سوال (2092)

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ الْجَلابُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ شَاذَانَ الْجَوْهَرِيُّ، ثنا الْمُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ، ثنا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا أبو إسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ ذَرِيحٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّخَعِي، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ عَلِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَعْظَمِ وَالْكُوفَةُ يَوْمَئِذٍ إِخْصَاصَ، فَجَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ، فَقَالَ: الصَّلَاةُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لِلْعَصْرِ، فَقَالَ: «اجْلِسْ فَجَلَسَ، ثُمَّ عَادَ فَقَالَ ذَلِكَ، فَقَالَ عَلِيٌّ: «هَذَا الْكَلْبُ يُعَلِّمُنَا بِالسُّنَّةِ»، فَقَامَ عَلِيَّ فَصَلَّى بِنَا الْعَصْرَ، ثُمَّ انْصَرَفْنَا فَرَجَعْنَا إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي كُنَّا فِيهِ جُلُوسًا، فَجَتَوْنَا لِلرُّكَبِ فَتَزُورُ الشَّمْسُ لِلْمَغِيبِ نَتَرَاءَاهَا. «هَذَا حَدِيث صَحِيحٌ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ بَعْدَ احْتِجَاجِهِمَا بِرُوَاتِهِ»
[التعليق من تلخيص الذهبي: 690، صحیح]

کیا یہ روایت صحیح ہے؟

جواب

یہ روایت ثابت نہیں ہے، زیاد بن عبدالرحمن نہیں ہے، بلکہ زیاد بن عبداللہ النخعی ہے، جوکہ مجہول ہے۔

زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ النَّخَعِيُّ مَجْهُولٌ

[سنن الدارقطني ١/‏٤٧١، الدارقطني (ت ٣٨٥)]
سندہ ضعیف
ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب

 فضیلۃ الباحث عمر احتشام حفظہ اللہ

ہماری تحقیق میں یہ روایت ضعیف اور متن اس کا منکر وغیر محفوظ ہے۔

ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺃﺳﺎﻣﺔ ﻋﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ اﻟﺸﻴﺒﺎﻧﻲ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻋﻦ اﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﺫﺭﻳﺢ ﻋﻦ ﺯﻳﺎﺩ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﻨﺨﻌﻲ ﻗﺎﻝ: ﻛﻨﺎ ﻗﻌﻮﺩا ﻋﻨﺪ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ ﻓﺠﺎءﻩ اﺑﻦ اﻟﻨﺒﺎﺡ ﻳﺆﺫﻧﻪ ﺑﺼﻼﺓ اﻟﻌﺼﺮ ﻓﻘﺎﻝ: اﻟﺼﻼﺓ اﻟﺼﻼﺓ. ﻗﺎﻝ ﺛﻢ ﻗﺎﻡ ﺑﻌﺪ ﺫﻟﻚ ﻓﺼﻠﻰ بنا اﻟﻌﺼﺮ ﻓﺠﺜﻮﻧﺎ ﻟﻠﺮﻛﺐ ﻧﺘﺒﺼﺮ اﻟﺸﻤﺲ ﻭﻗﺪ ﻭﻟﺖ ﻭﺇﻥ ﻋﺎﻣﺔ اﻟﻜﻮﻓﺔ ﻳﻮﻣﺌﺬ ﻷﺧﺼﺎﺹ
[الطبقات الكبرى لابن سعد:6/ 254،25]

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ اﻷﺯﺩﻱ ﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺁﺩﻡ ﺣ ﻭﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ ﻭﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺯﻳﺎﺩ ﻗﺎﻻ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺷﺎﺫاﻥ اﻟﺠﻮﻫﺮﻱ ﺛﻨﺎ ﻣﻌﻠﻰ ﺑﻦ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﻗﺎﻻ: ﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻴﻢ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻧﺎ اﻟﺸﻴﺒﺎﻧﻲ ﻋﻦ اﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﺫﺭﻳﺢ ﻋﻦ ﺯﻳﺎﺩ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﻨﺨﻌﻲ ﻗﺎﻝ: ﻛﻨﺎ ﺟﻠﻮﺳﺎ ﻣﻊ ﻋﻠﻲ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ اﻷﻋﻈﻢ ﻭاﻟﻜﻮﻓﺔ ﻳﻮﻣﺌﺬ ﺃﺧﺼﺎﺹ ﻓﺠﺎءﻩ اﻟﻤﺆﺫﻥ ﻓﻘﺎﻝ: اﻟﺼﻼﺓ ﻳﺎ ﺃﻣﻴﺮ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﻟﻠﻌﺼﺮ ﻓﻘﺎﻝ: اﺟﻠﺲﻓﺠﻠﺲ ﺛﻢ ﻋﺎﺩ ﻓﻘﺎﻝ ﺫﻟﻚ ﻓﻘﺎﻝ ﻋﻠﻲ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ: ﻫﺬا اﻟﻜﻠﺐ ﻳﻌﻠﻤﻨﺎ ﺑﺎﻟﺴﻨﺔ ﻓﻘﺎﻡ ﻋﻠﻲ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻓﺼﻠﻰ ﺑﻦا اﻟﻌﺼﺮ ﺛﻢ اﻧﺼﺮﻓﻨﺎ ﻓﺮﺟﻌﻨﺎ ﺇﻟﻰ اﻟﻤﻜﺎﻥ اﻟﺬﻱ ﻛﻨﺎ ﻓﻴﻪ ﺟﻠﻮﺳﺎ ﻓﺠﺜﻮﻧﺎ ﻟﻠﺮﻛﺐ ﻟﻨﺰﻭﻝ اﻟﺸﻤﺲ ﻟﻠﻤﻐﻴﺐ ﻧﺘﺮﺁﻫﺎ
[سنن الدارقطني:(988) 1/ 471]

امام دارقطنی اس روایت کے بعد کہتے ہیں:

ﺯﻳﺎﺩ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﻨﺨﻌﻲ ﻣﺠﻬﻮﻝ ﻟﻢ ﻳﺮﻭ ﻋﻨﻪ ﻏﻴﺮ اﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﺫﺭﻳﺢ
[أيضا:1/ 471]

اور کہا:

هو نخغي ﻳﻌﺘﺒﺮ ﺑﻪ ﻟﻢ ﻳﺤﺪﺙ ﺑﻪ ﻓﻴﻤﺎ ﺃﻋﻠﻢ ﻏﻴﺮ اﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﺫﺭﻳﺢ
[سؤالات البرقاني: 161]

یاد رہے یہ کلمہ توثیق نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ قوی متابعت یا صحیح شاہد ہو تو تب اس کی روایت کا اعتبار ہے جس کا معنی یہ ہوا کہ یہ راوی ہرگز قابل اعتبار نہیں ہے امام دارقطنی کی مراد یہی ہے۔
حافظ ابن جوزی اس روایت کے نقل کرنے کے بعد کہتے:

ﻭﺃﻣﺎ اﻷﺛﺮ ﻓﻘﺎﻝ اﻟﺪاﺭﻗﻄﻨﻲ ﺯﻳﺎﺩ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﻨﺨﻌﻲ ﻣﺠﻬﻮﻝ ﻟﻢ ﻳﺮﻭ ﻋﻨﻪ ﻏﻴﺮ اﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﺫﺭﻳﺢ
[التحقيق في مسائل الخلاف:1/ 293]

حافظ ابن عبدالھادی نے کہا:

ﻭﺃﻣﺎ اﻷﺛﺮ: ﻓﻘﺎﻝ اﻟﺪاﺭﻗﻄﻨﻲ: ﺯﻳﺎﺩ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻣﺠﻬﻮﻝ، ﻟﻢ ﻳﺮﻭﻩ ﻋﻨﻪ ﻏﻴﺮ اﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﺫﺭﻳﺢ
ﺯ: ﺣﺪﻳﺚ ﺯﻳﺎﺩ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﻨﺨﻌﻲ: ﺭﻭاﻩ اﻟﺤﺎﻛﻢ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺑﺎﻟﻮﻳﻪ اﻟﺠﻼﺏ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺷﺎﺫاﻥ اﻟﺠﻮﻫﺮﻱ، ﻭﻗﺎﻝ: ﺻﺤﻴﺢ
ﻭﺳﺌﻞ ﻋﻨﻪ اﻟﺪاﺭﻗﻄﻨﻲ ﻓﻲ اﻟﻌﻠﻞ” ﻓﻘﺎﻝ: ﺭﻭاﻩ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ اﻟﺸﻴﺒﺎﻧﻲ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﺑﻬﺬا اﻹﺳﻨﺎﺩ، ﻭﻗﺎﻝ: ﻳﻌﻠﻤﻨﺎ ﺑﺎﻟﺼﻼﺓ، ﻭﻟﻢ ﻳﻘﻞ: ﺑﺎﻟﺴﻨﺔ
[تنقيح التحقيق لابن عبد الهادى:2/ 40]

امام دارقطنی کی العلل سے تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

ﻭﺳﺌﻞ ﻋﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﺯﻳﺎﺩ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﻨﺨﻌﻲ، ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﻓﻲ ﺗﺄﺧﻴﺮ ﺻﻼﺓ اﻟﻌﺼﺮ ﻭﻗﻮﻟﻪ ﻟﻠﻤﺆﺫﻥ ﺟﺎءﻩ ﻳﺆﺫﻧﻪ ﺑﻬﺎ ﻫﺬا اﻟﻜﻠﺐ ﻳﻌﻠﻤﻨﺎ ﺑﺎﻟﺴﻨﺔ ﺛﻢ ﺻﻼﻫﺎ ﻋﻨﺪ ﻏﺮﻭﺏ اﻟﺸﻤﺲ
ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺮﻭﻳﻪ اﻟﺸﻴﺒﺎﻧﻲ ﻋﻦ اﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﺫﺭﻳﺢ ﻋﻨﻪ ﺣﺪﺙ ﺑﻪ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻋﻦ اﻟﺸﻴﺒﺎﻧﻲ ﻓﻨﺤﺎ ﺑﻪ ﻧﺤﻮ اﻟﺮﻓﻊ ﻭﻗﺎﻝ ﻳﻌﻠﻤﻨﺎ ﺑﺎﻟﺴﻨﺔ.
ﻭﺭﻭاﻩ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ اﻟﺸﻴﺒﺎﻧﻲ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﺑﻬﺬا اﻹﺳﻨﺎﺩ ﻭﻗﺎﻝ ﻳﻌﻠﻤﻨﺎ ﺑﺎﻟﺼﻼﺓ ﻭﻟﻢ ﻳﻘﻞ ﺑﺎﻟﺴﻨﺔ
[العلل للدارقطنى:3/ 216]

امام دارقطنی کے کلام سے معلوم کہ ولم يقل بالسنة کے الفاظ سے روایت غیر محفوظ ہے ایسے ہی اس متن میں هذا الكلب سیدنا علی المرتضیٰ رضی الله عنہ کیسے کہہ سکتے ہیں
جو حسن اخلاق کے منافی عمل ہے اور صحابہ کرام سب سے زیادہ عمدہ اخلاق اور ایمان وتقوی والے تھے اس لیے یہ الفاظ محفوظ نہیں بلکہ غیر محفوظ ،منکر بھی ہیں اور کسی بھی صحیح روایت سے سیدنا علی المرتضیٰ رضی الله عنہ کا عصر کی فرض نماز کو اتنا مؤخر کر کے پڑھنا ثابت نہیں ہے وہ تو کتاب وسنت کے پیروکار تھے شریعت اسلامیہ کے احکام اور ان کی اہمیت کو خوب جاننے اور سمجھنے والے تھے۔
اس روایت کی علت پر دیگر ائمہ کی امام دار قطنی سے موافقت گزر چکی ہے مزید ملاحظہ فرمائیں:
ابن القطان الفاسی نے کہا:

ﻭﻋﻠﺘﻪ اﻟﺠﻬﻞ ﺑﺤﺎﻝ ﺯﻳﺎﺩ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﻨﺨﻌﻲ، ﻭﺑﺬﻟﻚ ﺃﻋﻠﻪاﻟﺪاﻗﻄﻨﻲ ﻣﺨﺮﺟﻪ
[بيان الوهم والإيهام :3/ 341،342]

حافظ ذہبی اس روای زیاد پر امام دارقطنی کا کلام نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:

ﻗﻠﺖ: ﻭﻻ ﻳﺪﻝ ﻋﻠﻰ اﺳﺘﺤﺒﺎﺏ اﻟﺘﺄﺧﻴﺮ[تنقيح التحقيق للذهبى:1/ 104]

محدث بیھقی نے کہا:

ﻗﺎﻝ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ: ﺯﻳﺎﺩ ﺑﻦﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻣﺠﻬﻮﻝ ﻟﻢ ﻳﺮﻭ ﻋﻨﻪ ﻏﻴﺮ اﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﺫﺭﻳﺢ ﻗﺎﻝ اﻟﺒﻴﻬﻘﻲ: ﻭاﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﺫﺭﻳﺢ ﻏﻴﺮ ﻣﺤﺘﺞ ﺑﻪ ﻓﻲ اﻟﺼﺤﻴﺢ
[مختصر خلافيات للبيهقى:1/ 537،538]

امام حاکم کا اس روایت کو صحیح کہنا ان کا تساہل ہے اور حافظ ذہبی نے موافقت نہیں کی بلکہ ان کے کلام کا اختصار کیا ہے۔
اس روایت کے معلول ہونے پر ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ أصحاب علی میں سے کبار ثقات کی جماعت تھی ان میں سے کسی نے یہ روایت وعمل بیان کیوں نہیں کیا ہے ۔۔۔۔؟؟
توضیح:
ابن النباح سیدنا علی رضی الله عنہ کے مکاتب و مؤذن تھے۔ تو یہ روایت سندا ،متنا ثابت نہیں ہے۔
دین اسلام کے احکام صرف قرآن کریم اور احادیث صحیحہ ثابتہ سے ثابت ہوتے ہیں مجاہیل و ضعفاء کی بیان کردہ روایات سے نہیں۔
والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ