سوال (5092)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَنْبَأَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْن عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَتْ تَحْتِي امْرَأَةٌ أَحِبُّهَا، وَكَانَ أَبِي يَكْرَهُهَا، فَأَمَرَنِي أَبِي أَنْ أَطَلِقَهَا، فَأَبَيْتُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، طَلِقُ امْرَأَتَكَ- [سنن الترمذی: 1189]
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے نکاح میں ایک عورت تھی جس سے میں محبت کرتا تھا، مگر میرے والد اسے ناپسند کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں ، لیکن میں نے انکار کیا۔ پھر میں نے یہ بات نبی کریم صلی علیم سے عرض کی تو الله س آپ صلی الم نے فرمایا: “عبد اللہ بن عمر ! اپنی بیوی کو طلاق دے دو “۔
جواب
سنن ابی داؤد اور سلسلۃ الصحیحہ میں یہ حدیث موجود ہے، یہ روایت صحیح بھی ہے، ممکن ہے کہ کسی نے کلام کیا ہے، اس کا سیدھا سا مفہوم ہے کہ والد کا مقام زیادہ ہے، بیٹے کا مقام کم ہے، اگر ایسا کچھ ہو جائے تو افہام و تفہیم کے ساتھ مسئلہ حل کیا جائے، اس حدیث کو بنیاد بنا کر کوئی والد بیٹے کو نہ کہے کہ حدیث کے مطابق حکم دے رہا ہوں، کیا کوئی تقوی، ورع اور علم میں سیدنا عمر رضی اللہ عنھما کی طرح ہے، کیا اس نے اپنے بیٹے کو عبد اللہ کی طرح تربیت دی ہے، ایسا نہیں ہے، دلیل اپنی جگہ درست ہے، لیکن اس طرح کے مسائل کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنا چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
یہ حدیث مسند أحمد بن حنبل:(4711) سنن أبو داود:(5138)،سنن ابن ماجہ:(2088)، سنن ترمذی: (1189)، مسند عبد بن حمید: (833)مسند أبی داود الطیالسی: (1931)، الجعدیات/ مسند ابن الجعد:(2762)،شرح مشكل الآثار للطحاوي:(1386)،صحیح ابن حبان:(427) ﺫﻛﺮ اﻟﺒﻴﺎﻥ ﺑﺄﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻣﺮ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻄﻼﻗﻬﺎ ﻃﺎﻋﺔ لأبيه،السنن الكبرى للبيهقى: (14893) سنده حسن لذاته
یہ حدیث اس مسئلہ پر واضح ہے کہ جب سسر اپنی بہو میں کوئی ناگوار،خلاف شرع یا شر والی بات دیکھیں تو وہ اپنے بیٹے کو اسے طلاق دینے کا کہہ سکتے ہیں اور بیٹے کو اس مسئلہ میں اپنے باپ کی اطاعت میں طلاق دے دینی چاہیے ہے جیسا کہ اس حدیث میں سیدنا عمر فاروق رضی الله عنہ جیسے جلیل القدر صاحب علم وفضل دور اندیش صلاحیتوں کے مالک باپ نے اپنے بیٹے کو کہا اور رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے بھی اپنے باپ کی اطاعت کا حکم پورا کرنے کا ارشاد فرمایا
اور اس سے پہلے جد الانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ وسلم نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے لیے طلاق دینے کا اشارہ اس لئے چھوڑا تھا کہ ان کی زوجہ نے سیدنا ابراہیم علیہ وسلم کے سامنے ناشکری کا اظہار کیا تھا۔
تو جب وجہ معقول اور واضح ہو اس میں کوئی ضد وسلم کا پہلو نمایاں نہیں ہو تو باپ کے کہنے پر بیٹے کو طلاق دے دینی چاہیے ہے مگر یہ یاد رہے کہ آپ نے اسے بھلے طریقے سے رخصت کرنا ہے جس میں ذرہ برابر ظلم نہیں ہونا چاہیے ہے۔
آج اگر باپ عقل وشعور میں بصیرت دینیہ اور تقوی وایمان میں سیدنا عمر فاروق رضی الله عنہ کے قریب ہے یعنی ایسی خوبیاں جو رب العالمین کو مطلوب ہیں اور خواہش نفس شامل نہیں نہ ہی مقصد تذلیل ہے تو بیٹے کو باپ کی بات ماننی چاہیے ہے اور یہ اطاعت بھی معروف کا حصہ ہے۔ هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ