سوال (1358)

امام ترمذی رحمہ اللہ کسی حدیث کو نقل کر کے کہتے ہیں “و في الباب عن فلان و فلان” اور آگے فرماتے “و لا نعرفه الا من ھذا الوجه” مطلب کہ فلان فلان سے بھی مروی ہے ، لیکن ہم اس کو اس طریق کے علاوہ نہیں جانتے ہیں ، اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے ، امام صاحب کے نزدیک رہنمائی فرمادیں ۔

جواب

ایک ہی حدیث کی مختلف روایات یا ایک ہی معنی کی مختلف احادیث آئیں تو اس کی دو بنیادی دو قسمیں ہیں:
1۔شواہد
2۔متابعات
شواہد ان دو یا زیادہ احادیث کو کہا جاتا ہے، جو ہم معنی ہوں، اور ان کو روایت کرنے والے صحابی مختلف ہوں۔
متابعات ان دو یا زیادہ روایات کو کہا جاتا ہے، جو ہم معنی ہوں، اور ان سب کو روایت کرنے والا صحابی ایک ہی ہو۔
متابعات کی پھر آگے مختلف قسمیں ہیں۔
راوی جب مل جل کر روایت بیان کریں تو اسے متابعت کہا جاتا ہے۔ لیکن جب راوی روایت بیان کرنے میں اکیلا رہ جائے تو متابعت کے برعکس اس کے لیے تفرد اور غرابت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جس طرح متابعت کی مختلف قسمیں ہیں، اسی طرح تفرد و غرابت کی بھی مختلف صورتیں ہیں۔
یہ اس کی عام فہم وضاحت ہے، ورنہ اس میں قدرے تفصیلات ہیں۔
امام صاحب وفی الباب عن فلان و فلان کہیں تو ان کی مراد اس حدیث کے شواہد یعنی دیگر صحابہ کرام سے اس سے ملتی جلتی روایات مراد ہوتی ہیں۔ اور جب لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ وغیرہ کے الفاظ کہیں، تو اس سے مراد اسی ایک صحابی کی روایت کے ذیلی طرق پر تبصرہ مراد ہوتا ہے۔
یعنی اس باب میں فلاں فلاں صحابہ سے روایات مروی ہیں، لیکن جس صحابی کی روایت میں نے ذکر کی ہے، اس کی سند میں فلاں جگہ راوی اکیلا رہ گیا ہے۔
یہ اصول حدیث کا بالکل بنیادی سا مسئلہ ہے، لیکن اس کو نظری طور پر سمجھنا شاید مشکل ہو جائے، البتہ اس کی عملی مشق کرتے ہوئے یا جس حدیث پر امام صاحب نے تبصرہ کیا ہوا ہے، اس کی اسانید کا شجرہ بنا کر اسے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
بطور مثال امام ترمذی فرماتے ہیں:

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، وَيَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ يَدَهُ اليُمْنَى عَلَى رُكْبَتِهِ، وَرَفَعَ إِصْبَعَهُ الَّتِي تَلِي الإِبْهَامَ يَدْعُو بِهَا، وَيَدُهُ اليُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ بَاسِطَهَا عَلَيْهِ»، ‌وَفِي ‌البَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَنُمَيْرٍ الخُزَاعِيِّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي حُمَيْدٍ، وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، «حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ‌إِلَّا ‌مِنْ ‌هَذَا ‌الوَجْهِ». [سنن الترمذي 2/ 88 برقم:294]

اس حدیث میں امام صاحب نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے، اور پھر فرمایا کہ اس باب میں فلاں فلاں صحابہ سے بھی روایات ہیں، اور پھر فرمایا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث ہمیں صرف عبید اللہ بن عمر العمری کے طریق سے ہی موصول ہوئی ہے۔
سنن الترمذی میں اس کی درجنوں مثالیں ہیں۔
سائل کے لیے باعث اشکال یہ ہوگا کہ اگر اس حدیث کی صرف ایک ہی سند ہے تو پھر وفی الباب سے دیگر روایات کی طرف اشارہ کیوں ہے؟
لیکن امید ہے بات واضح ہوگئی ہو گی کہ دونوں الگ الگ چیزوں کی طرف اشارہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ