4908 . 4908 – حدَّثنا مسلمُ بنُ إبراهيم، حدَّثنا أبان (ح)وحدَّثنا زيدُ بنُ أخزَمَ الطائيُّ، حدَّثنا بِشْرُ بنُ عُمَرَ، حدَّثنا أبانُ بن يزيدَ العطارُ، حدَّثنا قتادةُ، عن أبي العالية، قال زيد:عن ابنِ عباس: أن رجلاً لَعَنَ الريحَ -وقال مسلم: إنَّ رجلاً نازعَتْهُ الريحُ رداءَه على عهدِ النبيَّ- صلى الله عليه وسلم – فلعَنَها- فقال النبيَّ- صلى الله عليه وسلم -: (لا تَلْعَنْها فإنَّها مأمُورَةٌ، وإنه مَنْ لَعَنَ شيئاً ليسَ له بأهْلٍ رَجَعَتِ اللعنةُ عليه” ( سنن أبي داؤد )
4908 . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ہوا کو لعنت کی ۔ اور مسلم ( مسلم بن ابراہیم ) کے الفاظ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا سے ایک شخص کی چادر اڑ گئی تو اس نے اسے لعنت کر دی ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اسے لعنت مت کرو ، بلاشبہ یہ ( اللہ کے حکم کی ) پابند ہے ۔ اور بلاشبہ جس نے کسی چیز کو لعنت کی جب کہ وہ اس کی حقدار نہ ہو ، تو یہ لعنت کرنے والے پر لوٹ آتی ہے ۔“
1978 . حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ البَصْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي العَالِيَةِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا لَعَنَ الرِّيحَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لَا تَلْعَنِ الرِّيحَ فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ، وَإِنَّهُ مَنْ لَعَنَ شَيْئًا لَيْسَ لَهُ بِأَهْلٍ رَجَعَتِ اللَّعْنَةُ عَلَيْهِ» ( سنن الترمذي )
1978 . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے ایک آدمی نے ہواپرلعنت بھیجی تو آپ نے فرمایا:’ ہواپر لعنت نہ بھیجواس لیے کہ وہ تو (اللہ کے) حکم کی پابندہے، اورجس شخص نے کسی ایسی چیز پر لعنت بھیجی جو لعنت کی مستحق نہیں ہے تو لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے’۔
سنن ابو داؤد اور سنن ترمذی وغیرہ میں وارد اس روایت کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ(528) میں ذکر کیا ہے۔
لیکن اس کی سند میں دو مسئلے ہیں :
اول : ابان بن یزید سے روایت کرنے والوں میں وصل اور ارسال میں اختلاف ہے ۔
ابان بن یزید سے روایات کرنے والے دو راوی ہیں :
بشر بن عمر الزہرانی ( انہوں نے موصولا بیان کیا ہے )
مسلم بن إبراہیم الفراہیدی ( مرسل روایت بیان کی ہے )
جن علماء نے اس روایت کی تصحیح کی ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بشر بن عمر کی روایت کو ترجیح دی ہے ، مسلم بن ابراہیم الفراہیدی کی روایت پر ، یا ان کے نزدیک دونوں روایات ہی صحیح ہیں ، یعنی راوی ایک مرتبہ مرسل دوسری مرتبہ موصول روایت بیان کی ہوگی ، کیونکہ بیان کرنے والے دونوں راوی ثقہ اور صحیحین کے راوی ہیں ۔ بشر بن عمر الزہرانی کی موصول روایت کی ایک اور متابعت بھی ہے ، جو کہ ابوالشیخ الاصبہانی نے العظمۃ میں ذکر کی ہے ، کہتے ہیں :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَجُلًا لَعَنَ الرِّيحَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَلْعَنُوهَا فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ، فَإِنَّهُ مَنْ لَعَنَ شَيْئًا لَيْسَ لَهُ بِأَهْلٍ رَجَعَتِ اللَّعْنَةُ إِلَيْهِ»
العظمة لأبي الشيخ الأصبهاني (4/ 1315)
لیکن اس سند کے اندر مسئلہ یہ ہے کہ ابو الشیخ کے شیخ محمد العباس ابن الأخرم بہت متاخر ہیں ، ان کی وفات 301 کی ہے ، جبکہ ابان بن یزید کی وفات 160 ہجری کی ہے ۔ کتاب العظمۃ کے محقق شیخ رضاء اللہ مبارکفوری نے سند میں ایک یا دو واسطے گرنے کا شبہ ظاہر کیا ہے ۔
مسند بزار میں ہے :
5330- حَدَّثنا زَيْد بْنُ أَخْزَم أَبُو طَالِبٍ الطَّائِيُّ، قَال: حَدَّثنا بِشْر بن عُمَر، قَال: حَدَّثنا أَبَان، يَعْنِي ابْنَ يَزِيدَ عَنْ قَتَادَةَ، عَن أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ الرِّيحَ نَازَعَتْ رَجُلا رِدَاءَهُ فَلَعَنَهَا فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم فَقَالَ: لا تَلْعَنْهَا فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ وَإِنَّهُ مَنْ لَعَنَ شَيْئًا لَيْسَ لَهُ بِأَهْلٍ رَجَعَتِ اللَّعْنَةُ عَلَى صَاحِبِهَا.
وَهَذَا الْحَدِيثُ قَدْ رَوَاهُ سَعِيد بْنُ أَبِي عَرُوبة وَهِشَامُ بْنُ أَبِي عَبد اللَّهِ جَمِيعًا عَنْ قَتَادَةَ، عَن أَبِي الْعَالِيَةِ ولم يقولا: عَن ابنِ عباس.
مسند البزار = البحر الزخار (11/ 460)
ابن ابی عروبہ اور ہشام الدستوائی کی روایت کو بزار نے معلقا ذکر کیا ہے ، لیکن یہ کہیں مسند نہیں ملی ، اگر ان دونوں کی روایات مسند مل جائیں ، تو یہ اس روایت کے مرسل ہونے کا قوی قرینہ ہے ، کیونکہ سعید اور ہشام امام قتادۃ کے اثبت تلامیذ میں سے شمار ہوتے ہیں ، ابان بن یزید ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔
دوم : قتادۃ عن أبی العالیۃ میں قتادۃ کا عنعنہ ہے ۔
قتادۃ مدلسین میں تیسرے درجے کے راوی ہیں ، جی کی روایات تصریح بالسماع کے علاوہ قبول نہیں ہیں ، مزید یہ کہا جاتا ہے کہ قتادۃ نے ابو العالیہ سے صرف چار یا پانچ احادیث سنی ہیں ، جن میں اس زیر بحث حدیث کا ذکر نہیں ہے ۔
البتہ امام ابو نعیم الأصبہانی ایک روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
حَدِيثُ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ مِنْ صِحَاحِ أَحَادِيثِهِ رَوَاهُ عَامَّةُ أَصْحَابِ قَتَادَةَ عَنْهُ
حلية الأولياء وطبقات الأصفياء (2/ 223)
دوسری بات صحیحین کے اندر قتادۃ عن ابی العالیۃ کی سند کئی ایک روایات موجود ہیں ، میرے نظر سے کہیں نہیں گزرا کہ کسی محدث نے قتادۃ عن ابی العالیۃ والی کسی سند کو عنعنہ قتادۃ کی بنا پر ضعیف قرار دیا ہو ۔ واللہ اعلم۔