شیخ البانی و شیخ بدیع الدین کے شاگرد شیخ محمد موسی آل نصر فلسطینی ثم اردنی ایک حادثے میں وفات پاگئے
چند دنوں سے خبر سن رہے تھے کہ شیخ علی حسن الحلبی حفظہ اللہ مدینہ منورہ آئے ہوئے ہیں ، ایک مجموعہ میں یہ خبر بھی آئی کہ شیخ حلبی جامعہ اسلامیہ میں شیخ ناصر الدین البانی کے مکتبہ میں بھی دیکھے گئے ہیں ، ملنے کا اشتیاق تھا ، لیکن خالی اشتیاق ہی تھا ، اس کے لیے تگ و دو نہیں کی ، پھر طالبعلموں میں یہ اعلان آنا فانا پھیل گیا کہ آج رات شیخ علی حسن الحلبی مدینہ منورہ کے مشہور متمول اور صاحب ثروت شیخ یوسف عطیر کے دولت کدے پر عشا کے بعد درس ارشاد فرمائیں گے، اور طلاب علم سے ملاقات بھی کریں گے۔ یہاں بھی شوق ملاقات پر ’ غم روزگار ‘ بھاری رہا ، ڈیوٹی کی بندش کے سبب وہاں بھی حاضر نہ ہوسکا۔
خیر اگلے ہی دن یہ خبر آئی کہ شیخ علی الحلبی کے ہم عصر اور دیرینہ ساتھی شیخ محمد موسی آل نصر بھی ان دنوں اقامہ تجدید کروانے کے لیے سعودیہ میں ہی تھے ، کہتے ہیں عمرہ کی غرض سے جارہے تھے ، تبوک کے قریب ایک حادثہ کا شکار ہو کر وفات پاگئے ۔ إنا للہ و إنا الیہ رجعون
ہمارے ساتھ ایک بار پھر وہی حادثہ ہوا ، جب تک زندہ تھے ، شاید کبھی نام بھی نہ سنا ہو ، اب فوت ہو گئے ، تو آہستہ آہستہ خیال آیا کہ ان کے متعلق جاننا چاہیے ۔
ان مرحوم عالم دین کے متعلق جو میں جان سکا ہوں، وہ آپ بھی ملاحظہ کرلیں ۔
مرحوم کا شجرہ نسب اس طرح بیان کیا گیا ہے:
محمد بن موسى بن حسين بن حسن بن أحمد آل نصر ، کہتے ہیں یہ سلسلہ نسب صحابی رسول عوف بن مالک نصری رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے ۔
مرحوم اصل میں فلسطینی تھے ، بعد میں حالات کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے اردن میں جا مقیم ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم فلسطین اور پھر اردن سے حاصل کی ، 1401 میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کلیۃ قرآن میں متعلم ہوئے ، جبکہ ماسٹر کی ڈگری آپ نے پنجاب یونیورسٹی پاکستان سے حاصل کی ، پاکستان میں آپ تین سال تک رہے ، حفظ قرآن کی تکمیل ، اور وفاق المدارس عالمیہ کی سند بھی یہیں سے حاصل کی ، جبکہ اسی دوران مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور شاہ بدیع الدین الراشدی جیسے اساطین علم سے کسب فیض کیا اور شیخین سے اجازہ حدیث حاصل کرنے کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے ۔
1997ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری سوڈان کی جامعہ قرآن سے حاصل کی۔
مولانا بھوجیانی اور علامہ بدیع راشدی کے علاوہ آپ کے کبار مشایخ میں ، شیخ ناصر الدین البانی ، شیخ عبد الفتاح القاضی ، شیخ عبد الفتاح المرصفی وغیرہم کے اسماء گرامی آتے ہیں ۔
شيخ كا تخصص علم تجويد و قرات اور تفسير تھا ، اور اسی حوالے سے زیادہ مشہور تھے ، اسی مناسبت سے انہیں ’ مقرئ ‘ بھی کہا جاتا تھا ، ان کے حالات میں لکھا ہے ، شیخ ابن باز نے ان سے تلاوت سماعت کی ، اور اس کی تعریف کی ، جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ کےساتھ جب ہوتے ، تو شیخ فرمایا کرتے ’ ہمارے ساتھ ہمارے امام بھی موجود ہیں ‘ ۔ شیخ البانی کے ساتھ ان کی ملاقات دمشق میں بھی ہوئی ، لیکن شیخ سے بھرپور استفادہ اور رفاقت انہیں تبھی نصیب ہوئی ، جب شیخ البانی ہجرت کرکے اردن جاکر مقیم ہوگئے ۔
شیخ کی وفات پر شیخ علی حسن الحلبی نے اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا : ’شیخ سے میرا سلسلہ رفاقت چالیس سال پر محیط ہے ، وہ میرے سفر و حضر کےساتھی تھے ، حج و عمرہ اور کئی ایک دعوتی اسفار ہم نے اکٹھے طے کیے، آخری ملاقات ان سے کل ہوئی ، جس میں شیخ مشہور حسن اور کئی ایک اہل علم اور طلاب شامل تھے ، حقیقت یہ ہے کہ ان جیسا صاف دل اور اچھی طبیعت کا مالک میں نے نہیں دیکھا‘۔
مشہور سعودی اخبار ’ سبق ‘ کے مطابق شیخ محمد موسی نصر نے سو کے قریب کتب تصنیف فرمائی ہیں ،
اس کے علاوہ تجويد و قراءات ، احكام ، عقيده اور منهج وغيره سے متعلق کئی ایک ویڈیوز ، خطبات جمعہ کی ریکارڈنگز وغیرہ انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔
اتوار کی رات حادثہ میں فوت ہوئے ، اور منگل کی صبح فجر کی نماز کے بعد مسجد نبوی میں ان کا جنازہ ہوا ، اور بقیع الغرقد میں سپرد خاک کیے گئے ۔
آپ کی تاریخ ولادت(1374 هـ – 1954م) ، اور تاریخ وفات (1439هـ -2017 م) کے حساب سے کل عمر تقریبا تریسٹھ سال بنتی ہے ۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔