خودکشی جرم بھی ہے، صبر کی توہین بھی ہے
مال کی طمع، طلب اور ہوس میں ہم بہت دُور نکل جاتے ہیں، اپنوں سے بہت دُور، اپنے پیاروں اور چاہنے والوں سے بھی بہت پرے، سنگلاخ اور پیچیدہ راستوں کی طرف، نامعلوم منزلوں کی سمت، گرم اور تپتے کسی دشتِ نامراد میں، جہاں ہمارے رویّوں اور لہجوں کی وجہ سے لوگ ہمیں چھوڑ جاتے ہیں۔کسی صحرائے بے اماں میں جہاں ہماری سسکیوں کو بھی کوئی نہیں سنتا، ہماری آہیں تک کسی کی سماعتوں میں ارتعاش پیدا نہیں کرتیں، پھر ہم تنہائیوں کا عذاب جھیلنے لگتے ہیں۔مال و منال کے حصار اور سامان عیش و نشاط کے جمگھٹے میں بھی کوئی شخص ہمارا بننے پر آمادہ نہیں ہوتا اور ہم تنہا ہی رہ جاتے ہیں تو یہ ہماری بد ترین نامرادی اور خراب ترین ناکامی ہوتی ہے۔اربوں روپے ہونے کے باوجود یہ دولت اتنی بے بس اور مجبور ہوتی ہے کہ ہمارے دلوں کے خلفشار اور ذہنوں کے انتشار کو بھی ڈھانپ نہیں سکتی، یہ ہماری روحوں میں لگے آزار تک نہیں چُھپا سکتی۔ایسی تنہائی کی تلخی میں انسان اپنی ہی ذات کے متعلق منفی باتیں سوچنے لگتا ہے۔افتخار عارف نے کہا ہے:
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
عالم گیر ترین اربوں روپے کا مالک تھا، اُس کے لندن میں قیمتی گھر تھے، کئی فیکٹریاں اس کی ملکیت میں تھیں، وہ ” ملتان سلطان “ کا مالک اور مینیجنگ ڈائریکٹر تھا، ہر طرح کے سامانِ تعیّشات کی فراوانی کے باوجود اگر اس کی زیست میں کچھ نہیں تھا تو سکون نہیں تھا۔پیسہ بہت کچھ ہوتا ہو گا مگر سب کچھ تو نہیں ہوتا، یہ بھی ثابت ہو چکا کہ پیسے سے بہت کچھ خریدا جا سکتا ہے مگر سکون اور اطمینانِ قلب کبھی نہیں حاصل کیا جا سکتا۔منفی خیالات ذہن میں پلنے لگیں تو انسان کو اپنے در و دیوار سے بھی خوف آنے لگتا ہے، وہ اپنے ہی سائے سے بھی سہم اٹھتا ہے۔امیر قزلباش نے بہت عمدہ شعر کہا ہے:
مرے گھر میں تو کوئی بھی نہیں ہے
خدا جانے مَیں کس سے ڈر رہا ہوں
یقیناً آپ نے بھی ایسے مناظر ضرور دیکھے ہوں گے کہ لوگ فٹ پاتھ پر گھوڑے بیچ کر سو رہے ہوتے ہیں، بہت سے لوگ کسی گلی کی نکڑ میں، کسی محلے کے چوک میں خراٹے لے کر دنیا و مافیہا سے بے خبر لمبی تان کر نیند کی آغوش میں بے سُدھ پڑے ہوتے ہیں۔آپ نے کسی دلق پوش کو اپنی کُٹیا میں گہری نیند سوتے بھی دیکھا ہو گا، اب ذرا سوچیے گا ضرور! کہ کسی جگہ یہ نیند اعلا، منہگے اور نرم گداز بستر پر بھی آنکھوں میں اترنے پر آمادہ نہیں ہوتی اور کہیں کسی لکڑی کے تختے اور ریہڑی کی پھٹّے پر اس طرح اترتی ہے کہ اربوں کے مالکوں کو حیرت ہونے لگتی ہے۔
63 سال کے ایک بالغ ذہن اور صاحبِ ثروت کی خود کشی معاشرے کے دیگر افراد کے اذہان پر اَن گنت سوالیہ نشانات ثبت کر جاتی ہے، اس لیے کہ یہاں مسئلہ بے روزگاری کا بھی نہیں، یہاں غربت کے گھناؤنے آزار کے آثار بھی دُور دُور تک نظروں سے اوجھل ہیں، یہاں گھریلو تنازعات یا ازدواجی معاملات میں بگاڑ کے امکانات بھی سرے سے معدوم ہیں۔ہر نوع کے سامانِ تعیّشات کے باوجود خود اپنے سَر پر پستول رکھ کر گولی اپنے دماغ میں اتار لینے کا واضح اور واشگاف مطلب یہ ہے کہ سکونِ قلب اور راحتِ جاں کے حصول کا راستہ تو کوئی اور ہے، وہی صراطِ مستقیم جس سے ہم کوسوں دُور کسی اور سمت نکل گئے ہیں۔آسودگی اور تسکین کے لیے تو اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآنِ مجید ہی سے رجوع کرنا ناگزیر ہوتا ہے، یہی بات ربّ العزّت نے سورۃ الرعد کی آیت نمبر 28 میں بھی بیان فرمائی کے ” خبردار! اللہ کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے “ اللہ تعالیٰ مایوسی کے اندھیروں سے انسانوں کو نکالنا چاہتا ہے اور یہ سب کچھ قرآنِ پاک کی تلات، ترجمے اور تفاسیر کو سمجھنے میں پنہاں ہے، مگر راہِ حق سے بھٹکا یہ حضرت انسان قرآن کو چھوڑ باقی ہر شے میں سکون کھوجتا چلا جاتا، سو راحت نام کی کوئی چیز اسے کہیں دِکھائی اور سُجھائی نہیں دیتی، بالآخر وہ اس تلاشِ بسیار میں نا امیدی اور مایوسی کی تلخیاں دل میں سمیٹے قبر تک جا پہنچتا ہے۔ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے مذہب اسلام کو لائف سٹائل کے طور پر لیتے ہی نہیں، ہم محض چند باتوں پر عمل کر کے اپنے آپ کو مسلمان کہلوا لیتے ہیں، خود کشی تو ایک سب سے انتہائی قدم ہے، اسلام میں موت کی تمنا کرنے پر بھی قدغن ہے، خود اپنے جسم و جاں کو اذیت دینا بھی ممنوع ہے۔مسلمان کہلوانے والوں کو اتنا بھی نہیں علم کہ خود کشی جرم بھی ہے اور کارِ گناہ بھی، عبرت صدیقی کا بہت عمدہ شعر ہے:
خودکشی جرم بھی ہے، صبر کی توہین بھی ہے
اس لیے عشق میں مر مر کے جیا جاتا ہے
خود کشی کے متعلق عالمی ادارہ ء صحت کے اعداد و شمار بڑے ہی خطرناک ہیں، اس لیے کہ دنیا میں ہر سال دس لاکھ انسان خودکشی کر رہے ہیں۔ خودکشی کی یہ شرح ایک لاکھ افراد میں 16 فی صد بنتی ہے، اس کا مطلب ہے کہ دنیا میں ہر 40 سیکنڈز بعد ایک شخص خودکشی کر رہا ہے۔خود کشی دراصل بزدلی، کم ہمتی، اللہ کی رحمت سے ناامیدی اور مایوسی کی بدترین قسم ہے۔لوگوں کو تنہائی کی اذیت سے نکلنا چاہیے، مال و دولت کی طلب کو بھی حدود میں رکھنا چاہیے، بہ صورتِ دیگر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ضرور پڑھ لیں جو سورۃ التکاثر میں موجود ہے کہ ” ( مال کی ) کثرت ہوس نے تمھیں غافل کر دیا یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے“۔