سوال (3269)
ایسا کوئی واقعہ کتب سیرت میں ملتا ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو 80 بکریاں قصاص دی تھیں، کیونکہ آپ کا جوتا اس کے پاوں پر آگیا تھا، اس طرح کی کوئی بات ہے؟
جواب
ہمارے علم کے مطابق اس سیاق سے کوئی واقعہ مستند و معتبر کتب متون و سیر و تاریخ میں موجود نہیں ہے، اور قابل غور بات کہ صرف جوتا پاوں پر آجانے پر قصاص میں 80 بکریاں دینا کیا معنی رکھتا ہے؟ قرآن و حدیث میں تو ایسا کوئی قصاص ذکر نہیں ہوا ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
واقعہ یوں نہیں، بلکہ صحابی کا پاؤں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاؤں پر آیا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں کوڑے سے پیچھے ہٹایا تھا، پھر ان کی دلجوئی کے لیے اسی بکریاں دی تھیں۔
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ قَالَ: زَحَمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ وَفِي رِجْلِي نَعْلٌ كَثِيفَةٌ، فَوَطِئْتُ بِهَا عَلَى رِجْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَفَحَنِي نَفْحَةً بِسَوْطٍ فِي يَدِهِ، وَقَالَ:”بِاسْمِ اللَّهِ، أَوْجَعْتَنِي” قَالَ: فَبِتُّ لِنَفْسِي لَائِمًا أَقُولُ: أَوْجَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَبِتُّ بِلَيْلَةٍ كَمَا يَعْلَمُ اللَّهُ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا رَجُلٌ يَقُولُ: أَيْنَ فُلَانٌ؟ قَالَ: قُلْتُ: هَذَا وَاللَّهِ الَّذِي كَانَ مِنِّي بِالْأَمْسِ. قَالَ: فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا مُتَخَوِّفٌ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:”إِنَّكَ وَطِئْتَ بِنَعْلِكَ عَلَى رِجْلِي بِالْأَمْسِ فَأَوْجَعْتَنِي، فَنَفَحْتُكَ نَفْحَةً بِالسَّوْطِ، فَهَذِهِ ثَمَانُونَ نَعْجَةً، فَخُذْهَا بِهَا”.
[سنن الدارمي ، الْمُقَدِّمَةُ ، بَابٌ : فِي سَخَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : 211]
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
عبد الرحمن بن محمد المحاربي ضعفاء و مجاہیل سے روایت کرتا تھا، اس لے جب یہ ثقہ سے روایت کرے، سماع کی صراحت کے ساتھ تو تب اس کی روایت قابل قبول ہے اور یہاں ایسا نہیں ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ