سوال (4814)

“يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ” قَالُوا: وَمَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:” هُمُ الَّذِينَ لَا يَكْتَوُونَ، وَلَا يَسْتَرْقُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ،

اس حدیث کے آخری الفاظ لَا يَكْتَوُونَ، وَلَا يَسْتَرْقُونَ کی وضاحت فرما دیں۔

جواب

وہ ایسے لوگ ہیں جو داغنے کے عمل سے علاج نہیں کراتے، نہ ہی دم کراتے ہیں اور اپنے رب پر کامل بھروسہ کرتے ہیں۔[صحیح مسلم: 218]
یہ حدیث صحیح البخاری سمیت کئ کتب احادیث میں موجود ہے۔
(ﻻ ﻳﻜﺘﻮﻭﻥ) اﻻﻛﺘﻮاء اﺳﺘﻌﻤﺎﻝ اﻟﻜﻲ ﻓﻲ اﻟﺒﺪﻥ ﻭﻫﻮ ﺇﺣﺮاﻕ اﻟﺠﻠﺪ ﺑﺤﺪﻳﺪﺓ،
شیخ ابن عثیمین رحمة الله عليه فرماتے ہیں:

((ﻭﻻ ﻳﻜﺘﻮﻭﻥ)) ﺃﻱ: ﻻ ﻳﻄﻠﺒﻮﻥ ﻣﻦ ﻳﻜﻮﻳﻬﻢ، ﻭﻟﻢ ﻳﻘﻞ ﻭﻻ ﻳﻜﻮﻭﻥ، ﻭﻫﻮ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺼﻼﺓ ﻭاﻟﺴﻼﻡ ﻗﺪ ﻛﻮﻱ اﻛﺤﻞ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺎﺫ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﻓﺴﻌﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺎﺫ اﻻﻭﺳﻲ اﻷﻧﺼﺎﺭﻱ_ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ_ ﺃﺻﻴﺐ ﻳﻮﻡ اﻟﺨﻨﺪﻕ ﻓﻲ ﺃﻛﺤﻠﻪ ﻓﺎﻧﻔﺠﺮ اﻟﺪﻡ، ﻭاﻷﻛﺤﻞ ﺇﺫا اﻧﻔﺠﺮ ﺩﻣﻪ ﻗﻀﻲ ﻋﻠﻲ اﻹﻧﺴﺎﻥ، ﻓﻜﻮاﻩ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻲ اﻟﻌﺮﻕ ﺣﺘﻰ ﻭﻗﻒ اﻟﺪﻡ، ﻭاﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻫﻮ ﺃﻭﻝ ﻣﻦ ﻳﺪﺧﻞ اﻟﺠﻨﺔ ﺑﻐﻴﺮ ﺣﺴﺎﺏ ﻭﻻ ﻋﺬاﺏ. ﻓﺎﻟﺬﻳﻦ ﻳﻜﻮﻭﻥ ﻣﺤﺴﻨﻮﻥ، ﻭاﻟﺬﻳﻦ ﻳﻘﺮﺅﻭﻥ ﻋﻠﻲ اﻟﻨﺎﺱ ﻣﺤﺴﻨﻮﻥ، ﻭﻟﻜﻦ اﻟﻜﻼﻡ ﻋﻠﻲ اﻟﺬﻳﻦ ﻳﺴﺘﺮﻗﻮﻥ، ﺃﻱ ﻳﻄﻠﺒﻮﻥ ﻣﻦ ﻳﻘﺮا ﻋﻠﻴﻬﻢ، اﻭ ﻳﻜﺘﻮﻭﻥ، ﺃﻱ: ﻣﻦ ﻳﻄﻠﺒﻮﻥ ﻣﻦ ﻳﻜﻮﻳﻬﻢ، ﻭاﻟﻠﻪ اﻟﻤﻮﻓﻖ،(شرح ریاض الصالحین:1/ 553 ،554 )

باقی شرعی حدود وقیود میں رہ کر علاج کروانا جائز ہے اس کے جواز پر کتاب وسنت میں دلائل موجود ہیں مگر جو کلی طور پر توکل الہی کو لازم پکڑتا ہے تو اس کے لئے زیادہ اجر ہے۔ مگر اگر جان کو تکلیف بہت زیادہ ہے تو علاج کروانا ضروری ہے۔
اسی طرح قرآن وحدیث کی روشنی میں دم کروانا بھی جائز ہے اس پر قولی فعلی احادیث تعامل سلف صالحین موجود ہیں، البتہ دم کا مطالبہ نہ کرنا اور اجتناب کرنا اولی وافضل ہے۔
اسی طرح غیر شرعی دم سے اہل ایمان اجتناب کرتے ہیں۔
اس وقت اتنی ہی وضاحت ہو سکتی ہے تفصیل کتب شروحات میں دیکھی جا سکتی ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ