قابلِ رشک خاندان

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد!

اللہ تعالیٰ کی ہم پر ان گنت نعمتیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً﴾ ( لقمان: 20 )

اور اس نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر پوری کی ہیں۔

کچھ نعمتیں بہت عظیم ہوتی ہیں، قابلِ ذکر ہوتی ہیں، اس کی قدر دانی کا مطالبہ بھی اسی حساب سے کیا جاتا ہے۔ اس کی نا قدری پر مؤاخذہ بھی اتنا ہی شدید ہوتا ہے۔

نعمتِ علم

اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت کسی بھی خاندان میں ” عالمِ دین ” کا وجود ہے۔ یہ بات ہمارے علم میں ہونی چاہیے کہ شرعی علم محض اللہ تعالیٰ کے ارادے پر موقوف ہے، وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔

معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما (ت 60ھ) نے دورانِ خطبہ کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

1: «مَنْ يُرِدِ اللّٰهُ بِهِ خَيْراً يُفَقِّهْهُ فِيْ الدِّيْنِ»

جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیر کا ارادہ فرماتا ہے۔ اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔
( صحيح البخاري : كتاب العلم، باب من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين. رقم: 71 ).

یعنی شرعی علم اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام ہے، جو اللہ تعالیٰ کے ارادۂ خاص پر منحصر ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (ت 852ھ) فرماتے ہیں:

 وأنَّ ذلك لا يكونُ بالاكتسابِ فقط، بل لِمن يفتحِ اللهُ عليه به.

شرعی علم محض محنت اور ذہانت سے حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ یہ اسی کو نصیب ہوتا ہے اور اسی کے حق میں بابرکت ہوتا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ گرہیں کھول دیتا ہے۔
( فتح الباري بشرح صحيح البخاري: ١/٢٩٠، دار طيبة )۔

خاندانِ علماء

کسی گھر میں، یا خاندان اور قبیلے میں ایک عالمِ دین کا وجود بھی نعمتِ عظمیٰ ہے، جس پر سبھی افرادِ خاندان کو رب العالمین کا شکر بجالانا چاہیے، اگر کسی گھرانے میں دو چار اصحابِ علم ہوں، یا اس سے بھی زیادہ ہوں، مزید نسل در نسل یہ علمی سلسلہ جاری ہو تو اس نعمت کی عظمت کا اندازہ لگائیے اور اسی کے بقدر شکر ادا کیجیے۔

راویانِ حدیث میں بکثرت ایسے گھرانے ہیں جہاں باپ، بیٹا اور پوتا تینوں خادمینِ کتاب وسنت رہے ہیں، یقینًا ان کے مابین علم وفضل اور ثقاہت میں تفاضل ہے، باپ ثقہ تو بیٹا ضعیف، کبھی اس کا عکس، البتہ اغلب راویان کی ثقاہت مسلَّم ہے۔

رُواۃ کی ایسی معتد بہ تعداد کتبِ ستہ میں تقریبًا ایک سو (100) کے قریب موجود ہے۔ خاندانِ علماء کا یہ سلسلہ ہر طبقہ میں ہے، یعنی طبقاتِ صحابہ، تابعین، تبع تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین۔

تیسری صدی ہجری سے آج تک اس پر کام ہوتا چلا آ رہا ہے، امام ابو بکر احمد بن ابی خیثمہ رحمہ اللہ (ت 279ھ) نے اس جانب اپنی مختصر تصنیف سے امت کو متوجہ کروایا۔

پھر علامہ ابو محمد عبد المؤمن دمیاطی (ت 705ھ) اور آپ کے تلمیذ حافظ ابو الحجاج مزی(ت 742ھ)، حافظ صلاح الدین ابو سعید علائی(ت 761ھ)، حافظ ابو الفضل ابن حجر عسقلانی(ت 852ھ) وغیرہ رحمہ اللہ نے بھی اس موضوع پر مختصر/ مفصل تصنیفی کام کیا ہے۔

ہمارے پاس حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے تلمیذ شیخ ۤابو العدل قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ (ت 879ھ) کی تصنیف ( كتاب من روى عن أبيه عن جده ) موجود ہے، جو دکتور باسم فیصل الجوابرہ حفظہ اللہ کی تحقیق سے مطبوع ہے، بلکہ یہ تحقیق آپ کے دکتورا کا رسالہ ہے۔
مقدمۃ التحقیق میں اس طرز کی تالیفات کے محرکات اور اسباب سے واقف ہو سکتے ہیں۔

بہر حال! چار سو سے زائد ایسی اسانید ہیں، یعنی کم وبیش پانچ سو کے قریب ایسے علمی گھرانے ہیں۔ تصور کیجیے یہ گھرانے کس درجہ خیر کا ذریعہ ہیں، اور یہ بھی تصور کریں کہ ان پر رب کی خصوصی رحمت کس درجہ رہی ہے۔

حافظ ابن مندہ رحمہ اللہ کا علمی خانوادہ

جن خاندانوں اور قبائل کو اللہ تعالیٰ نے علمِ دین کی سر براہی کے لیے انتخاب کیا ہے۔ ان میں ( بنو مندہ ) قابلِ ذکر علمی خاندان ہے۔

( بنو مندہ ) تقریبًا چار سو سال تسلسل کے ساتھ علمی خدمت انجام دے چکے ہیں۔ اس خانوادے کی ایک عظیم المرتبت شخصیت امام ابو عبد اللہ محمد بن اسحاق ابن مندہ رحمہ اللہ (ت 395ھ) ہیں۔

اس خانوادے میں مطلقًا ” ابن مندہ ” سے یہی مراد ہوتے ہیں۔ امام ابن مندہ رحمہ اللہ کی سیرت پر الحمد للہ جامعہ محمدیہ منصورہ بنگلور میں نصف روزہ نشست منعقد کی گئی تھی، جس میں آپ کی سیرت پر تفصیلی گفتگو کر چکا ہوں۔ یہ درس 18 جمادی الآخر 1440ھ موافق 24 فروری 2019م بروزِ اتوار دیا گیا ہے۔ یہ درس دو حصوں میں ہمارے یوٹیوب چینل پر موجود ہے۔

جب بھی امام ابن مندہ رحمہ اللہ کا تذکرہ ہوتا ہے تو آپ کے خاندان کا ذکر بھی ضمنًا آجاتا ہے۔

حافظ ابو علی نیشاپوری رحمہ اللہ (ت 347ھ) امام ابن مندہ رحمہ اللہ کی متنوع فطری صلاحیتوں کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں، کہا:

بنو مندة أعلام الحفاظ في الدنيا قديمًا وحديثًا، ألا ترون إلى قريحة أبي عبد اللٌٰه!.( سير أعلام النبلاء : ١٧/٣٢ ).

امام ابن مندہ رحمہ اللہ کے معاصر امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ (ت 430ھ)کہتے ہیں:

هو حافظ من أولاد المحدثين.
( تاريخ أصبهان: ٢/٢٧٨، رقم: ١٧١١، الشاملة ).

امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ امام ابن مندہ رحمہ اللہ کے والد ابو یعقوب اسحاق بن محمد ابن مندہ رحمہ اللہ (ت 341ھ) کے ترجمَہ میں کہتے ہیں:

أبو يعقوب كان من أهل بيت الحديث والرواية.

( تاريخ أصبهان: ١/٢٦٦، رقم: ٤٤١، الشاملة ).

امام ابن مندہ رحمہ اللہ کے دادا امجد امام محمد بن یحییٰ بن مندہ رحمہ اللہ (ت 301ھ) صاحبِ تاریخ اصبہان کے ترجمَہ میں ابو العباس احمد بن محمد ابن خلِکان برمکی رحمہ اللہ (ت 681ھ) کہتے ہیں:

كان أحد الحفاظ الثقات، وهم أهل بيت كبير خرج منه جماعة من العلماء. 

( وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان*: ٤/١١١، رقم الترجمة: ٦٢٠ ).

امام ابن مندہ رحمہ اللہ کے پوتے ابو زکریا یحییٰ بن عبد الوھاب بن محمد ابن مندہ رحمہ اللہ (ت 511ھ) کی بابت حافظ عبد الغافر نیشاپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں:

رجل فاضل من بيت العلم والحديث المشهور في الدنيا.
( وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان: ٥/١٣٩، رقم الترجمة: ٧٩٥ ).

ابن خلکان برمکی رحمہ اللہ نے آپ کے ترجمَہ میں بجا فرمایا، کہا:

وهو محدِّث ابن محدِّث ابن محدِّث ابن محدِّث ابن محدِّث.
( وفيات الأعيان: ٥/١٣٨ ).

امام ابو عبد اللہ ذہبی رحمہ اللہ (ت 748ھ) نے امام ابن مندہ رحمہ اللہ اور آپ کے خانوادے سے جڑے سبھی اصحابِ علم پر مستقل کتاب تصنیف کی ہے، اور اس خاندان کی طویل مدت دینی خدمت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہتے ہیں:

وما علمتُ بيتًا في الرواة مثلَ بيت بني مندةَ؛ بقية الرواية فيهم من خلافة المعتصم وإلى بعد الثلاثين وست مائة.
( سير أعلام النبلاء: ١٧/٣٨ ).

علمی گھرانے کی قدردانی

میں جو بات بتانے جارہا ہوں وہ یہ کہ شرعی علم کی اہمیت ہم پر واضح ہو اور نتیجے میں اگر ہمارے خاندان میں کوئی ” عالمِ دین ” ہو تو اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کے پیشِ نظر پورا خاندان مل کر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا چاہیے۔

عالمِ اسلام کے عظیم عالمِ دین شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ (ت 2001م) نے سورۂ سبا (آیت نمبر: 13)، کی تفسیر میں نہایت اہم بات ذکر فرمائی ہے۔

سورۂ سبا (آیت: 10- تا – 14) میں اللہ تعالیٰ نے داود اور ان کے فرزند سلیمان علیہما السلام کو دی گئی نعمتوں کا ذکر اور طریقۂ استعمال بیان فرمایا۔
نعمتیں جدا جدا ہیں، کچھ داود علیہ السلام کو دی گئی ہیں، کچھ سلیمان علیہ السلام کو مگر ان نعمتوں پر شکر ادا کرنے کا مطالبہ اللہ تعالیٰ نے صرف داود اور سلیمان عليہما السلام سے نہیں کیا بلکہ ان دو افراد کو دی گئی نعمتوں پر شکر کا مطالبہ پورے خاندان سے کیا ہے۔

غور کریں

اللہ تعالیٰ نے سورۂ سبا کی (آیت: 11)، میں داود علیہ السلام سے صیغۂ واحد میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

﴿أَنِ ٱعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِيْ السَّرْدِ﴾

” اور ہدایت کی کہ زرہیں بناؤ اور ان کے حلقے ٹھیک ٹھیک انداز سے جوڑو ”۔

اس خطاب کے بعد اسی آیت کریمہ کے آخر میں جب اللہ تعالیٰ نے عملِ صالح کی دعوت دی تو صیغۂ جم٘ع ذکر فرمایا، کہا:

﴿وَاعْمَلُوْا صَالِحاً﴾

” اور تم سب نیک عمل کرو ”۔

ٹھیک اسی طرح جب شکر ادا کرنے کا حکم ہوا تو صرف داود اور سلیمان علیہما السلام کے لیے ہی نہیں ہوا بلکہ پورے خاندان اور کنبے کو حکم دیا گیا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ٱعْمَلُوٓاْ ءَالَ دَاوُۥدَ شُكْرًا ۚ﴾

” اے آل داود نیک عمل اور شکر ادا کرو ” (سبأ: 13)

شیخ ابنِ عثیمین رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے آپ کہتے ہیں:

أنَّ اللّٰهَ إذا أنْعَم على شخصٍ من القبيلة بنِعْمةٍ، فإنّه إنعامٌ على القبيلة كلِّها، كيف ذلك؟ لقوله: ﴿وَاعْمَلُوْا صَالِحاً﴾ فوجّه الخطاب إلى آل داود كلِّهم مع أنَّ الفضل خاصٌّ بداودَ.

( التفسير الثمين للعلامة العثيمين : ٤/٥٥٠ ).

فائدہ

داود اور سلیمان علیہما السلام کو دی گئی نعمتوں کی ایک طویل فہرست قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر مذکور ہے، اس فہرست میں ” شرعی علم ” کو فوقیت حاصل ہے، پہلے نمبر پر اسی شرعی علم کا ذکر ہے، پھر دیگر نعمتوں کا بیان ہے۔
الحمد للہ اس بات کی وضاحت میں ہمارے دو درس یوٹیوب پر موجود ہیں، اور دو تحریریں بھی ہیں۔

آخری بات

آپ کے گھر میں یا آپ کے خاندان میں ایک بھی عالم/ عالمہ ہو تو اس نعمت کی قدر کریں، اور اس نعمت پر سب مل کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔
اگر کسی گھر یا خاندان میں ایک سے زائد یا بکثرت علماء ہوں تو وہ خاندان یقینًا قابلِ رشک ہے۔

محمد معاذ أبو قُحافة
١٨ جُمادي الأولى ١٤٤٠ھ الجمعة

یہ بھی پڑھیں: قرآن مجید کی سورتوں کے نام و معانی