سوال (3067)
جو شاپنگ سینٹر پر مشتمل ہے، اسے دس لوگوں تک انوائیٹ کرنے پر ایک پروڈکٹ فری ملنے کا لالچ ہے، کیا یہ شرعا درست ہے؟
جواب
یہ فراڈ کی ایک قسم ہی ہے، کچھ جاننے والوں نے آنلائن شاپنگ کی ہے، دھوکہ ہی ہوا ہےجس چیز اور معیار کے پیسے لیے وہ بھیجی نہیں ہے، دس لوگوں تک بھیجنے کی لالچ اپنی مشہوری کے لیے دیتے ہیں، کوئی تو کہیں مرغا پھنسے ہی گا، ویسے بھی پاکستان میں آنلائن خرید و فروخت کامیاب نہیں ہے۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
اگر آپ خود ان کی سروس سے مطمئن ہیں تو دوسروں تک انکی تشہیر کرنے پر اگر وہ معاوضہ کی صورت میں کچھ دیتے ہیں تو یہ اجارہ کی صورت ہے اور جائز ہے۔
واللہ اعلم۔
فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ
أحسنتم وبارك فيكم
یہ سوال ایک معلمہ کی دلچسپی کے سبب سامنے رکھا تھا کہ اہل علم وفضل کیا موقف رکھتے ہیں ، مجھے ذاتی طور پر یہ طریقہ و شرط عجیب سی لگی خاص طور پر ایک صاحب علم کیونکر دس لوگوں تک بھیجے اس لالچ میں کہ مجھے کوئی ایک چیز فری میں ملے گی۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
سائل کا جواب دینے سے پہلے temu کے بارے مختصر تعارف پیش خدمت ہے: ٹیمو ایک آن لائن مارکیٹ پلیٹ فارم ہے جسے چینی ای کامرس کمپنی PDD ہولڈنگز چلاتی ہے، جس کی ملکیت کولن ہوانگ ہے۔ یہ بہت زیادہ رعایتی اشیا پیش کرتا ہے جو زیادہ تر صارفین کو براہ راست چین سے بھیجے جاتے ہیں۔ اس کی اشیاء فی نفسها اپنا وجود رکھتی ہیں۔
اب رہا سائل کا سوال کہ اسے دس لوگوں تک انوائیٹ کرنے پر ایک پروڈکٹ فری ملنے کا لالچ ہے تو اس سلسے میں ناقص رائے کے مطابق عرض ہے کہ یہ فقه الجوائز کی ایک عملی صورت ہے اور یہ انعام “زیادة في المبیع” نہیں ہے؛ بلکہ ایک ہبہ مبتدئہ کا ایک طرف وعدہ ہے، بائع اور مشتری میں سے کوئی بھی اسے “زیادة فی المبیع” نہیں سمجھتا، نہ ہی عرف عام میں اسے “زیادة فی المبیع” سمجھا جاتا ہے۔
مزید یہ بات قابل ذکر ہے کہ تجارت کو بڑھانے کے لیے کسی کمپنی کی تشہیر کرنے پر یا پھر اس کی اشیاء کی زیادہ خریداری پر انعام مقرر کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں درج ذیل شرائط پائی جائیں:
1- کمپنی کی تمام مصنوعات حلال ہوں حرام نہیں۔
2- کمپنی کی اس تشہیر میں کسی قسم کی قمار بازی نا ہو۔
3- اشیاء کا جو نرخ رائج العصر ہے وہی ہو، من مانی قیمتوں میں اضافے نا کیے گئے ہوں۔
4- اشیاء کا اصل معیار برقرار رہے۔
اب اگر تو یہ کمپنی ان شرائط کو پورا کر رہی ہے تو اس کا یہ انعام مقرر کرنا جائز ہے وگرنہ نہیں۔
والله تعالى أعلم والرد إليه أسلم.
فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ