سوال (4382)
مندرجہ ذیل حدیث کی تشریح کردیں۔
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
“لَوْلَا بَنُو إِسْرَائِيلَ لَمْ يَخْنَزْ اللَّحْمُ، وَلَوْلَا حَوَّاءُ لَمْ تَخُنْ أُنْثَى زَوْجَهَا الدَّهْرَ” [صحيح البخاري: 3399]
«اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے (سلویٰ کا گوشت جمع کر کے نہ رکھتے) تو گوشت کبھی نہ سڑتا۔ اور اگر حوا نہ ہوتیں (یعنی آدم (علیہ السلام) سے دغا نہ کرتیں) تو کوئی عورت اپنے شوہر کی خیانت کبھی نہ کرتی»
جواب
كشف المشكل من حديث الصحيحين: 3/ 504 میں ہے۔
ﻭﺃﻣﺎ ﺧﻴﺎﻧﺔ ﺣﻮاء ﺯﻭﺟﻬﺎ ﻓﺈﻧﻬﺎ ﻛﺎﻧﺖ ﻓﻲ ﺗﺮﻙ اﻟﻨﺼﻴﺤﺔ ﻓﻲ ﺃﻣﺮ اﻟﺸﺠﺮﺓ ﻻ ﻓﻲ ﻏﻴﺮ ﺫﻟﻚ. ﻭاﻟﻢﺭاﺩ ﺃﻥ ﺑﻨﻲ ﺇﺳﺮاﺋﻴﻞ ﻟﻢا ﻧﻬﻮا ﺃﻥ ﻳﺪﺧﺮﻭا ﻓﺨﺎﻟﻔﻮا ﻓﺴﺪ اﻟﻠﺤﻢ، ﻭاﻃﺮﺩﺕ اﻟﺤﺎﻝ ﻓﻴﻪ ﻋﻨﺪ ﻛﻞ ﻣﺪﺧﺮ. ﻭﻟﻢا ﺧﺎﻧﺖ ﺣﻮاء ﺯﻭﺟﻬﺎ اﻃﺮﺩﺕ اﻟﺤﺎﻝ ﻓﻲ ﺑﻨﺎﺗﻬﺎ،
حافظ نووی نے کہا:
ﻭﻣﻌﻨﻰ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺃﻧﻬﺎ ﺃﻡ ﺑﻨﺎﺕ ﺁﺩﻡ ﻓﺄﺷﺒﻬﻨﻬﺎ ﻭﻧﺰﻉ اﻟﻌﺮﻕ لما ﺟﺮﻯ ﻟﻬﺎ ﻓﻲ ﻗﺼﺔ اﻟﺸﺠﺮﺓ ﻣﻊ ﺇﺑﻠﻴﺲ ﻓﺰﻳﻦ ﻟﻬﺎ ﺃﻛﻞ اﻟﺸﺠﺮﺓ ﻓﺄﻏﻮاﻫﺎ ﻓﺄﺧﺒﺮﺕ ﺁﺩﻡ ﺑﺎﻟﺸﺠﺮﺓ ﻓﺄﻛﻞ ﻣﻨﻬﺎ ﻗﻮﻟﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ (ﻟﻮﻻ ﺑﻨﻮ ﺇﺳﺮاﺋﻴﻞ ﻟﻢ ﻳﺨﺒﺚ اﻟﻄﻌﺎﻡ ﻭﻟﻢ ﻳﺨﻨﺰ اﻟﻠﺤﻢ) ﻫﻮ ﺑﻔﺘﺢ اﻟﻴﺎء ﻭاﻟﻨﻮﻥ ﻭﺑﻜﺴﺮ اﻟﻨﻮﻥ ﻭالماضي ﻣﻨﻪ ﺧﻨﺰ ﺑﻜﺴﺮ اﻟﻨﻮﻥ ﻭﻓﺘﺤﻬﺎ ﻭﻣﺼﺪﺭﻩ اﻟﺨﻨﺰ ﻭاﻟﺨﻨﻮﺯ ﻭﻫﻮ ﺇﺫا ﺗﻐﻴﺮ ﻭﺃﻧﺘﻦ ﻗﺎﻝ العلماء ﻣﻌﻨﺎﻩ ﺃﻥ ﺑﻨﻲ ﺇﺳﺮاﺋﻴﻞ ﻟﻤﺎ ﺃﻧﺰﻝ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻬﻢ اﻟﻢﻧ ﻭاﻟﺴﻠﻮﻯ ﻧﻬﻮا ﻋﻦ اﺩﺧﺎﺭﻫﻤﺎ ﻓﺎﺩﺧﺮﻭا ﻓﻔﺴﺪ ﻭﺃﻧﺘﻦ ﻭاﺳﺘﻤﺮ ﻣﻦ ﺫﻟﻚ اﻟﻮﻗﺖ ﻭاﻟﻠﻪ ﺃعلم [شرح النووي على مسلم :10/ 59]
ﻟﻮﻻ ﺑﻨﻮ ﺇﺳﺮاﺋﻴﻞ ﻟﻢ ﻳﺨﻨﺰ اﻟﻠﺤﻢ کے بارے حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا: ﺃﻱ: ﻳﻨﺘﻦ، ﻭاﻟﺨﻨﺰ: اﻟﺘﻐﻴﺮ ﻭاﻟﻨﺘﻦ، ﻗﻴﻞ: ﺃﺻﻠﻪ ﺃﻥ ﺑﻨﻲ ﺇﺳﺮاﺋﻴﻞ اﺩﺧﺮﻭا ﻟﺤﻢ اﻟﺴﻠﻮﻯ ﻭﻛﺎﻧﻮا ﻧﻬﻮا ﻋﻦ ﺫﻟﻚ ﻓﻌﻮﻗﺒﻮا ﺑﺬﻟﻚ، ﺣﻜﺎﻩ اﻟﻘﺮﻃﺒﻲ ﻭﺫﻛﺮﻩ ﻏﻴﺮﻩ ﻋﻦ ﻗﺘﺎﺩﺓ. ﻭﻗﺎﻝ ﺑﻌﻀﻬﻢ: ﻣﻌﻨﺎﻩ: ﻟﻮﻻ ﺃﻥ ﺑﻨﻲ ﺇﺳﺮاﺋﻴﻞ ﺳﻨﻮا اﺩﺧﺎﺭ اﻟﻠﺤﻢ ﺣﺘﻰ ﺃﻧﺘﻦ ﻟﻤﺎ اﺩﺧﺮ ﻓﻠﻢ ﻳﻨﺘﻦ.
ﻭﻗﻮﻟﻪ: “ﻟﻢ ﺗﺨﻦ ﺃﻧﺜﻰ ﺯﻭﺟﻬﺎ” ﻓﻴﻪ ﺇﺷﺎﺭﺓ ﺇﻟﻰ ﻣﺎ ﻭﻗﻊ ﻣﻦ ﺣﻮاء ﻓﻲ ﺗﺰﻳﻴﻨﻬﺎ ﻵﺩﻡ اﻷﻛﻞ ﻣﻦ اﻟﺸﺠﺮﺓ ﺣﺘﻰ ﻭﻗﻊ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ، ﻓﻤﻌﻨﻰ ﺧﻴﺎﻧﺘﻬﺎ: ﺃﻧﻬﺎ ﻗﺒﻠﺖ ﻣﺎ ﺯﻳﻦ ﻟﻬﺎ ﺇﺑﻠﻴﺲ ﺣﺘﻰ ﺯﻳﻨﺘﻪ ﻵﺩﻡ، ﻭﻟﻤﺎ ﻛﺎﻧﺖ ﻫﻲ ﺃﻡ ﺑﻨﺎﺕ ﺁﺩﻡ ﺃﺷﺒﻬﻨﻬﺎ ﺑﺎﻟﻮﻻﺩﺓ ﻭﻧﺰﻉ اﻟﻌﺮﻕ، ﻓﻼ ﺗﻜﺎﺩ اﻣﺮﺃﺓ ﺗﺴﻠﻢ ﻣﻦ ﺧﻴﺎﻧﺔ ﺯﻭﺟﻬﺎ ﺑﺎﻟﻔﻌﻞ ﺃﻭ ﺑﺎﻟﻘﻮﻝ، ﻭﻟﻴﺲ اﻟﻤﺮاﺩ ﺑﺎﻟﺨﻴﺎﻧﺔ ﻫﻨﺎ اﺭﺗﻜﺎﺏ اﻟﻔﻮاﺣﺶ ﺣﺎﺷﺎ ﻭﻛﻼ، ﻭﻟﻜﻦ ﻟﻤﺎ ﻣﺎﻟﺖ ﺇﻟﻰ ﺷﻬﻮﺓ اﻟﻨﻔﺲ ﻣﻦ ﺃﻛﻞ اﻟﺸﺠﺮﺓ، ﻭﺣﺴﻨﺖ ﺫﻟﻚ ﻵﺩﻡ، ﻋﺪ ﺫﻟﻚ ﺧﻴﺎﻧﺔ ﻟﻪ، ﻭﺃﻣﺎ ﻣﻦ ﺟﺎء ﺑﻌﺪﻫﺎ ﻣﻦ اﻟﻨﺴﺎء ﻓﺨﻴﺎﻧﺔ ﻛﻞ ﻭاﺣﺪﺓ ﻣﻨﻬﻦ ﺑﺤﺴﺒﻬﺎ، ﻭﻗﺮﻳﺐ ﻣﻦ ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ “ﺟﺤﺪ ﺁﺩﻡ ﻓﺠﺤﺪﺕ ﺫﺭﻳﺘﻪ”، ﻭﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺇﺷﺎﺭﺓ ﺇﻟﻰ ﺗﺴﻠﻴﺔ اﻟﺮﺟﺎﻝ ﻓﻴﻤﺎ ﻳﻘﻊ ﻟﻬﻢ ﻣﻦ ﻧﺴﺎﺋﻬﻢ ﺑﻤﺎ ﻭﻗﻊ ﻣﻦ ﺃﻣﻬﻦ اﻟﻜﺒﺮﻯ، ﻭﺃﻥ ﺫﻟﻚ ﻣﻦ ﻃﺒﻌﻬﻦ ﻓﻼ ﻳﻔﺮﻁ ﻓﻲ ﻟﻮﻡ ﻣﻦ ﻭﻗﻊ ﻣﻨﻬﺎ ﺷﻲء ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﻗﺼﺪ ﺇﻟﻴﻪ، ﺃﻭ ﻋﻠﻰ ﺳﺒﻴﻞ اﻟﻨﺪﻭﺭ، ﻭﻳﻨﺒﻐﻲ ﻟﻬﻦ ﺃﻥ ﻻ ﻳﺘﻤﻜﻦ ﺑﻬﺬا ﻓﻲ اﻻﺳﺘﺮﺳﺎﻝ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﻨﻮﻉ، ﺑﻞ ﻳﻀﺒﻄﻦ ﺃﻧﻔﺴﻬﻦ، ﻭﻳﺠﺎﻫﺪﻥ ﻫﻮاﻫﻦ، ﻭاﻟﻠﻪ اﻟﻤﺴﺘﻌﺎﻥ[فتح الباری لابن حجر:6/ 367 ،368]
[مزید تفصیل دیکھیے عمدة القاري للعينى:15/ 211]
مجموعہ من فضلاء الدعوة السلفية میں اس حدیث پر یوں، توضیح کی گئی ہے:
اس حدیث میں خیانت سے مراد یہ ہے کہ حوا علیہا السلام نے آدم علیہ السلام کو اس درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کیا جس درخت سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا تھا۔ یعنی اگر اس درخت کا پھل نہ کھایا جاتا تو آدم علیہ السلام جنت سے نہ اتارے جاتے اور نہ دنیا کی یہ خیانتیں ظہور پذیر ہوتیں۔
دیکھئے: [مشکلات الاحادیث النبویہ اللقصیمی:ص12،11]
اس حدیث میں خیانت سے مراد فواحش کا ارتکاب نہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ حواء نے ابلیس کے وسوسے سے سہواً قبول کر کے آدم علیہ السلام کے سامنے پیش کر دیا پھر وہ کام ہو گیا جس کی وجہ سے جنت سے نکلنا پڑا۔ دیکھئے: [فتح الباری:368/6 ح3330]
امام بخاری رحمہ اللہ نے حوا علیہا السلام کو نہ خائن کہا اور نہ بدنام بلکہ ایک صحیح حدیث بیان کر دی جو ان کی پیدائش سے پہلے دنیا میں موجود تھی۔
[توفيق الباري في تطبيق القرآن و صحيح بخاري، حدیث/صفحہ نمبر: 32]
والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ