عالم فضائلِ علم کا مستحق کب ہوتا ہے ؟

ہم جانتے ہی ہیں کہ علماء کے گروہ میں ایک ایسی قوم بھی داخل ہو چکی ہے جو قطعا اس پاکیزہ و ارفع لقب کی مستحق نہیں، لیکن انھوں نے علماء کا روپ دھار رکھا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے تہتر فرقوں میں بٹنے کی خبر دی ہے، ایک فرقے کے سوا باقیوں کو گمراہ کہا گیا ہے، عالم کی ایک بڑی شرط تقوی بھی ہے، ہم جانتے ہیں اس گروہ کی طرف منسوب لوگوں میں کبائر کے مرتکب بھی موجود ہیں، لھذا اگر عالم نما ہر شخص کو عالم کے متعلق احادیث میں موجود فضائل کا مستحق سمجھ لیا جائے تو اس سے گمراہ لوگوں کو اور بد ترین لوگوں کو صاحب فضیلت ماننا لازم آئے گا، اور جو بھی اپنا آپ کو مقدس بنانا چاہے گا علماء کا روپ دھار لے گا، ایسے لوگوں کی تعظیم شریعت پر افتراء و بہتان کے سوا اور قلبِ موازین کے سوا کچھ نہیں-
کچھ لوگوں نے تو اپنی پسند کے معیار بنا لیے ہیں، جو بھی ان کی پسند کے معیار پر پورا نہ اترے اسے وہ ان فضائل سے خارج سمجھتے ہیں، جیسے کچھ لوگوں کے ہاں معیار عالم کا عوامی ہونا ہے، مدرسے میں موجود پختہ عالم کو وہ عالم نہیں سمجھتے، کچھ کا معیار عالم کا الحاد اور دیگر ازمز پر اچھی دسترس رکھنا ہے، کچھ کے نزدیک معیار دور جدید کے فقہی مسائل ہیں، جو کرپٹو کرنسی اور بینکوں کے داؤ پیچ نہ سمجھتا ہو وہ عالم نہیں، کسی دور میں لوگ منطق، فلسفہ اور علمِ کلام کو معیار سمجھتے تھے، جو اس پر پورا نہ اترتا اس کی تعظیم ان کے دلوں میں کم ہو جاتی، کچھ کے نزدیک معیار مخصوص لوگوں کے مسائل و مزاج اور پسند و ناپسند کی فکر ہے، کچھ لوگ اس کو ہی عالم سمجھتے ہیں جو ایلیٹ کلاس کی یوتھ کے مزاج میں ڈھل کر کام کرے وہی عالم ہوگا
ضروری ہے کہ اس معیار کو سمجھا جائے جسے قرآن و سنت میں اور سلف کے ائمہ نے معیار قرار دیا یے
اس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ ہم کسی غلط شخص کو ایسی تعظیم دینے سے محفوظ رہیں گے جو اس کا حقدار نہیں ہوگا، تو دوسری طرف حقدار کی پہچان ہوگی، اور اس کی دل میں تعظیم ہوگی، اور زبان و دل اس کی توہین سے باز رہیں گے کہ عالم ربانی کی توہین شریعت کے ہاں سنگین گناہ ہے، تیسرا فائدہ یہ ہے کہ علماء ربانی کو جب علماء سوء اور گمراہ علماء کا رد کرتا دیکھیں گے تو اسے مولویوں کی لڑائی سمجھ کر دین سے اور اہل السنہ سے بیزار نہیں ہوں گے، بلکہ اسے ان کی ذمے داریوں کی ادائیگی میں سے سمجھ کر ان کے شکر گزار ہوں گے، دل میں ان کی ہیبت مضبوط ہوگی
ذیل میں ہم ان چیزوں کا ذکر کرتے ہیں جن کے ہونے سے کوئی عالم ان فضائل کا مستحق ہوتا ہے جو قرآن و حدیث میں عالم کی فضیلت میں ثابت ہیں
1 – وحی (قرآن و سنت کا علم) العالم کا معنی ہے صاحب علم، شریعت کی اصطلاح میں العلم سے مراد وحی کا علم ہے، قرآن کریم میں ہے:

{وَلَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَہۡوَآءَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ ۙ اِنَّکَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ۘ } [سُورَةُ البَقَرَةِ: ١٤٥]

امام ابن باز رحمہ اللہ لکھتے فرماتے ہیں:

العلم يطلق على أشياء كثيرة، ولكن عند علماء الإسلام المراد بالعلم هو : العلم الشرعي , وهو المراد في كتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم عند الإطلاق ” انتهى من “مجموع فتاوى ابن باز” (2/302)

“علم سے علماء اسلام کا ہاں شرعی علم مراد ہوتا ہے، قرآن و سنت میں بھی مطلقا ذکر ہو تو یہی مراد ہوتا ہے”
یعنی عالم وہ ہوتا ہے جو شریعت / وحی / قرآن و سنت کا علم رکھنے والا ہو، اور یہ علم اس کے پاس اتنا ہو کہ وہ اس العلم مادے سے مشتق القاب کا مستحق بن جائے، اتنا علم اس کے پاس تب تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ درج ذیل چیزوں کو نہ جان لے :
ا – عربی زبان کا علم، یعنی صرف و نحو اور مفردات کا علم اور عربی زبان کی وجوہ دلالات
جو عربی زبان نی جانتا ہو وہ عالم کہلانے کا حق دار نہیں
امام شافعی الرسالہ میں اس کی اہمیت بتاتے ہوئے فرماتے ہیں :

وإنما بدأتُ بما وصفتُ من أنَّ القرآن نزل بلسانِ العرَب دون غيره؛ لأنَّه لا يعلم من إيضاح جمل علم الكتاب أحد جَهِلَ سعةَ لسان العرب وكثرة وجوهه وجِمَاع معانيه وتفرُّقها، ومَن علِمه انتفت عنه الشُّبَه التي دخلَت على من جهل لسانها (الرسالة:٥٠)

یعنی قرآن کریم عربی میں نازل ہوا، جو شخص عربی زبان کی وسعت سے ناواقف ہے، اس کی کثرت وجوہ اور معانی کے اکٹھ اور افتراق سے ناواقف ہے وہ قرآن کریم کی تفسیر نہیں سمجھ سکتا، جو یہ عربی جان لے گا اس سے وہ شبہات دور ہو جائیں گے جن میں عربی نہ جاننے والا مبتلا ہو جاتا ہے”
امام شاطبی نے الاعتصام اور الموافقات میں اس پر بڑی عمدہ بحث کی ہے، ان کے نزدیک عربی کی بنیادی معلومات رکھنے والا شریعت کے علم میں بھی واجبی سے معلومات رکھتا ہے
سلف عربی سے عدم علم کو گمراہی کا سبب سمجھتے تھے، حسن بصری رحمہ اللہ سے امام بخاری نے خلق افعال العباد میں اور ابن وھب نے الجامع میں ذکر کیا ہے، وہ فرماتے ہیں عجمیت نے ان لوگوں کو ہلاک کر دیا ہے
ب – اصول فقہ کا علم، اس شرط کو متعدد علماء اصول نے بیان کیا ہے, یہ عربی کے علم کی فرع ہی ہے، کیوں کہ اصول فقہ کی اصل عربی زبان ہے، عربی زبان کے شرعی اور لغوی محاورے کو سمجھنا اصول فقہ ہے
ت – ناسخ و منسوخ کا علم
علی رضی اللہ عنہ نے کسی قصہ گو کو دیکھا تو کہا: کیا تو ناسخ و منسوخ کا علم رکھتا ہے؟؟ کہنے لگا نہیں, آپ نے فرمایا : تو خود بھی ہلاک ہوا ہے دوسرے کی بھی ہلاکت کا باعث بنا ہے
(المذکر والذکر والتذکیر :14، وسندہ صحیح)
ج – اصول حدیث اور اسماء و رجال کا علم کہ اس بغیر وحی غیر متلو کی صحت معلوم نہیں ہو سکتی
ح – علماء کے اجماع کا علم
خ – علماء کے اختلاف کا علم
سعید بن ابی عروبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: جس نے اختلاف نہیں سن رکھا اسے عالم شمار نہ کرو” (جامع بیان العلم: 1521 وسندہ صحیح)
2 – اپنے علم پر عمل
سلف کے اس سے متعلق بہت سے اقوال مروی ہیں، عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں جو اللہ سے ڈر گیا وہ عالم ہے, مسروق رحمہ اللہ علم میں سے خشیت کو ہی کافی قرار دیتے تھے، ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے کہ آدمی تب تک عالم نہیں ہوتا جب تک کہ وہ صاحب عمل نہ بن جائے
3 – فتنوں اور شبہات کی پہچان
امام ابن الوزیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عالم وہ ہے جو شبہے اور دلیل کو پہچانتا ہے (العواصم والقواصم5/339)
قرآن کریم میں راسخ فی العلم لوگوں کی نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ متشابہات کی تأویل کا علم رکھنے والے ہوتے ہیں (اس آیت کی تفسیر میں اختلاف بھی ہے)
قرآن کریم کی آیت : لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم سے بھی اس شرط کی تائید ہوتی ہے
4 – علمی غلطیوں کہ بھرمار نہ ہونا
حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہتے ہیں “عالم وہ ہے جس کی درست باتیں زیادہ ہوں”
اگر عالم کی ہر بات ہی درست ہو تو وہ معصوم ہو، یہ نہیں ہو سکتا، البتہ عالم کہ پہچان اس سے ہوتی ہے کہ اس کی غلطیاں اس کی درست باتوں کے مقابلے میں کہیں کم ہوں، لھذا وہ شاذ اور انوکھے اور غلط قسم کے مسائل نہ بتاتا ہو لوگوں کو
عالم کے اوصاف پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں، متقدمین نے اس موضوع پر اپنی کتابوں میں ضمنی طور پر بہت کچھ لکھا ہے، جیسے امام آجری، امام ابن بطہ اور امام ابن عبد البر رحمھم اللہ ہیں
ان ساری باتوں کا خلاصہ صرف دو چیزوں میں ہے، پختہ علم اور اچھا عمل
کسی عالم کا علم، اس کی کتابوں، فتووں، شاگردوں، اور علماء کی گواہی سے پہچانا جاتا ہے
اور اس کا عمل اس کے ساتھ رہنے والوں کی گواہی سے
کچھ لوگوں نے فضیلۃ الشیخ عبد اللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ پر اشارۃ و کنایۃ، کچھ نے صراحتا طعن کیا ہے
حقیقت یہ ہے کہ عالم کے اوصاف میں سے پہلا وصف علم بھی شیخ حفظہ اللہ میں موجود ہے، آپ کی کتب بھی ہیں جن کی عمدگی پر اہل علم کی گواہیاں بھی موجود ہیں، آپ کے شاگردوں میں فاضلین کی بڑی تعداد موجود ہے، علماء نے آپ کے علم کی گواہی دی ہے
اور دوسرا وصف حسب ظاہر عمل بھی موجود ہے، سرائر اور پوشیدہ باتوں کے ہم مکلف نہیں، اس کے بعد بھی اگر آپ فضائل علم کے مستحق نہیں تو شاید فرشتہ بننے کے بعد ہی کوئی مستحق ہو سکتا ہے
لھذا شیخ حفظہ اللہ اور آپ جیسے شخصیت پر سوال اٹھانا کہ آخر کب تک لوگ علماء کے فضیلت والی احادیث پڑھ کر ان کی تعظیم کا مطالبہ کرتے رہیں گے، ان علماء کو چاہیے کہ آگے بڑھ کر امت کا ہاتھ تھامیں تاکہ لوگوں کے پاس فضیلت علم کے استحقاق کے خلاف کوئی دلیل نہ ہو، ایک ایسی بات ہے جو اپنے محل پر نہیں، یعنی فضیلۃ الشیخ حفظہ اللہ اور آپ جیسے علماء پر قطعا صادق نہیں آتی
شیخ حفظہ اللہ کی سرپرستی میں کراچی کے بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں، آپ نے دور جدید کے مختلف وسائل کو بروئے کار لا کر دین کی تبلیغ منھج سلف کے مطابق کی ہے
اس کے باوجود اگر کوئی یہ سمجھے کہ آپ نے نوجوانوں کا ہاتھ نہیں تھاما تو اس کا معنی یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے نے مخصوص ماحول اور مخصوص فکر سے متاثر ہو کر یہ بات کہی ہے
وگرنہ آپ کی سرپرستی میں بہت سے ایسے علماء کام کر رہے ہیں جو جدید ازمز کا بہترین رد کر رہے ہیں اور کر سکتے ہیں

موھب الرحیم

یہ بھی پڑھیں: فضائل سے لبریز ایک عظیم دن