12 ربیع الاول کا دن اور ہمارے رویے

انسان فطرتاً تفریح پسند ہے یہ روز مرہ کے کام کاج کے بعد دل بہلانے کے لیے مختلف تفریحی پروگرام ترتیب دیتا ہے۔ عیسائی سیدنا عیسی علیہ السلام کی ولادت کا ایک دن مقرر کر کے اس دن ان کی برتھ ڈے مناتے ہیں اور مختلف قسم کی رنگ رلیاں منا کر اپنے نفس کے تفریح کا انتظام کرتے ہیں۔
بعض مسلمانوں نے یہ سوچ کر کہ اگر عیسائی اپنے نبی کا جنم دن مناتے ہیں تو ہمیں بھی اپنے رسولﷺ کا جنم دن منانا چاہیے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں جدت پیدا ہوتی گئی ہر سال کوئی نئی تبدیلی دیکھنے میں آئی مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے دین کی تکمیل ہو چکی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت یہ فرما دیا تھا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اب کوئی بھی اس قسم کی سرگرمی کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ قرآن اور سنت میں اس کی کیا حیثیت ہے قرآن و سنت پر عمل کرنے والے خیر القرون کی پاک باز ہستیوں صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، ائمہ کرام، محدثین اور سلف صالحین نے اس کے متعلق کیا رہنمائی کی ہے 12 ربیع الاول نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دنیا سے رخصتی کا دن ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے جبکہ یوم ولادت کے متعلق سوموار کے دن پر سب متفق ہیں مگر تاریخ مختلف ہی ہے بعض نے 9 ربیع الاول بعض نے 12 ربیع الاول اور مولانا احمد رضا خان بریلوی نے فتاوی رضویہ میں 8 ربیع الاول لکھی ہے.
♦️ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کی ولادت 10 محرم کو ہوئی۔ (غنیتہ الطالبین)
♦️ قاضی سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ تعالی اپنی تصنیف”رحمۃ للعالمین” میں مشہور ماہر فلکیات محمود فلکی پاشا کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ ہمارے نبی صل اللہ علیہ وسلم موسم بہار میں دوشنبہ ( پیر ) کے دن 9 ربیع الاول 1 عام الفیل مطابق 22 اپریل 571 ء مطابق یکم جیٹھ 628 بکرمی مکہ معظمہ میں
بعد از صبح صادق وقبل از طلوع نیر عالم تاب پیدا ہوئے
حضور صل اللہ علیہ وسلم اپنے والدین کے اکلوتے بچے تھے”
خیر اگر تھوڑی دیر کیلئےولادت مبارک 12 ربیع الاول ہی مان لی جائے پھر بھی جو حرکات ہم کررہے ہیں ان کا کوئی تُک نہیں بنتا۔
اس دن چاہیے تو یہ تھا کہ ہم تجدید عہد کرتے کہ آج کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے اور لوگوں کو آباء واجداد کی تقلید اور رسوم و رواج کے چنگل سے نکال کر اللہ تعالی کے در پہ اکٹھا کیا جس کو قران میں اس طرح بیان کیا گیا

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘-یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْؕ-فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(الاعراف 157)

ترجمہ: “وہ جواس رسول کی اتباع کریں جو کسی سے پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، جسے یہ (اہلِ کتاب ) اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور انہیں برائی سے منع کرتے ہیں اور ان کیلئے پاکیزہ چیزیں حلال فرماتے ہیں اور گندی چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں اور ان کے اوپر سے وہ بوجھ اور قیدیں اتارتے ہیں جو ان پر تھیں تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں”
رسوم و رواج کے جو بوجھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اتارنے کے لیے تشریف لائے تھے ہم وہی بوجھ دوبارہ امت پر لادنے کی کوشش کر رہے ہیں آباء و اجداد کی تقلید کے جو پٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی گردنوں سے اتار پھینکے تھے ہم نے وہی پٹے دوبارہ لوگوں کی گردنوں میں ڈال دیے۔
ہمیں چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اس دن اتباع سنت کا عہد کرتے ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کی کوئی کتاب خریدتے اس کا مطالعہ کرتے پھر اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کا عہد کرتے۔
♦️ اگر یہ دن یوم وفات تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی ہمارے لیے غور کا مقام ہے کہ اگر کائنات کی سب سے محبوب ترین ہستی کو حیات مستعار کے ایام گزار کر رفیق اعلی سے ملاقات کے لیے واپس جانا پڑا تو ہم کس غفلت میں پڑے ہوئے ہیں
؎ دریں دنیا کسے گر پائندہ بودے
ابوالقاسم محمد ﷺزندہ بودے
“اگر دنیا میں کسی نے ہمیشہ زندہ رہنا ہوتا تو سرورِ کائنات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا حق تھا کہ ہمیشہ زندہ رہتے۔”
ہم اپنی موت کا تصور ذہن میں رکھ کر نبی کریم ﷺ کی کامل اتباع میں اپنی آخرت کی فکر کرتے مگر ہم لہو ولعب میں الجھ کر رہ گئے۔ رسول اکرم ﷺ کی ولادت مبارکہ کی خوشی کے نام سے اختلاط مرد و زن کے مناظر بدعات وخرافات کے ایسے ایسے نمونے دیکھنے میں آئے کہ شیطان بھی شرمائے.
💧 کہیں “جنت کی حور” کی زیارت کروائی جا رہی ہے
💧 کہیں”ابلیس” کے گلے میں زنجیر ڈال کر اسے نچایا گیا
💧 عید میلادالنبی کی اذان اور نماز کا اہتمام کیا جارہا ہے۔
💧 گھوڑے نچائے جا رہے ہیں کالے پرچم کی جگہ سبز پرچم آگئے
💧 گھوڑے پر کالی چادر کی جگہ سبز چادر نے لے لی
💧 وہی جلوس وہی انداز ہم کس سمت جارہے ہیں.
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود!
یہ وہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود؟
صبح کا بولا ہوا شام کو واپس آ جائے تو اسے بھولا ہوا نہیں کہتے ابھی وقت ہے آخرت کا عذاب بہت سخت ہے واپس پلٹ آئیے واپس پلٹ آئیے دین اسلام کی آغوش میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کیجئے یہ دنیا کی چند روزہ ریل پیل اور چکاچوند میں الجھ کر اپنی آخرت خراب نہ کریں
چار دن کی چاندنی پھر قبر کی اندھیری رات ہے۔

✍️ عبدالرحمٰن سعیدی

یہ بھی پڑھیں: قواعد املاء اور رسم قرآنی کا مسئلہ اور ہماری بے احتیاط گفتگو