“آو مطالعہ کریں”
اس حوالے سے کچھ یاد داشتیں اور باتیں مرتب کرتے کرتے ایک بات یہ بھی لکھ دیا کہ عوام الناس کو صرف منتخبات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ
قبل از وقت آگاہی
یا ذہنی سطح سے بلند معلومات
یا بنیادی اصول و ضوابط کی لا علمی
اور سب سے بڑھ کر کسی بھی علم سے حقیقی معنی میں استفادہ کرنے کی اصل اصیل کسی استاذ سے سمجھا جائے والی کیفیت کا نہ ہونا۔
یہ سب امور عوام کو علمی و فکری گمراہی میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہیں۔
ان منتخبات میں سب سے پہلے قرآن مجید ہے۔
پھر احادیث کے منتخبات ہیں جیسا کہ ریاض الصالحین عوام کو ہر صورت میں پڑھنی چاہیے۔
یہاں تک تو بریلوی دیوبندی اھل حدیث اپنے اپنے مسلک کی مناسبت سے بھی پڑھنا شروع کر دیں تو بہت بہتری ہو گی اور اگر بالغ نظری درکار ہے تو دیگر مسالک کے تراجم قرآن اور تراجم ریاض الصالحین کو بھی پڑھا جائے بات بہتر انداز میں سمجھ۔ ا جاتی ہے میں کراچی یونی ورسٹی ایم اے عربی فائنل ائیر میں علوم القرآن پڑھاتے وقت ایک موضوع پڑھاتا ہوں کہ
ترجمہ قرآن مجید تو اپنے طلباء و طالبات کو منتخب آیات پر معروف مترجمین کے تراجم کا تقابلی مطالعہ کرواتا ہوں تاکہ ذہن کھل سکے اور بند ڈبے نہ بنیں۔ لیکن بہرحال ہمارا معاشرتی مزاج بند ڈبہ بننا ہے الا من رحم ربی۔
لیکن مختلف علوم و فنون پر فنی کتب و معلومات پڑھنے سے عوام کو اجتناب کرنا چاہیے۔ جیسا کہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی بعض کتب شاطبی رحمہ اللہ کی الموافقات ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مجموع الفتاوی کے فنی مقامات و قس علی ھذا
اسی لیے کچھ ایام قبل میں نے مجموع الفتاوی کا مطالعہ شروع کیا تو منتخب مقامات کو نشان زدہ کر لیا کہ بشرط توفیق و فرصت ان مقامات کا ترجمہ عوام کے لیے ہونا چاہیے تو ابو بکر قدوسی بھائی نے بتایا کہ کسی نے مجموع الفتاوی کا مکمل ترجمہ کر دیا ہے تو میرا بے ساختہ یہی سوال تھا کہ کہیں چھپوا تو نہیں دیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ کچھ علوم اور علمی معاملات صرف علماء کے مابین رہنا چاہیے عوام الناس کے درمیان وہ معاملات جب آتے ہیں فتنہ کا سبب بنتے ہیں اور یہ رویہ تمام دنیاوی علوم و فنون کے فنی معاملات میں اختیار کیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ بہتر اور انسب ہے۔
یہ تو عوام الناس کی مناسبت سے بات ہو گئی اب بات کرتے ہیں طلباء کی مناسبت سے تو عرض ہے طلباء اپنی نصابی کتب سے متعلق مطالعہ ضرور کریں لیکن وہاں بھی یہی اصول کارفرما ہے کہ قبل از وقت آگاہی آزمائش کا سبب بنتی ہے۔ یعنی وہ کتب نہ پڑھیں جو ان کی ذہنی سطح سے بالاتر ہیں۔ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ تخریج و تحقیق میں اپنا ایک معیار رکھتے تھے وذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء گو کہ انہیں کئی مقامات پر تسامحات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کی اسماء الرجال اور تخریج احادیث پر ایسی تحریریں جو علمی نا بالغوں کے ہتھے جب چڑھی تو کیا کیا فتنے رونما نہیں ہوئے مدارس کے طلباء کسی حدیث کی سند میں رواۃ کے حوالے سے مبادیاتی آگاہی کے بعد حدیث پر حکم لگانے لگ گئے اس بات سے قطع نظر کے علل الحدیث کا علم لازم ہے۔ یہ ایک ایسا علم ہے جہاں ناصر الدین البانی رحمہ اللہ جیسی ماہر شخصیت سے بھی غلطیاں ہوئیں جس پر رجوع اور دیگر علماء کی نشاندہی موجود ہے تو میرے عزیز طلباء ساتھیوں پہلے علمی اتقان پیدا کریں پھر رسوخ کی طرف آئیں پھر انطباق کی طرف آئیں ڈائریکٹ انطباق آپ کو شدید نقصان دہ فکر دے رہا ہے۔
میرے کچھ نوجوان ساتھی اس حوالے سے آزمائش میں مبتلا ہیں کیونکہ بنیادی اصول وضوابط سے مکمل آگاہی اور تنفیذ کے طرق کو اساتذہ سے صحیح طور پر نہیں سمجھا لہذا آزمائش میں مبتلا ہوئے۔
بلکہ اگر مجھے اجازت دیں تو میں ایک بات یہ بھی کہنا چاہتا ہوں اپنے علماء ساتھیوں سے آپ کی جس فن میں مہارت نہیں ہے وہاں آپ بات نہ کریں کسی متخصص یا ماہر فن سے سیکھ لیں تاکہ آپ بھی آزمائش میں مبتلا نہ ہوں کچھ عرصہ قبل مفتی طارق مسعود صاحب نے علوم قرآن کے حوالے سے ایسی غلطیوں کا ارتکاب کیا تھا کہ ہر فن ہر موضوع پر بات کرنی ہے۔
یہ تخصص والا پہلو کوئی جدید نہیں ہے بلکہ عہد رسالت سے جاری ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر ذمہ داری ہر ایک کو نہیں دیا کرتے تھے بلکہ ذمہ داری کی مناسبت سے اور متخصص کو منتخب کیا کرتے تھے۔
لہذا علماء اپنے مجالات و مہارت والے موضوعات پر بات کریں اور جہاں ان کی مہارت موجود نہیں ہے وہاں وہ محض مطالعہ نہ کریں بلکہ کسی صاحب علم و فضل کے سامنے زانوئے تلمذ کر لیں تو بہت خیر ہو گی۔
کاپیاں چیک کرتے کرتے تھک گیا تھا تو سوچا ایک لیکچر دے دوں۔
ابتسامات
شاہ فیض الابرار صدیقی