سوال
ایک شخص سے کہا جاتا ہے کہ آپ کا پلاٹ 50 لاکھ میں بیچ دیں گے، وہ تیار ہو جاتا ہے، اب یہ ڈیلر صاحب دوسرے ڈیلر سے رابطہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس پلاٹ کی قیمت 51 لاکھ ہے سو اس کا گاہگ تلاش کیا جائے، یہ دوسرے صاحب گاہگ تلاش کرتے ہیں اور دیگر صاحبان کو ایک لاکھ بڑھا کر یہ پلاٹ 52 لاکھ میں لکھوا دیتے ہیں۔ اس طرح جتنے ڈیلر ایک جگہ کو بیچنے میں شامل ہوتے ہیں، اسی قدر قیمت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔یوں اصل خریدار کو قیمت جمع دو تین چار لاکھ میں سودا بیچا جاتا ہے۔
پلاٹ کے مالک کے لیے یہ پراپرٹی ڈیلر حضرات محض کمیشن ایجنٹ ہوتے ہیں جو ایک فیصد کمیشن پر کام کرتے ہیں لیکن ان کو بتائے بغیر ہی ان کی جگہ تین چار لاکھ روپے زیادہ میں بکتی ہے۔خریدنے والوں کے لیے بھی اس وجہ سے قیمتیں دو چار لاکھ اوپر ہی رہتی ہیں، جتنا بڑا سودا ہوتا چاہیے اسی حساب سے ڈیلر حضرات اس میں اپنی طرف سے زیادہ اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔اس صورت میں اب قابل استفسار چیز یہ ہے کہ:
1۔ مالک سے 50 لاکھ میں چیز کا سودا طے کر کے اس کو آگے 51،52 لاکھ یا زیادہ میں بیچنا کیسا ہے؟جبکہ مالک کو علم نہیں ہے۔یہ جائز ہےیانہیں؟
2۔ ایسی مارکیٹ میں کمیشن پر کام کی حیثیت کیا ہو گی؟یعنی میرے علم میں ہے کہ جس بھی شخص سے میں خریداری کرواؤں گا وہ میرے کلائنٹ اور فروخت کرنے والے سبھی کے ساتھ اسی طرز عمل کے مطابق چلے گا کہ بتائے بغیر زائد روپے اپنی جیب میں ڈالے گا۔اب اس بازار سےمیں کوئی پلاٹ خرید کر دیتا ہوں اور اپنا طے شدہ کمیشن خریدار سے لے لیتاہوں۔ سوال یہ ہے کہ اگر زائد از کمیشن والی بیع شرعا درست نہیں تو اس میں میرا کمیشن وصول کرنا کیسا ہے؟کیا اس بیع کے انعقاد میں میرا کردار تعاون علی الاثم والعدوان تو نہیں؟
3۔اگر ایک شخص یہ اجازت دیتا ہے کہ میری چیز کے اتنے پیسے مجھے چاہییں ، اس سے اوپر ڈیلر رکھ سکتا ہے تو کیا اب یہ صورت جائز ہو جائے گی؟کیا اجازت ضروری ہے یا ظن غالب کافی ہے کہ فلاں مالک مذکور چونکہ مارکیٹ کو جانتا ہے اس لیے اس معاملے کو بھی جانتا ہو گا لہٰذا ہم جو کرنے جا رہے ہیں اس کو بتانے کی ضرورت نہیں!
4۔ ایک صورت یہ بنتی ہے کہ جو ڈیلر خریدار کے ساتھ رابطے میں ہوتا ہے اس سے کہا جاتا ہے کہ اپنے علاوہ دیگر درمیانی لوگوں کے لیے بھی خرچہ پانی نکال لے، اب وہ اس خرچہ پانی کے لیے اپنی پارٹی کو ایک مخصوص قیمت پر پلاٹ لینے کے لیے قائل کر لیتا ہے ۔یہ ‘مزدوری’ ایک فیصد کا حصہ نہیں ہوتی جو اصولاََ مقرر کردہ کمیشن ہے۔ اب اس صورت کا کیا حکم ہے؟حسبِ سابق خریدار کو اس ‘خرچہ پانی’ کاعلم نہیں ہوتا
5۔ ایک سودے میں جبکہ ایک سے زیادہ ڈیلر حضرات اس میں شریک ہوں شرعی لحاظ سےکمیشن کی تقسیم کیسے بنتی ہے؟ہر ایک شخص الگ الگ ایک ایک فیصد لے گا یا ایک فیصدمیں سے تمام ڈیلروں پر تقسیم کیا جائےگا؟
6۔ اس قسم کے زائد از کمیشن سودوں میں اس حجت کے ساتھ ڈیل کروانے کا کیا حکم ہے کہ ہم دو ڈیلروں کے مابین ڈیل کروا رہے ہیں اور محض ایک فیصد لے رہے ہیں۔۔۔جبکہ دونوں طرف ڈیلر ہوں اور وہ دونوں کمیشن سے زائد رقم مار رہے ہوں اور ہمیں بھی اسی رقم سے ایک حصہ دیں گے۔
7۔ ایک خیال یہ ہے کہ مارکیٹ کا اس وقت عرف یہی ہے اس لیے ایسا کرنا حرج کی بات نہیں ہے، یعنی ڈیلرز کا مالک کو بتائے بغیر زائد از کمیشن مارجن رکھ کر آگے بیچنا اوراسی طرح بیعانہ پر آگے فروخت کرنا یہ دونوں عرف کے تحت داخل ہیں۔اب جو خریدار مارکیٹ میں آئے اس کو صورت حال کا علم حاصل کرنا خود اس کے ذمہ ہےوغیرہ وغیرہ۔صورت حال کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ڈیلر حضرات کے ان طور طریقوں کا عام ملازم پیشہ حضرات اور دیگر عوام کو عموماًعلم نہیں ہوتا کیونکہ ان کی زندگی الگ میدان میں گزری ہوتی ہے اور وہ اعتماد کر کے کمیشن ایجنٹ کو اپنا کام سونپتے ہیں۔
8۔ بعض حضرات اپنی بل بک پر کمیشن دو فیصد لکھواتے ہیں جبکہ لوگوں کو عام مارکیٹ کے عرف میں ایک فیصد ہی کا علم ہے۔ ایسے میں کمیشن سے زائد پیسے رکھنا اور ان کو’دو فیصد’ میں شمار کرنا کیسا ہے؟
جواب
الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
1- مال کے مالک کو یہ کہنا کہ آپ کی چیز مثلا 50 لاکھ میں فروخت ہوئی اور اس چیز کو 51/52 لاکھ میں بیچنا جھوٹ اور دھوکہ ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔ البتہ اگر مالک کو یہ بات واضح کر دی جائے کہ آپ کو 50 کے حساب سے قیمت مل جائے گی اور اس سے ایک فیصد ہمارا کمیشن ہوگا، اگر اس سے زائد قیمت پہ ہم بیچ لیں تو وہ زائد رقم بھی ہماری ہوگی، تو یہ جائز و درست ہے۔
2- ایسی صورت میں یاتو رَبّ المال کو اعتماد میں لیں کہ سودا کروانے والے جتنے بھی افراد ہونگے انہوں نے اپنی مزدوری لینی ہے، لیکن وہ آپ سے نہیں، سودے کی قیمت بڑھا کر حاصل کر لیں گے، اور آپ کو آپ کی مطلوبہ رقم مل جائے گی۔ یا پھر کسی دوسرے ڈیلر کو شامل کیے بغیر اسے خود ہی فروخت کرنے کی کوشش کریں اور اپنا کمیشن حاصل کرلیں۔ بصورت دیگر مالک کے ساتھ دھوکہ اور غلط بیانی ہے جسکی شريعت میں گنجائش نہیں۔
3- یہ صورت جائز ہے، اور اس میں صرف ظن غالب پہ اعتماد کی بجائے رب المال کو وضاحت کرنا ضروری ہے، کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ آپ یہ سمجھتے ہوں کہ مارکیٹ کے اس اصول کا رب المال کو علم ہے جبکہ اسے علم نہ ہو، یا علم ہو لیکن وہ آپ سے یہ امید لگائے بیٹھا ہو کہ یہ میرے ساتھ ایسا نہیں کرنے والے۔
4- یہ بھی غلط بیانی اور دھوکہ ہی ہے! کیونکہ خریدار کو یہ باور کرایا جا رہا ہوتا ہےکہ مالک نے یہ چیز اس قیمت میں بیچی ہے جبکہ مالک اس سے کم قیمت پہ بیچ رہا ہوتا ہے، درمیان میں اضافی رقم ڈیلروں کی طرف سے بڑھائی گئی ہوتی ہے۔
5- جب ایک فیصد کمیشن طے ہے تو سبھی محنت کرنے والے اسی ایک فیصد میں اپنی محنت کے حساب سے حصہ دار ہوں گے۔
6- یہ بھی غرر(دھوکہ) ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
7- بیع میں ڈیلر پہ بائع اور مشتری دونوں کے سامنے ساری بات واضح کردینا ضروری ہے ۔ وگرنہ یہ دھوکہ شمار ہوگا۔
8- یہ بھی واضح غرر ہے۔
مفتیانِ کرام
تحریر كننده: ابو عبد الرحمن محمد رفيق طاهر
’’ جواب درست ہے۔‘‘
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ (رئیس اللجنۃ)
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ