ڈاکٹر حمزہ ملیباری  کی علوم حدیث سے متعلق کتابوں پر تبصرہ

ڈاکٹر حمزہ ملیباری صاحب کی سابقہ کتابوں کے مطالعہ کے بعد ان میں موجود مثبت یا مفید پہلو ، یا مصنف کی خوبیاں درج ذیل انداز میں بیان کی جاسکتی ہیں:
1. مصنف نے تصنیف و تالیف میں جدید انداز بحث اختیار کیا ہے ، کسی بھی موضوع سے متعلق انشائی کلام کرنے کی بجائے ، ایک تو کتابیں مباحث اور اقسام پر مرتب ہیں ، دوسرا صلب بحث میں بھی منظم و مرتب جملے کہنے کی کوشش کرتے ہیں ، ایک ہی عنوان کے تحت صفحات کے صفحات لکھنے کی بجائے ، دو تین صفحات کے بعد گفتگو نئی سرخی اور عنوان سے آگے بڑھاتے ہیں ، اس کا فائدہ یہ ہے کہ قاری پڑھتے ہوئے اکتاہٹ و ملل محسوس نہیں کرتا ۔اکثر اوقات نکات کی شکل میں ہر مبحث کا خلاصہ بیان کرنے کا التزام کرتے ہیں ، اگرچہ بعض دفعہ خلاصے میں ماقبل بحث کا تصور واضح نہیں ہوپاتا ۔
2. بعض لوگوں کے ہاں یہ بھی ایک خوبی ہے ، کتابوں کا اسلوب مناظرانہ نہیں ، اور تحریروں میں کسی خاص جماعت ، مذہب ، مسلک وغیرہ سے تعصب ظاہر نہیں ہوتا۔
3. ان کی کتابیں پڑھنا اس لیے مفید ہے کہ اس میں مسائل کو ایک نئے انداز سے پیش کیا گیا ہے ، اگر کسی کو عام روایتی انداز سے کوئی بات سمجھ نہ آئی ہو ، ممکن ہے اس طرح اس کے لیے کوئی نئی جہت سامنےآجائے ۔ کسی بھی چیز کے جوڑ توڑ سے اس کے مزید پہلو واضح ہوتے ہیں ۔
4. دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے ، کہ کتاب کےعنوان میں دعوی بہت بڑا ہوتا ہے ، خالی دعوی سن کر یا کتاب کا ٹائٹل پڑھ کر محسوس ہوتا ہے ، پتہ نہیں اس کے اندر متقدمین و متاخرین میں کیا مارا ماری ہورہی ہوگئی ، لیکن مکمل کتاب پڑھنےسے یہ سب خدشات دور ہوجاتے ہیں ، بلکہ متاخرین کا احترام مزید بڑھ جاتا ہے۔
5. ڈاکٹر ملیباری صاحب کی کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات بالکل نمایاں ہے کہ ایک بہترین باحث ، نکتہ رس مصنف ، ناقد اور محقق کی صفات سے متصف ہیں ،اپنی علمی و تحقیقی کاوشوں کو ’ منہجی تفریق ‘ کے داغ سے محفوظ رکھتے ، تو بلاشبہ ان میں کئی نفیس بحثیں اور تحریرات موجود ہیں ، جو ایک طالبِ حدیث کے دل میں اس علم کی محبت و عظمت اجاگر کرتی ہیں ۔
اشکالات و اعتراضات:
ڈاکٹر ملیباری صاحب نے اپنی کتابوں میں ’ متقدمین اور متاخرین کے درمیان موازنہ اور مقارنہ کرکے دونوں میں منہجی تفریق کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ، ان کے اس دعوے اور اس کے لیے طرز استدلال یا طریقہ بحث میں مجھے جو اشکالات نظر آئے ، انہیں درج ذیل نکات میں عرض کرتا ہوں :
1. مصنف نے منہجی تفریق کا مقدمہ قائم کرنے ،اور متاخرین کے منہج میں خلل کے اثبات کے لیے متاخرین کے متاخرین کی مذمت میں اقوال نقل کیے ہیں ، جن میں مسئلہ یہ ہے کہ متاخرین نے اس دور کے سست اور نکمےلوگ مراد لیے ہیں ، جس طرح کے ہرزمانے میں کچھ اچھے اور کچھ دوسرے ، کچھ محنتی اور کچھ سست لوگ ہوتے ہیں ، ملیباری صاحب قول محنتی لوگ کا سست لوگوں کے بارے میں نقل کرتے ہیں ، جبکہ اس کا انطباق انہیں محنتی اور مشہور علماء پر کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ملیباری صاحب نے اپنے معاصرین وغیرہ کو جس طرح سخت سست کہا ہے ، آئندہ آنے والا کوئی محقق انہیں اقوال کو بنیاد بنا کر انہیں پر نقد کرنا شروع کردے ۔
2. متاخرین پر نقد کرتے ہوئے ، اصول حدیث کی کتابوں سے ان کے اقوال نقل کرنے پر تھوڑی بہت توجہ دی گئی ہے ، جبکہ ان کی تطبیقات اور تخریجات کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کوشش کرکے اپنی طرف سے ایک موقف بناکر اپنی طرف سے اس کا رد کرنے کا شوق پورا کیا گیا ہے ۔ حالانکہ قواعد اور اصول بیان کرنے میں جامعیت اور اختصار کو مد نظر رکھا جاتا ہے ، لیکن تطبیق اور عملی کام میں محدث کے اصل تصور اور منہج کا پتہ چل جاتا ہے ۔ ملیباری صاحب متاخرین کے نظریات اور تطبیقات دونوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نقد کرتے ، تو انہیں کے بقول یہ ایک ’ منہجی و علمی تحقیق ‘ ہوتی ۔
3. متقدمین کے کام میں اکثر عملی تطبیقات ہی ہیں ، تنظیر و تاصیل کم ہے ، جبکہ متاخرین کے ہاں متقدمین کے کام کو مد نظر رکھتے ہوئے تدوینِ قواعد و ضوابط پر بھرپور توجہ دی گئی ہے ، اورا س میں کہیں بھی کوئی عجب بات نہیں ، ہر کسی نے اپنے وقت کی ضرورت کو پیش نظر رکھتےہوئے خدمت حدیث کا فریضہ سر انجام دیاہے ، یہ بات بھی بالکل بدیہی ہے کہ تطبیقات میں جزئیات کی تفصیل ہوتی ہے ، جبکہ اصول بیان کرتے ہوئے اغلب کا خیال رکھا جاتا ہے ، متقدمین و متاخرین کے ہاں اسی وجہ سے کچھ فرق نظر آتا ہے ، لیکن جو فرق ہمیں متاخرین کی تاصیلات میں نظرآتا ہے ، تطبیقات میں اور احادیث کی تخریج وغیرہ میں سب باتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں ۔ کتنی احادیث ہیں جن میں متقدمین سے متاخرین نے اختلاف کیا ہے ؟ نہ ہونے کے برابر ، اور پھر اختلاف کی جو نوعیت ہے ،ایسا اختلاف متقدم کا متقدم سے او ر متاخر کا متاخر سے موجود ہے ۔
4. اصطلاحات پر نقد کرتے ہوئے ، چند ایک متاخرین بلکہ بعض دفعہ صرف ابن الصلاح وغیرہ ایک مصنف کی عبارت کو بنیاد بنالیتے ہیں ، اور متقدمین کی علمی تطبیقات سے اس پر استدراک کرنا شروع کردیتے ہیں ، حد تو یہ ہے کہ کئی دفعہ عراقی اور ابن حجر کے ’ نکات ‘ اور ’ استدراکات‘ بھی ذکر کر رہے ہوتے ہیں ۔
5. مصنف کی کتابوں میں مباحث اور اقوال کا تکرار کافی ہے ، وجہ یہی ہے کہ انہیں متاخرین کا اختصار والا طریقہ پسند نہیں ، لہذا ہر مبحث کو اپنے انداز سے چھیڑتے ہیں ، اور پھر ہر جگہ پر ایک ہی بات دہرانا پڑتی ہے ۔بار بار کے اس تکرار سے انہیں اس بات کا ضرور احساس ہونا چاہیے تھا کہ آخر مصنفین ِمصطلح نے یہ تکرار ِممل والا طریقہ کیوں چھوڑا ہے ؟ اگر یہ نقطہ سمجھ آجاتا تو وہ علوم حدیث پر ’ نئی نظر ‘ ڈالنے کے تکلف سے باز آجاتے ۔بالکل اسی طرح جیسے یہ بعض معاصرین کو الزام دیتے ہیں کہ اگر انہیں متقدمین کے قول کی کنہ کا ادراک ہوتا تو شاید ان پر تعقب نہ کرتے ۔
6. مصنف نقد حدیث ، اور جرح و تعدیل کی بحثوں کو جس انداز سے زیر بحث لائے ہیں ، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اصول حدیث ایک منضبط فن نہیں ، بلکہ قرائن و ترجیحات کا مجموعہ ہے ۔ شاید مصنف کو ’ اصطلاح بندی‘ کا تصور سمجھنے میں غلطی لگی ہے ، کیونکہ اگر وہ تقعید و تأصیل کے حقیقی تصور سے مقتنع ہوتے ، تو جس طرح دیگر ائمہ و محدثین نے کتب مصطلح کو تسلیم کرنے کے باوجود عملی تطبیقات میں ناقدین کے منہج کو نہیں چھوڑا ، مصنف بھی اسی رستے کو اختیار کرتے ، یہ درست ہے کہ جن لوگوں نے کتب مصطلح کو ائمہ ناقدین پر حاکم بنایا ، ان کی غلطی کی اصلاح کی جائے ، لیکن خود اصطلاحات کے ہی خلاف ہوجانا ،اس بات کی دلیل ہے کہ غلطی کا رد ایک اور غلطی کرکے کیا جارہا ہے ۔
7. کتاب میں بہ تکرار یہ کہتے نظر آتےہیں کہ علم حدیث بہت عظیم فن ہے، اس کےمسائل میں بہت گہرائی ہے ، اسے سمجھنا بچوں کا کھیل نہیں ، ہر کوئی اس میں آنے کی اہلیت نہیں رکھتا ، تصحیح و تضعیف کے معاملہ میں بڑی محنت درکار ہے ، بعض لوگوں نے اس پر توجہ نہیں کی ، جلد بازی کرتے ہیں ، وغیرہ ۔ یہ سب باتیں اور نصیحتیں فی نفسہ درست ہیں ۔ لیکن متاخرین و متقدمین کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے اس سب کچھ سے پتہ نہیں ان کی کیا مراد ہے ؟ مطلب ذہبی ، ابن حجر جیسےلوگ اس فن کی باریکیوں سے واقف نہیں تھے ، اور وقت کے امام شیخ البانی نے کھیل کھیل میں ہزاروں احادیث کی تحقیق و تفتیش کا عظیم کام کر دکھایا ہے ؟
8. اگر ان کی مراد یہی لوگ ہیں ، تو پھر کہنے کے لیے پیچھے کیا رہ جاتا ہے ! لیکن حسن ظن رکھ لیتے ہیں کہ ان کی مراد کوئی اور لوگ ہیں ؟ لیکن وہ کون ہیں ؟ اگر ان کے پاس پڑھنے والے طالبعلم ہیں ، یا ہمارے جیسے طفل ِمکتب ہیں ، تو اس کو بنیاد بناکر ’ تفریقی سوچ ‘ کا وسیع و عریض دعوی کیا معنی رکھتا ہے ؟!
9. فاضل مصنف اپنی تحریروں میں عموما یہ شکوہ کرتے ہیں کہ بعض متاخرین یا معاصرین متقدمین پر سطحی تعقب کرتے ہیں ، چھوٹی چھوٹی باتیں جو بچوں کو بھی یاد ہوتی ہیں ،وہ متقدمین کو سمجھا رہے ہوتے ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس عیب سے وہ خود بھی نہیں بچ سکے ، اتنے دقیق مباحث شروع کرکے ، بڑے بڑے ائمہ کرام ، علم و فضل کے جبال کو لائن حاضر کرکے بچوں والی نصیحتیں شروع کردیتے ہیں ۔
10. ’نظرات جدیدہ‘ اور اس سے ملحق بحثوں میں یہ بات بعض مقامات پر شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ مصنف کے دماغ پر مستشرقین کا رد حاوی ہے ، ظاہر ہے بہت سارے متاخرین استشراق جیسے فتنہ سے پہلے کے ہیں ، مصنف اور ائمہ مصطلح کے مابین حالات و زمانے کی یہ تبدیلی ، مصنف کے ان سے اختلاف کا واضح سبب نظر آتاہے ۔ نظرات کی بعض بحثوں میں ڈاکٹر مصطفی اعظمی صاحب کے طرز اسلوب کا رنگ بھی نظر آتا ہے ۔
11. مصنف کا اسلوب ہے ، تنقیدکرتے ہوئے عموما صراحت سے کسی کا نام نہیں لیتے، لیکن طنز و تعریض کرتے ہیں ، بلکہ بعض جگہ منہجی خلل کے نمونے بیان کرتے ہوئے کچھ عبارتیں اقتباس کی علامات کےساتھ ذکر کی ہیں ، میں نے ان عبارات کو تلاش کیا ہے ، وہ اکثر عبارات ، شیخ البانی ، شیخ ربیع وغیرہما کی ہیں ، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ان منہجی بحثوں کا ایک خصوصی محرک ان کی شیخ ربیع سے چپقلش ، اور شیخ البانی سے بیزاری بھی ہوسکتا ہے۔
وللہ فی خلقہ شؤون ۔ وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد و آلہ و صحبہ أجمعین ۔
و کتبہ: حافظ خضرحیات، عزیزیہ، مدینہ منورہ​


اس سلسلے کی تمام تحاریر پڑھنے کے لیے اس لنک کو ملاحظہ کریں۔