ہم کیا کر سکتے ہیں؟
ہم کم از کم اتنا تو کر سکتے ہین کہ یہ دکھ اور یہ تکلیف اور یہ کرب اپنی اگلی نسل کو منتقل کر کے جائیں۔
ہو سکتا ہے نئی نسل ہماری طرح بے بس اور بے حس نہ ہو۔

وقت ایک سا نہیں رہتا جب وقت بدلے تو اس وقت کی نسل کے پاس حساب کا میزانیہ پورا اور مکمل ہونا چاہیے۔
ہم کیا کر سکتے ہیں؟
ہم کم از کم اتنا تو کر سکتے ہین کہ یہ دکھ اور یہ تکلیف اور یہ کرب اپنی اگلی نسل کو منتقل کر کے جائیں۔
ہو سکتا ہے نئی نسل ہماری طرح بے بس اور بے حس نہ ہو۔

وقت ایک سا نہیں رہتا جب وقت بدلے تو اس وقت کی نسل کے پاس حساب کا میزانیہ پورا اور مکمل ہونا چاہیے۔

یہ نئی نسل خوب صورت مغربی اصطلاحات کی زد میں آ چکی ہے۔ اسے بتائیے دنیا اج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے وقت کھڑی تھی۔
حقوق انسانی کا مطلب آج بھی مغربی دنیا اور اس کے حلیفوں کے حقوق ہیں۔ انٹرنینشل لا اپنی اصل میں آج بھی انٹرنیشنل کرسچئین لا ہے۔ مسلمان اس بین الاقوامی نظام سے آج بھی عملا باہر ہین۔

اس عالمی نظام کو سمجھیں اور یہ سمجھ اپنے بچوں کو منتقل کر کے جائیں۔ مسئلہ درست طور پر سمجھ لینا اور اس سمجھ کو آگے منتقل کر دینا اس سوال کا کم از کم درجے کا جواب ہے کہ ہم کیا کریں۔

خود نہیں بن سکے تو نئی نسل کو اس قابل بنائیں کہ وہ ہر معاملے کو سدھائے ہوئے جانور کی طرح مغرب کی آنکھ سے نہ دیکھے اپنی آنکھ سے دیکھے۔یہ نئی نسل خوب صورت مغربی اصطلاحات کی زد میں آ چکی ہے۔ اسے بتائیے دنیا اج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے وقت کھڑی تھی۔
حقوق انسانی کا مطلب آج بھی مغربی دنیا اور اس کے حلیفوں کے حقوق ہیں۔ انٹرنینشل لا اپنی اصل میں آج بھی انٹرنیشنل کرسچئین لا ہے۔ مسلمان اس بین الاقوامی نظام سے آج بھی عملا باہر ہین۔
ہم کیا کر سکتے ہیں؟
ہم کم از کم اتنا تو کر سکتے ہین کہ یہ دکھ اور یہ تکلیف اور یہ کرب اپنی اگلی نسل کو منتقل کر کے جائیں۔
ہو سکتا ہے نئی نسل ہماری طرح بے بس اور بے حس نہ ہو۔

وقت ایک سا نہیں رہتا جب وقت بدلے تو اس وقت کی نسل کے پاس حساب کا میزانیہ پورا اور مکمل ہونا چاہیے۔

یہ نئی نسل خوب صورت مغربی اصطلاحات کی زد میں آ چکی ہے۔ اسے بتائیے دنیا اج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے وقت کھڑی تھی۔
حقوق انسانی کا مطلب آج بھی مغربی دنیا اور اس کے حلیفوں کے حقوق ہیں۔ انٹرنینشل لا اپنی اصل میں آج بھی انٹرنیشنل کرسچئین لا ہے۔ مسلمان اس بین الاقوامی نظام سے آج بھی عملا باہر ہین۔

اس عالمی نظام کو سمجھیں اور یہ سمجھ اپنے بچوں کو منتقل کر کے جائیں۔ مسئلہ درست طور پر سمجھ لینا اور اس سمجھ کو آگے منتقل کر دینا اس سوال کا کم از کم درجے کا جواب ہے کہ ہم کیا کریں۔

خود نہیں بن سکے تو نئی نسل کو اس قابل بنائیں کہ وہ ہر معاملے کو سدھائے ہوئے جانور کی طرح مغرب کی آنکھ سے نہ دیکھے اپنی آنکھ سے دیکھے۔
اس عالمی نظام کو سمجھیں اور یہ سمجھ اپنے بچوں کو منتقل کر کے جائیں۔ مسئلہ درست طور پر سمجھ لینا اور اس سمجھ کو آگے منتقل کر دینا اس سوال کا کم از کم درجے کا جواب ہے کہ ہم کیا کریں۔

خود نہیں بن سکے تو نئی نسل کو اس قابل بنائیں کہ وہ ہر معاملے کو سدھائے ہوئے جانور کی طرح مغرب کی آنکھ سے نہ دیکھے اپنی آنکھ سے دیکھے۔