سوال
شہید زندہ ہوتے ہیں ان کا ماتم نہیں کیا جاتا کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کا ماتم شہید ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ان کی مظلومیت کی وجہ سے ہے تو اس کے بارے کیا وضاحت ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
شریعت اسلام نے ہر قسم کی مصیبت وپریشانی کے وقت، واویلا کرنے اورپیٹنے کی بجائےہمیشہ صبر کی تلقین کی ہے۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:
“وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ”.[البقره: 155، 156]
’اور صبر کرنے والوں کو بشارت دےدیجئے،جن کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کے بیشک ہم اللہ ہی کے لیےہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں‘۔
اور اسی طرح شریعت اسلامیہ نے ماتم اور نوحہ وغیرہ سے ہمیشہ منع کیا اور اسکے متعلق وعیدیں سنائی ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
“ليس مِنَّا من ضرب الْخُدُودَ، وشَقَّ الْجُيُوبَ ودعا بِدَعْوَى الجاهلية”.[صحيح مسلم:103]
’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو گالوں کو پیٹے،گریبانوں کو پھاڑے اور جاہلیت (کفر) کے زمانے کی سی باتیں کرے‘۔
ایک دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اثْنَتَانِ فِي النَّاسِ هُمَا بِهِمْ کُفْرٌ الطَّعْنُ فِي النَّسَبِ وَالنِّيَاحَةُ عَلَی الْمَيِّتِ”.[صحیح مسلم:67]
’لوگوں میں دو چیزیں کفر ہیں نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا‘۔
لِہذا ماتم کے ثبوت کے لیے قرآن کریم کی کسی بھی آیت کے معنی ومفہوم کو تبدیل کرنا سراسر ظلم اور گناہ ِکبیرہ ہے۔
بے شک حضرتِ حسین رضی اللہ عنہ شہید ہیں اور انہوں نے قرآن کریم کے حکم پر عمل کرتے ہوئے صبر کیا۔قرآن کی کسی بھی آیت سے ماتم کا ثبوت پیش کرنا سراسر جہالت ہے۔ماتم کے ثبوت کے لیے جو آیت پیش کی جاتی ہے:
“لَايُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ”.[النساء: 148]
اس کا معنی ومفہوم یہ ہے کہ مظلوم شخص اعلانیہ طور پر اپنی مظلومیت کو بادشاہ کے سامنے بیان کر سکتا ہے۔اور دوسری بات یہ ہے کہ اس میں صرف مظلوم کی بات ہےکہ صرف مظلوم اپنے اوپر کیے گئے ظلم کو اعلانیہ طور پر بیان کرسکتا ہے،نہ کہ اسکے علاوہ کوئی اور جس نے وہ ظلم دیکھا تک نہ ہو۔
لِہذا اس آیت سے مروجہ ماتم کی دلیل نکالناسراسر غلط ،غیرثابت بلکہ قرآن میں معنوی تحریف ہے۔
مذکورہ بالا احادیث میں واضح طور پر ایسے ماتم ، اپنے آپ کو مارنے اور پیٹنے کے متعلق وعید اور ممانعت بیان کی گئی ہے۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث میں ہے:
“أَنَا بَرِيئٌ مِمَّنْ حَلَقَ وَسَلَقَ وَخَرَقَ”. [صحیح مسلم:104]
’میں اس سے بری ہوں جو بطور ماتم بال منڈوائے ، چلاّ کر روئے اور کپڑے پھاڑے‘۔
اس طرح کئی ایک احادیث میں اپنے آپ کو مصیبت کے وقت مارنے، بال نوچنے،یاجاہلیت کی پکار پکارنےوالے کے متعلق سخت وعید او رممانعت ہے، اور یہ سب ماتم ونوحہ وغیرہ کرنا اسلام میں بالکل ناجائز اور حرام ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو صحیح معنوں میں قرآن وحدیث کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطافرمائے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ