سوال (551)
“مسألة مشؤومة ما تفعله الدوافع النفسية في صناعة الانقسام والجدل الكلامي كتاب الاختلاف في اللفظ لابن قتيبة (ت: 276) نموذجًا” ياسر بن ماطر المطرفي
اس کتاب کا موضوع کیا ہو سکتا ہے؟ جو صاحب علم اس سے دلچسپی رکھتے ہیں آسان لفظوں میں وضاحت فرما دیں ۔
جواب
ملخصه “قصدت الدراسة الكشف عن الدوافع النفسية الأخلاقية باعتبارها إحدى المقاربات المهمة في تفسير الانقسامات والانشقاقات الكلامية، التي تعني محورية تأثير الدوافع النفسية ذات البعد الأخلاقي كالحميّة، والخوف، والطمع، وشبكة المصالح والعلاقات في حدوث الانشقاقات العقائدية، والتعصب للمقولات، والتعسف في الأدلة، وذلك من خلال تحليل نص تراثي مبكر، وهو كتاب (الاختلاف في اللفظ) لابن قتيبة (ت: 276)، حيث برهنت الدراسة على أن المقاربة النفسية الأخلاقية هي المقاربة المركزية التي اعتمد عليها ابن قتيبة في نظرته لتحليل ظاهرة الانقسام التي حصلت بين أهل الحديث خلال القرن الثالث الهجري/التاسع الميلادي حول المسألة الجدلية المعروفة بـ(مسألة اللفظ بالقرآن)، وخلصت الدراسة إلى أن هذا النموذج التاريخي يكشف أن هذه الظواهر التي تقف خلفها الدوافع النفسية هي ظواهر بشرية قابلة للتحقق داخل أي مذهب مهما كانت مرجعيته متى ما توفرت لذلك الظروف والبيئات والشروط المحركة والمحفزة لها.”
وقد نشر المؤلف مقالته عن هذا في دورية نماء مجلة فصلية محكمة متخصصة في علوم الوحي والدراسات الإسلامية
وفي المرفق المقالة لمن أراد الإطلاع والمؤلف قرأت له “الكلام
فضیلۃ العالم سیف اللہ ثناء اللہ بلتی حفظہ اللہ
یہ کتاب “اللفظ بالقرآن مخلوق”
جیسے جملے کے پس منظر میں ہے ۔
فضیلۃ العالم محمد سلیمان جمالی حفظہ اللہ
لأن مسألة اللفظ كانت مسألة مشؤومة على أهل الحديث، أثارت بينهم كثيرًا من النزاع، واختلاف الرؤى الذي يصل إلى حد التبديع والتكفير، وكانت مقاربة ابن قتيبة لهذه الاختلافات مقاربة تحليلية بديعة، تكشف عن الكامن في النفوس خلف الشقاق والاحتراب، وتبين عن أسباب النزاع، وتحاول أن تصل بأهل الحديث في هذه المسألة الشائكة إلى سواء السبيل، وتوقف ما بينهم من صراع حولها.
حاولت هذه الدراسة أن تقدم مقاربة أخرى تضاف إلى المقاربات المتداولة في التعامل مع الاختلافات الكلامية، وهي المقاربة النفسية، ولفتت النظر إلى أهمية كتاب (الاختلاف في مسألة اللفظ)، باعتباره وثيقة تاريخية مبكرة في تفسير الخلافات الكلامية التي حدثت بين أهل الحديث في القرن الثالث الهجري، كما كشفت عن مركزية تأثير الدوافع النفسية باعتبارها مدخلًا أساسيًّا لفهم هذا الكتاب، ودللت على أن التحيزات النفسية هي التي اعتمد عليها ابن قتيبة في تفسير ظاهرة الانقسام والتكفير التي وقعت بين أهل الحديث حول مسألة اللفظ۔
فضیلۃ العالم مرتضی ساجد حفظہ اللہ
موضوع تو کیپشن سے اور دوسرے احباب کے تعارف سے واضح ہو گیا ہے مطلب اخلاقی محرکات جن کی وجہ سے کلامی مسائل کو ہوا ملی تاہم کتاب کے نام کے ترجمہ کے اعتبار سے میرا خیال ہے اس کا نام “نحوستیں “”وہ اخلاقی محرکات جو اختلاف و افتراق کا سبب بنتے ہیں” ہونا چاہیے ۔
فضیلۃ العالم محمد زبیر غازی حفظہ اللہ
شیخ یہ لفظ کہ “ھذہ مسئلۃ مشئومۃ” امام بخاری رحمہ اللہ نے اس وقت کہا تھا جب آپ کی طرف یہ بات منسوب کی گئی تھی کہ امام بخاری “لفظی بالقرآن مخلوق” کے قائل ہیں حالانکہ یہ آپ کا موقف نہیں ہے۔ تو مذکورہ مقالہ شاید اسی پس منظر میں ہے۔
جس میں علم کلام و جدل اور تفرقہ کی اساس کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ کہ نفسیاتی مزاج و محرکات کا اس منطق و جدل کی طرف کس طرح میلان ہوتا ہے۔باقی کتاب پڑھ کر اصل موضوع پتہ چلے گا۔اگر کتاب کو اردو میں عنوان دینا ہے تو اس پر بات کی جاسکتی ہے۔
فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ
اختلافی مسائل کے ساتھ تعامل میں، اسباب اختلاف پر غور و فکر کرنا انتہائی زیادہ ضروری ہے، بعض دفعہ اختلاف کی وجوہات علمی سے زیادہ علاقائی، مسلکی نسبتیں اور مزاج کی کمزوریاں ہوتی ہیں!
زیر نظر کتاب اسی پس منظر میں تحریر فرمائی گئی ہے، جس میں مصنف نے ایک قدیم معرکۃ الاراء مسئلے (لفظی بالقرآن مخلوق) پر ایک قدیم عالم دین ابن قتیبۃ الدینوری کی کتاب ’الاختلاف فی اللفظ’ سے اس مسئلے کی کافی و شافی تشریح و توضیح کی ہے کہ کس طرح انہوں نے اس مسئلے کو زیر بحث لاتے ہوئے ان غیر علمی اسباب پر بھی خصوصی توجہ دی ہے، جو علمی مسائل میں اختلاف کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
یہ تحقیق پڑھنے کے لائق ہے اور اسی انداز سے مزید مسائل اور کتابوں پر تجزیہ و تحلیل کرنے کی ضرورت ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ