سوال (3430)

“فلا يبرك كما يبرك البعير” کی تفصیلی وضاحت فرما دیں۔

جواب

اس سلسلے میں تمام روایات معلول ہیں۔ جن علماء کے نزدیک صحیح ہے، ان کے ہاں بھی ترجیح کن الفاظ کو ہے، اس میں شدید اضطراب ہے، درست بات یہ ہے کہ دونوں طرح بیٹھا جا سکتا ہے، گھٹنے پہلے یا ہاتھ پہلے رکھ کر، اصل مسئلہ یہ ہے کہ جانور کی طرف جھٹکے سے نہ گرے، بلکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے گھٹنے رکھنا ثابت ہے۔ واللہ أعلم۔

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ

یہ روایت ثابت نہیں۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَسَنٍ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَبْرُكْ كَمَا يَبْرُكُ الْبَعِيرُ وَلْيَضَعْ يَدَيْہِ قَبْلَ رُكْبَتَيْہِ.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو ایسے نہ بیٹھے جیسے کہ اونٹ بیٹھتا ہے،چاہیئے کہ اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے۔ [سنن ابي داؤد: 840]

وقال حمزة الكناني: هو منكر. [فتح الباري لابن رجب، جلد: 7 ،صفحہ: 218]

تنبیہ: سجدے میں جاتے وقت پہلے گھٹنے بھی لگا سکتے ہیں اور ہاتھ بھی۔ شرعی طور پر کوئی پابندی نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ

اس کے معنی پر عرب مشایخ نے بہت تفصیل سے لکھ رکھا ہے۔
ملتقی اہلحديث میں دیکھا جا سکتا ہے، اس مسئلہ کی مرفوع روایات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہیں، اس لیے اس میں وسعت ہے جس کو جو عمل آسان لگتا ہے وہ اسے کر لے یعنی چاہے تو پہلے ہاتھ رکھ لے یا گھٹنے رکھ لے اور کبار سلف صالحین کی اکثریت پہلے گھٹنے رکھنے کا موقف رکھتے ہیں اور ان میں سے سب سے نمایاں سیدنا عمر فاروق رضی الله عنہ ہیں۔ اور آپ پہلے گھٹنے رکھتے تھے پھر ہاتھ رکھتے تھے۔
(دیکھیے شرح معانی الآثار: 1528 سنده صحيح)

ﻛﻤﺎ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻓﻬﺪ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺣﻔﺺ ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﺃﺑﻲ ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ اﻷﻋﻤﺶ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﻋﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻘﻤﺔ ﻭاﻷﺳﻮﺩ، ﻓﻘﺎﻻ: ﺣﻔﻈﻨﺎ ﻋﻦ ﻋﻤﺮ ﻓﻲ ﺻﻼﺗﻪ ﺃﻧﻪ ﺧﺮ ﺑﻌﺪ ﺭﻛﻮﻋﻪ ﻋﻠﻰ ﺭﻛﺒﺘﻴﻪ ﻛﻤﺎ ﻳﺨﺮ اﻟﺒﻌﻴﺮ ﻭﻭﺿﻊ ﺭﻛﺒﺘﻴﻪ ﻗﺒﻞ ﻳﺪﻳﻪ

یہی اثر مصنف ابن أبي شيبة: 2729 میں ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ