سوال

ایک قطع زمین باپ اور تین بیٹوں نےمل کر خریدا ہے۔جبکہ ان کے دو بھائی اور تین بہنیں بھی ہیں۔ دونوں بھائی چھوٹےہیں۔اور تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ باپ کاشتکاری کرتےہیں۔ اورزمین کی آمدن بھی باپ کےپاس ہے ،تینوں بیٹے ملازمت کرتے ہیں ۔اور زمین کا خرچہ اوردونوں بھائیوں کی تعلیم کے اخراجات بھی تینوں بھائی برداشت کرتے ہیں ۔اور زرعی زمین مشترکہ کھاتہ ہے۔ جس میں سے آج تک تینوں بیٹوں کو آمدن میں سےکچھ نہیں ملا،وہ اپنااوراپنےبچوں کا خرچہ اپنی ملازمت سےپوراکرتےہیں۔صورت مسئولہ میں قطع زمین کے حقدار کون ہیں؟باپ اور تین بیٹے یاباپ اور سارے بہن بھائی۔ اب چھوٹے بھائیوں نے زمین خریدی ہے اور اپنے نام لگوائی ہے۔ براہ کرم رہنمائی فرما دیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • زمین کا یہ ٹکڑا جو باپ اورتین بیٹوں نے مل کر خریدا ہے، اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔

نمبر1.بیٹوں نے زمین خرید کر رواداری،ہمدردی اور خدمت کے جذبے سے باپ کے نام کرادی ہو۔اس صورت میں وہ زمین  صرف ان تين  کی نہیں، بلکہ تمام  کی جائیداد ہوگی۔

نمبر2.اگر وہ زمین اس نیت سے خریدی ہے ،کہ ہر ایک  خریدتے ہوئے، جتنا حصہ ڈالے گا، وہ اتنے کا مالک ہوگا،تو پھر بقدرِ حصہ وہی اس زمین کے مالک ہوں گے۔ لہذا جب اس زمین  کو تقسیم کیا جائے گا تو ان کو ان کی ادا كرده قیمت کے مطابق حصہ دیا جائے گا۔اوراگر اس زمین کو  فروخت کیا جائےگا، تو ان کو بقدر حصہ رقم ادا کی جائے گی۔

اس کے علاوہ جو باقی زمین ہوگی ،وہ شرعی حصص کے مطابق تمام ورثاء میں تقسیم کی جائے گی۔ اور یہ تینوں بھی اس میں شرعی حصص کے مطابق شریک ہوں گے۔

  • لیکن صورت مسؤلہ سے معلوم یہی ہوتا ہے، کہ انہوں نے رواداری اور ہمدردی کرتے ہوئے زمین اپنے باپ کے نام لگوا دی ہے۔یہی وجہ ہے کہ گھر کے تمام اخراجات اور بھائیوں کی تعلیم پر خرچ اور کاشت پر جتنا خرچ آتا ہے۔ وہ بھی وہی ادا کرتے ہیں۔اور کاشتکاری سے جتنی آمدن آتی ہے۔ اس سے بھی کچھ نہیں لیتے اور اپنے بچوں کی تعلیم کے اخراجات اپنی ملازمت سے ہی پورے کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ انکو جزائے خیر عطا فرمائے ، اچھے لوگ والدین اور بہن بھائیوں سے اسی طرح کا ہی  حسنِ سلوک اور برتاؤ کرتے ہیں۔یہ ان کی نیت کےمطابق  ان کے لیے صدقہ لکھا جائے گا ۔جیسا کہ حدیث میں ہے:

«إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ.»[صحيح البخاري:55]

’’جب مرد اپنے اہل و عیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرتا ہے تو وہ اس کے حق میں صدقہ بن جاتا ہے‘‘۔

  • جس زمین کی قیمت باپ نے ادا کی وہ بھی بقدر حصص شرعی تقسیم ہونگے بشرطیکہ باپ کی وفات کے بعد تقسیم کی جائے۔ اوراگر باپ کی زندگی میں زمین کو تقسیم کیا جائے تو تمام بہن بھائی برابر کے شریک ہونگے۔
  • چھوٹے بھائیوں نے جو زمین خریدی ہے ، اس کا بھی سابقہ ہی حکم ہے، تو وہ  بھی اگر انہوں نے مشترکہ طور پر خریدی ہے اور رواداری سے باپ کے نام لگوادی ہے ۔تو اس میں بھی سب برابر کے  شریک ہونگے۔ اور اگر انہوں نے خود اپنے طور پر خریدی ہے    اور اپنے نا م لگوائی ہے ،تو وہی اس کے مالک ہیں،اس  میں دوسرے لوگ شریک نہیں ہونگے۔

هذا ما عندنا والله أعلم بالصواب

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ