مولانا طارق جمیل کے بیٹے کی المناک موت کی خبر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ اللہ کریم مولانا کے خاندان کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے اور غم و دکھ کی اس گھڑی کو برداشت کرنے کی توفیق دے۔ نفسیاتی عوارض ایک حقیقت ہیں اور ان عوارض کے علاج کی ضرورت اور ان سے جڑی مشکلات کے بارے میں ہمارے ہاں آگہی کی کمی ہے۔ انسانی ذہن بہت پیچیدہ چیز ہے اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہر شخص اس مرحلے کا مریض نہیں ہوتا جسے ہمارے ہاں عموما “پاگل” کہہ کر ایک طرف کر دیتے ہیں۔ ڈپریشن، مایوسی، اداسی، خوف، گھبراہٹ، دوہری شخصیت اور اس قسم کے دیگر نفسیاتی عوامل جب کنٹرول سے باہر ہو جائیں تو سنگین صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔

یاد رہے کہ جسمانی عوارض و بیماریوں کی طرح نفسیاتی بیماری بھی ایک میڈیکل کنڈیشن ہوتی ہے اور کسی کو اس بیماری کا شکار دیکھ کر مکافات عمل وغیرہ کے طعنے دینا اور منفی تبصرے کرنا بے حسی اور جہالت کا ثبوت دینے کے مترادف ہے۔ جس طرح جسمانی بیماری کسی دیندار، لبرل، سیکولر وغیرہ کو برابر متاثر کرتی ہے اسی طرح نفسیاتی بیماری کا شکار کوئی بھی شخص ہوسکتا ہے۔ اس معاملے میں اللہ سے ہمیشہ زوال نعمت و محتاجی سے پناہ اور عافیت و سلامتی کی دعا مانگنی چاہیئے کہ انسان بہت کمزور ہے۔

نفسیاتی عارضے کا شکار مریض ہماری ہمدردی، مدد اور جذباتی تسلی کا مستحق ہوتا ہے۔ اس قسم کے مریض کو علاج کے لئے آمادہ کرنا اور پھر علاج کے مناسب بندوبست اور مابعد علاج دیکھ بھال کے مراحل بہت مشکل اور بسا اوقات خوفناک ہوتے ہیں۔ جو لوگ ان مراحل سے گزرتے ہیں وہ خود ٹراما کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمارے اردگرد اس طرح کے متعدد لوگ موجود ہوتے ہیں۔ ان کی بیماری اور حالت دیکھ کر جھنجھلاہٹ ضرور پیدا ہوتی ہے مگر اس پر قابو پا کر معاملے کو دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم کسی کی بہت زیادہ مدد نہ بھی کر سکیں تو اپنی زبان سے اذیت پہنچانے سے گریز کرنا تو ہمارے بس میں ہوتا ہی ہے۔

عزیز الرحمن