سوال

کیا منکرین حدیث کی وفات پر مغفرت کی دعا کی جا سکتی ہے؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

جن کے عقیدے میں نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ،قربانی ، پردے کا انکارہو،اور قرآن مجید کو محض الفاظ کے مجموعے سے بڑھ کر کچھ نہ سمجھنا، صحابہ کو برا کہنا وغیرہ شامل ہے۔ ایسے نظریات کا حامل شخص قرآن وسنت کی روشنی میں دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ایسے شخص کےلئے مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:

‏”إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا أُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا”.[النساء:150،151]

’جو لوگ اللہ کے ساتھ اور اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں، اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق رکھیں، اور جو لوگ کہتے ہیں کہ بعض نبیوں پر تو ہمارا ایمان ہے اور بعض پر نہیں، اور وہ  چاہتے ہیں کہ اس کے بین بین کوئی راه نکالیں ،یقین مانو کہ یہ سب لوگ اصلی کافر ہیں، اور کافروں کے لئے ہم نے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے‘۔

منکرین حدیث دراصل انکار ِقرآن ہی کی تحریک ہے۔انہوں نے انکارِ حدیث کو ہی انکارِ قرآن کا ذریعہ بنایا ہے۔ہم نے انکی کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کیا ہے۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ قرآن کا بھی مذاق اڑاتے ہیں۔ جیسا کہ قران کریم میں حضرت یونس علیہ السلام کے بارےمیں ہے:

“فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ‏،لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ”.[الصافات:144،143]

’پس اگر یہ پاکی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے، تو لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس کے پیٹ میں ہی رہتے‘۔

مشہور منکرِ حدیث پرویز احمد اسکا معنی یہ کرتا ہے،کہ یونس علیہ السلام اگر بہترین تیراک نہ ہوتے تو کبھی باہر نہ آسکتا۔(مفہوم القرآن:1047) یہ قرآن کریم کے ساتھ استہزاء نہیں تو اور کیا ہے؟!

اس کے ساتھ ساتھ نماز کا انکار،زکاة اور حج کا انکار۔اور پھر صحابہ پر تبرا کرنا۔تو ایسے کفریہ عقیدے رکھنے والوں کے جنازےمیں شریک ہونے، اور مغفرت کی دعا کرنے کی بجائے حکم ہے،کہ جب بھی ان کی قبروں سے گزرو تو انہیں جہنم کی خوشخبری دو۔ [السلسلة الصحيحة:18]

ان کے ساتھ ہمدردی کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ ، ان میں سے جو زندہ ہیں ،ان کی ہدایت کی دعا  کی جائے، یا اگر ممکن ہو، تو اصلاح کی کوشش کی جائے۔اس کے علاوہ یہ کسی بھی قسم کی رواداری کے حقدار نہیں ہیں۔منکرین حدیث کی تحریک بہت پرانی ہے۔ جب سے یہ ٹولہ وجود میں آیاہےتب  سےعلمائے امت ان کا تعاقب کر رہے ہیں۔اور ان کے اس وقت سے شکوک و شبہات دور کر رہے ہیں۔اور ان کے جتنے بھی دلائل ہیں ان کے بودے پن کو واضح کر رہے ہیں۔یہ اتمام حجت ہی ہے۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:

“وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا “.[الاسراء:15]‎

’کہ ہم اس وقت تک کسی کو عذاب نہیں دیتے جب تک اپنا رسول ان میں نہ بھیج دیں‘۔

اس لئے علمائے کرام  نے  اللہ پاک کی مہربانی سے ان پر اتمامِ حجت کر دیا ہے۔لیکن اس کے باوجود یہ لوگ ماننے کی بجائے الٹا استہزاء پر اتر آتے ہیں۔

ان کو کسی قسم کا عذر نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ یہ اعلانیہ اور کھلم کھلا اپنے نظریات کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ کتبِ احادیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ “لھو الحدیث” ہیں۔ اور عجمی سازش ہے جو اسلام کے خلاف کی گئی ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

“قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ”.[التوبہ:65]

’کہ تمہیں استہزاء کے لئے اللہ اور اس کی آیات اور اس کا رسول ہی ملا ہے کہ تم ان کے ساتھ استہزاء کرتے ہو‘۔

اور پھر ارشاد فرمایا :

“قدكَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ”.[التوبہ:66]

’کہ تم نے ایمان کے بعد کفر کیا ہے‘۔

مجبوری، جبر، اکراہ جیسا معاملہ بھی کوئی نہیں  کہ جس کا انہیں عذر دیا جاسکتا ہو۔ کسی کے عقائد و نظریات کی بنا پر حکم لگانے کے جتنے موانع ہوسکتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی ان کے حق میں موجود نہیں۔ بلکہ ان پر، علمائے کرام نے حجیت حدیث پر کثیر تعداد میں کتابیں لکھ کر، اور وعظ و نصیحت کر کے ،اتمامِ حجت کر دی ہے۔ اور ہماری اس موضوع پر اہم کتاب حجیت حدیث کا ایک ایڈیشن بھی آ چکا ہے۔اس میں بھی اس مسئلہ کو اچھی طرح واضح کر دیا گیا ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ