سوال (5790)
بڑے بڑے ثقہ آئمہ کرام تدلیس کیوں کرتے تھے؟ مثلاً سفیان ثوری،سفیان بن عینیہ رحمہم اللہ تعالیٰ عنہما وغیرہ۔ اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب
یہ ایک فطری مسئلہ ہے، انسان گفتگو کرتے ہوئے ہر ہر بات کو باحوالہ ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھتا، یا بعض دفعہ کسی خاص حوالے یا کسی شخصیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
ائمہ کرام اور محدثین کے ہاں تدلیس کی مختلف وجوہات تھیں، مثلا:
1۔ اختصار کے پیش نظر کسی غیر اہم راوی کا حوالہ ذکر نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ براہ راست اس شیخ کا نام ذکر کر دیا جاتا جو اس روایت سے مشہور ہے۔
2۔ بعض دفعه کچھ مشایخ اور رواۃ معتوب ہوتے ہیں تو ان کا نام ذکر نہیں کیا جاتا۔
3۔ طلابِ علم کی استعداد چیک کرنے کی غرض سے بھی بعض دفعہ تدلیس کی جاتی تھی کہ انہیں پتہ چلتا ہے کہ نہیں۔
4۔ بعض دفعہ کسی محدث نے کوئی روایت کسی ضعیف راوی سے سنی ہوتی ہے، لیکن اس اپنی معلومات کی بنا پر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ روایت دیگر طرق وغیرہ کی بنا پر حسن درجے کی ہے، اس لیے وہ ضعیف راوی کو گرا دیتے ہیں، تاکہ اس کی بنیاد پر کم علم لوگ اسے ضعیف سمجھنا نہ شروع ہو جائیں۔
اسی قسم کی اشیاء بیان کی جاسکتی ہیں محدثین کے ہاں تدلیس کی معقول وجوہات کے طور پر بعض اور بھی ہیں جو انسان کی عدالت و ثقاہت پر اثر انداز ہو سکتی ہیں.واللہ اعلم.
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
ممن تناول تدليس الثوري بالدراسة ( سفيان الثوري محدثا) لحسنين محمد حسين فلمبان، رسالة ماجستير
و(المعنعن من حديث الأئمة الموصوفين بالتدليس الثوري مثالا) وائل بن حمود بن هزاع ردمان، مجلة الدراسات الاجتماعية جامعة العلوم و التكنلوجيا باليمن العدد 37, 2013م
و (منة المنان في تحقيق تدليس الثوري سفيان) لأبي الزهراء الغزي، منشور على موقع الألوكة. جلال راغون
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
تدلیس کو جھوٹ سے تعبیر کرنا یہ دراصل جماعت المسلمین کا شیوہ ہے، ان کے اعلی حضرات مسعود احمد بی ایس سی نے شاید اس پر کتاب لکھی ہے، تو لہذا یہ اثر اچھا نہیں ہے، جس طرح جنات کے اثرات اچھے نہیں ہوتے ہیں، ایسے شخص کو اصلاح کرنی چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ