سوال (3734)

“رأيتُ عمرَ إذَا غضِبَ أخذَ بِهَذا، وأشارَ إلى سَبَلَتِه”

علماء کرام اس روایت کی صحت کیسی ہے؟

جواب

مونچھوں کو بالکل ختم کرنے کا حکم نہیں بلکہ ترچھوانے، کاٹنے کا حکم ہے، ہونٹ ننگے ہوں، زیادہ بھاری نہ ہوں۔ دیکھنے میں کفار، سکھوں کی طرح اگر پھیلی ہوئی بری نہ لگیں تو چھوٹی مونچھوں کو تاؤ (بل) دے سکتے ہیں۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والا اثر ثابت ہے۔ [العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله: 1589]

حَدثنِي أبي قَالَ حَدثنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى الطَّبَّاعُ قَالَ رَأَيْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ وَافِرَ الشَّارِب لشاربه ذنبتان فسأتله عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ إِذَا كَرَبَهُ أَمْرٌ فَتَلَ شَارِبَهُ،

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب پریشان ہوتے تو اپنی مونچھوں کو تاؤ(بل) دیتے تھے۔
[العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله ٢/‏٧٣ — أحمد بن حنبل (ت ٢٤١)] سندہ حسن
ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب

فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ