنن ابي داود : 4023 و إسناده حسن)
جناب سہل اپنے والد معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’اور جو شخص کپڑا پہنے پھر یہ دعا کرے «الحمد للہ الذی کسانی ہذا الثوب ورزقنیہ من غیر حول منی ولا قوۃ» حمد اس اللہ کی جس نے مجھے یہ کپڑا پہنایا اور بغیر میری کسی کوشش اور قوت کے مجھے یہ عنایت فرمایا،تو اس کے اگلے اور پچھلے (سب) گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
(33):نماز کے بعد ذکر:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَنْ سَبَّحَ اللَّهَ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَحَمِدَ اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَكَبَّرَ اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، فَتْلِكَ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ “. وَقَالَ، تَمَامَ الْمِائَةِ : ” لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، غُفِرَتْ خَطَايَاهُ، وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ “. (صحيح مسلم : 597)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس نے ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ تینتیس دفعہ الحمد اللہ اور تینتیس بار اللہ اکبر کہا ، یہ ننانوے ہو گئے اور سو پورا کرنے کے لیے لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ، لہ الملک ولہ الحمد ، وہو علی کل شیء قدیر کہا اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے ، چاہے وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں ۔‘‘
(34):خوف الہٰی:
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
اِنَّ الَّذِيۡنَ يَخۡشَوۡنَ رَبَّهُمۡ بِالۡغَيۡبِ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّاَجۡرٌ كَبِيۡرٌ ۞ ( سورۃ الملك : 12)
یقینا جو لوگ اپنے رب سے بغیر دیکھے ڈرتے ہیں، ان کے لیے بڑی بخشش اور بڑا اجر ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
اِنَّمَا تُنۡذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكۡرَ وَخَشِىَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَيۡبِۚ فَبَشِّرۡهُ بِمَغۡفِرَةٍ وَّاَجۡرٍ كَرِيۡمٍ ۞
(سورة يٰس : 11)
تو تو صرف اسی کو ڈراتا ہے جو نصیحت کی پیروی کرے اور رحمان سے بن دیکھے ڈرے۔ سو اسے بڑی بخشش اور باعزت اجر کی خوش خبری دے۔
تحریر: افضل ظہیر جمالی