الحدیث المعلول، قواعد و ضوابط
دکتور حمزہ ملیباری کی تیسری کتاب، مذکورہ عنوان سے ہے، جو نظرات جدیدۃ کے دوسرے ایڈیشن میں بطور ملحق شامل ہے، دوسرا ملحق ’الاستخراج ‘ سے متعلق ہے، ’نظرات‘ اصل کتاب سو صفحات پر مشتمل ہے، جبکہ اس کے دونوں ملحق تقریبا ایک سو ستر صفحات پر مشتمل ہیں۔
وجہ تالیف:
جیسا کہ پہلے گزر چکا ، مصنف کے نزدیک کتب مصطلح میں ایک خلل یہ بھی ہے کہ اس میں مسائل کی ترتیب درست نہیں ہے ، ملتی جلتی مباحث یا ایک ہی بحث کو متفرق مقامات پر ذکر کیا گیا ہے ، جس سے ایک ہی اصطلاح کے مختلف ناموں کو مستقل اصطلاحات سمجھ لیا جاتا ہے ، یا ان میں موجود ربط ذہن سے محو ہوجاتا ہے ۔ حدیث معلول پر ان کی یہ تصنیف اسی خامی کے ازالے کے لیے پیش کی جارہی ہے ۔
علت کیا ہے؟
مصنف کے نزدیک علت راوی کی غلطی اور خطا کا نام ہے ، چاہے ضعیف ہو یا ثقہ ، اور جب علت سے مراد ہے ہی خطا اور غلطی ، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ صرف قادح ہی ہوتی ہے ،۔گویا یہ تصور درست نہیں کہ علت قادح اور غیر قادح ہوتی ہے ، یا علت کا تعلق صرف ثقات کی روایات کے ساتھ ہے ، کیونکہ کتب علل میں نہ صرف یہ کہ ضعیف اور ثقہ ہر قسم کے راویوں کی روایات میں موجود علل بیان کی گئی ہیں ، بلکہ یہ سب احکام اور اقوال اکٹھے ہی موجود ہیں۔
ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ ثقات کی روایات میں علت کی تلاش مشکل کام ہے ، جبکہ ضعیف روایات میں یہ قدرے آسان ہے ۔ یہ درست کہ سببِ علت ہونے کے لیے ’ غموض ‘ اور ’ ظاہری سلامتی ‘ کی شرط ہے ، لیکن یہ راوی کے ضعف جیسے ظاہری سبب سے متعارض نہیں، کیونکہ راویوں کے احوال بھی ان کی روایات ، اور ان میں غلطیوں اور اوہام کے وجود یاعدم سے طے ہوتے ہیں۔ گویا راوی چاہے ضعیف ہی ہو ، اس کی روایت میں علت تلاش کرنا دقت نظری کا متقاضی ہے ۔!
یہاں انہوں نے متاخرین کا ایک تناقض یہ بھی ذکر کیا ہےکہ پہلے تو علت کی تعریف میں ’ تقدح فی الصحۃ ‘ ذکر کرتے ہیں ، پھر اسی علت کو ’ قادح و غیر قادح ‘ میں تقسیم بھی کرتے ہیں۔
اسی طرح علت جب راوی کی غلطی کا نام ہے، تو اس غلطی کے ادراک اور دریافت کے لیے ’ مخالفت ‘ اور ’ تفرد ‘ کی بحثیں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں، ’ الباب إذا لم تجمع طرقہ لم یتبین خطأہ ‘ جیسے اقوال کا یہی معنی و مفہوم ہے ۔
علت کی وضاحت کےلیے کچھ مثالیں بیان کرنے کے بعد ’ الدلائل علی العلۃ ‘ کا عنوان قائم کرتے ہوئے ، اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ناقد کے ہاں تعلیل حدیث کی بنیاد ہوائے نفس نہیں ہوتی ، بلکہ اس کے احساس و شعور میں اس پر دلالت کرنے والے قرائن اور ترجیحات موجود ہوتی ہیں ، وہ اقوال جن میں علم علل کو ’ الہام ‘ وغیرہ کہا گیا ہے ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض دفعہ اس تعلیل کی تفہیم عام شخص کو کروانے کے لیے الفاظ نہیں مل پاتے ۔ یہ مطلب نہیں کہ ہر ناقد اپنی مرضی اور من مانی کرتا ہے ، اگر معاملہ اس طرح ہوتا ، تو ایک ہی بات پر ائمہ علل اور ناقدین کا ایک دوسرے سے اتفاق نہ ہوتا ۔ اس سلسلے میں انہوں نے بعض واقعات اور حکایات ذکر کی ہیں ، جو علم حدیث کے طالب کے ہاں معروف ہیں۔
حدیث ِمعلول کی اقسام:
’ مخالفت ‘ ،اور ’ تفرد‘ کو علت کی بحث کے بنیادی نقاط قرار دیکر ، ان سے متفرع ہونے والی حدیث معلول کی مختلف اقسام ذکر کی ہیں ، مخالفت کی صورتوں میں تعارض الوصل والارسال ، تعارض الرفع و الوقف ، تعارض الاتصال و الانقطاع ، المزید فی متصل الاسانید ، تعارض فی اسم الراوی ، تعارض الاطلاق و التقیید وغیرہ گنوائی ہیں ، اس کے علاوہ ’ شاذ‘ ، منکر ، مقلوب ، مدرج ، مصحف اور مضطرب وغیرہ اقسام الگ سے ذکر کی ہیں ۔
’زیادۃ الثقۃ ‘ کا مسئلہ چونکہ مخالفت اور تفرد دونوں سے متعلق ہے ، اس میں متقدمین ، متاخرین ، اصولیوں ، فقہا وغیرہ سب کی آراء تفصیل سے ذکر کی ہیں ۔ ساتھ یہ بھی تنبیہ کی ہے کہ بعض لوگ زیادۃ الثقہ اور مخالفت میں فرق نہیں سمجھ پاتے ، یوں حکم میں غلطی کرتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب میں گو بہت مفید بحثیں بھی آگئی ہیں لیکن ان کی ترتیب میں ایک قسم کا تکرار ، اور الجھاؤ پایا جاتا ہے ، مصنف متاخرین کا نقص دور کرتے کرتے ، خود ایک اور نقص میں مبتلا ہوگئے ہیں ، جس طالبعلم نے عام کتب مصطلح نہیں پڑھیں ، وہ مباحث کے ان تشتت اور بے ترتیبی اور غیر ضروری تکرار سے گھبرا کر شاید اس علم سے ہی بد ظن ہوجائے گا ۔
استخراج اور كتب مصطلح:
کتاب کا دوسرا ملحق مذکورہ عنوان سے ہے ، یہاں بھی یہی دعوی ہے کہ کتب مصطلح میں استخراج کوصحیحین وغیرہ چند کتب کےساتھ خاص کردیا گیا ہے ،حالانکہ یہ ایک وسیع مفہوم ہے ،جس میں ہر لاحق ، سابق سے کم سے کم واسطوں سے ملنے کی کوشش کرتا ہے ، گویا یہ ’ علو اسناد ‘ کے حصول کی ایک کوشش ہے ، جس کی محدثین کے ہاں بہت زیادہ اہمیت تھی ، ہم دیکھتے ہیں مشہور مصنفینِ کتب نے اپنے معاصرین ، حتی کہ بعض مشایخ سے بھی روایات ذکر نہیں کیں ، کیونکہ کتاب سے متعلقہ روایات ان کے پاس دیگر راویوں کی عالی اسانید سے موجود تھیں۔