وطن عزیز میں جس طرح مختلف اعتبارات سے صف بندیاں ہو رہی ہیں اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو رہا ہے کہ بہت سارے چہرے پہچانے جا رہے رہے ہیں بقول شاعر : لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
وہ تمام عناصر جو اپنی چرب زبانی کی بنیاد پر مقبولیت کے دعویدار ہیں اور کچھ سوشل میڈیائی کرم نوازیاں (پوسٹ کو بوسٹ کروا دو) وہ سب کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی سٹیج پر باہم ایک دوسرے سے آ ملتے ہیں صرف مرزا جہلمی اور ساحل عدیم اس کی واضح مثالیں ہیں۔
کبھی نوجوانوں کو جھاد کے نام پر اصلاح احوال کے سبق پڑھائے گئے اور اندازہ ہوا کہ اب جھاد نام کا فلسفہ مزید بیچنا ممکن نہیں تو عصر حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے نام پر احسان کے سبق دیے گئے۔
نصوص کی من مانی تشریحات اور توضیحات نے مزید کام خراب کیا
تاریخ مسلمانان عالم کی سابقہ چودہ سو سالہ تاریخ کے وسیع و عریض صفحات اس امر پر شاھد ہیں جہاں جہاں فہم نصوص کے نام پر عقلی موشگافیوں کا راستہ کھولا گیا وہاں معتزلہ ، اشاعرہ، ماتریدیہ، روافض، خوارج، اہل بدعات، اہل شرک وغیرہ کی ظفر موج نے بیڑہ غرق کر دیا۔
اس لیے ہر قسم کی فکری و عقدی گمراہی سے بچنے کا راستہ ایک ہی ہے
01) کتاب و سنت کی نصوص پر غیر متزلزل اور غٖیر مشروط ایمان
02) کتاب وسنت کی نصوص کی وہ تشریحات جو رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین سے ثابت ہیں انہیں ماننا۔
03) ثقہ علماء اور صالحین کی صحبت اختیار کرنا۔
صحبت صالحہ کی خوبصورتی اور حسن کا اندازہ لگانا ہو تو قرآن مجید کی یہ دو آیات منھج بیان کرتی ہیں
وَاصْبِرْ نَـفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِىِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ (الکھف)
وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗؕ (الانعام)
رسول اللہ ﷺ کو صحابہ کرام کو ساتھ رکھنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔
پہلے محسنین اسکواڈ کے نام پر چوں چوں کا مربہ سٹیج پر بٹھایا گیا تھا اور اب الحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف الخیال لوگوں کو سٹیج پر بٹھا کر الحاد کا مقابلہ کروایا جائے گا اور لطیفہ یہ ہے کہ الحاد کا مقابلہ کرنے کے طریقے ان لوگوں سے سیکھے جاہیں گے جو خود الحاد کو رائج کرنے میں ہر اول دستہ کا کام کر رہے ہیں۔
لہذا موجودہ دور کے جو ثقہ علماء ہیں ان سے دین سیکھیں، ہر قسم کے الحاد کا مقابلہ کتاب و سنت کے ساتھ مضبوط تعلق سے کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر شاہ فیض الابرار