سوال (3561)
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: لما كان يوم خَيْبَرَ أقبَلَ نفرٌ من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: فلانٌ شهيدٌ، وفلانٌ شهيدٌ، حتى مرُّوا على رجل فقالوا: فلانٌ شهيدٌ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: “كلا! إني رأيته في النار في بُرْدةٍ غلَّها- أو عباءة” [رواه مسلم]
اس حدیث کے بارے ایک شخص کا سوال ہے کہ کیا صحابی بھی جہنم جا سکتا ہے؟
جواب
الصحابة كلهم عدول، صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین مغفور ہیں، انہیں رب العالمین کی دائمی رضا نصیب ہو چکی ان کا ایمان و تقوی و اخلاص اور اعمال عند الله تعالى قبول ہو چکے ہیں، ہمیں اس طرح کی روایت کی بنیاد پر ایسا سوال نہیں کرنا چاہیے ہے جس میں رجل مبھم ہو یا اس کا صحابی ہونے پر کوئی قوی دلیل نہ ہو۔
صحیح البخاری: 4234 میں وضاحت ہے کہ یہ ایک غلام تھا جسے مدعم کہا جاتا تھا۔
ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
ﻣﺪﻋﻢ اﻟﻌﺒﺪ اﻷﺳﻮﺩ،ﻣﻮﻟﻰ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ. ﻛﺎﻥ ﻋﺒﺪا ﻟﺮﻓﺎﻋﺔ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﻭﻫﺐ اﻟﺠﺬاﻣﻲ اﻟﻀﺒﻲ ﻓﺄﻫﺪاﻩ ﺇﻟﻰ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻭاﺧﺘﻠﻒ ﻫﻞ ﺃﻋﺘﻘﻪ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻭ ﻣﺎﺕ ﻋﺒﺪا، ﻭﺧﺒﺮﻩ ﻣﺸﻬﻮﺭ ﺑﺨﻴﺒﺮ، ﻭﻫﻮ اﻟﺬﻱ ﻏﻞ اﻟﺸﻤﻠﺔ ﻳﻮﻡ ﺧﻴﺒﺮ، ﻭﺟﺎء ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺇﻥ اﻟﺸﻤﻠﺔ ﻟﺘﺸﺘﻌﻞ ﻋﻠﻴﻪ ﻧﺎﺭا. ﻭﻗﺘﻞ ﺑﺨﻴﺒﺮ، ﺃﺻﺎﺑﻪ ﺳﻬﻢ ﻏﺮﺏ ﻓﻘﺘﻠﻪ. ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻋﻨﺪ ﻣﺎﻟﻚ ﻭﻏﻴﺮﻩ. ﻭﻗﺪ ﻗﻴﻞ: ﺇﻥ اﻟﻌﺒﺪ اﻷﺳﻮﺩ ﻏﻴﺮ ﻣﺪﻋﻢ، ﻭﻛﻼﻫﻤﺎ ﻗﺘﻞ ﺑﺨﻴﺒﺮ. [الاستيعاب : 4/ 1468]
ﻭاﻟﻠﻪ ﺃﻋﻠﻢ.
ﻣﺪﻋﻢ اﻷﺳﻮﺩ: ﻣﻮﻟﻰ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ. ﻛﺎﻥ ﻣﻮﻟﺪا ﻣﻦ ﺣﺴﻤﻰ، ﺃﻫﺪاﻩ ﺭﻓﺎﻋﺔ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ اﻟﺠﺬاﻣﻲ ﻟﺮﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ. ﺛﺒﺖ ﺫﻛﺮﻩ ﻓﻲ اﻟﻤﻮﻃﺄ ﻭاﻟﺼﺤﻴﺤﻴﻦ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﺳﺎﻟﻢ ﻣﻮﻟﻰ اﺑﻦ ﻣﻄﻴﻊ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻓﻲ ﻓﺘﺢ ﺧﻴﺒﺮ ﻓﺬﻛﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻭﻓﻴﻪ ﺃﻥ ﻣﺪعما ﺃﺻﺎﺑﻪ ﻣﻨﻬﻢ ﻋﺎﺋﺮ ﻓﻘﺘﻠﻪ [الإصابة لابن حجر: 6/ 49]
ﻣﺪﻋﻢ، ﻣﻮﻟﻰ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ- ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ.
ﻛﺎﻥ «ﻣﺪﻋﻢ» ﻋﺒﺪا ﺭﻓﺎﻋﺔ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ اﻟﺠﺬاﻣﻰ». ﻓﻮﻫﺒﻪ ﻟﺮﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ- ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ.
ﻭﻳﻘﺎﻝ: ﻫﻮ اﻟﺬﻱ ﻗﺎﻝ ﻓﻴﻪ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ-
[ ﺣﻴﻦ ﻛﺎﻥ ﻳﺤﻂ ﺭﺣﻠﻪ ﻓﺠﺎءﻩ ﺳﻬﻢ ﻋﺎﺑﺮ ﻓﻘﺘﻠﻪ. ﻓﻘﺎﻝ اﻟﻨﺎﺱ: ﻫﻨﻴﺌﺎ ﻟﻪ اﻟﺠﻨﺔ. ﻓﻘﺎﻝ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻛﻼ، ﺇﻥ اﻟﺸﻤﻠﺔ اﻟﺘﻲ ﻏﻠﻬﺎ ﻳﻮﻡ ﺧﻴﺒﺮ ﺗﺤﺘﺮﻕ ﻋﻠﻴﻪ ﻓﻲ ﻧﺎﺭ ﺟﻬﻨﻢ [المعارف: ص : 148]
ہمارا ایمان ہے ، صحابہ کرام نے کبھی عمدا کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہیں کیا ہے، کیونکہ رب العالمین نے صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے لئے کفر فسوق، عصیان کو ناپسندیدہ بنا دیا تھا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ [الحجرات: 7]
اور لیکن الله نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کردیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ ہدایت والے ہیں۔
الله تعالى کا ایک اور ارشاد ملاحظہ کریں:
فرمایا:
وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ [الحدید: 10]
اور ان سب سے الله نے اچھی جزا ( جنت)کا وعدہ کیا ہے۔
اہل نفاق کو قرآن وحدیث کی صریح نصوص وارشادات کیوں نظر نہیں آتے جن میں صحابہ کرام کے ایمان و اخلاص و تقوی اور اعمال صالحہ کی قبولیت کا ذکر ہے اور جنہیں رب العالمین کی مغفرت و رضوان حاصل ہو چکی ہے، جو شخص ایمان سے محروم نہیں ہونا چاہتا اسے صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے بارے زہر اگلنے سے باز رہنا چاہیے ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
عمومی قاعدہ یہی ہے کہ صحابہ جنتی ہیں۔
معصوم نہیں مغفور و مرحوم ہیں ابن تیمیہ نے 10 اسباب ذکر کیے ہیں جو انہیں موت سے پہلے میسر آ جاتے ہیں اور اللہ انہیں معاف فرما دیتا ہے، بعض خاص ادلہ سے یا مستثنیات سے عمومی قاعدہ بنا لینا یا صحابہ کے متعلق نفرت پیدا کرنا یا دوسروں کو متنفر کرنا درست نہیں۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ