اس سلسلے میں علمائے کرام کے تین موقف ہیں:
1 نو اور دس یا دس اور گیارہ کا روزہ رکھا جائے، یہ موقف مرجوح ہے کیونکہ اس سے متعلق روایت ثابت نہیں ہے۔
2 دوسرا موقف صرف نو والا ہے۔ یہ موقف بھی اپنے تمام دلائل و براہین کے باوجود راجح معلوم نہیں ہوتا۔
3 تیسری اور دلائل کے قریب ترین رائے یہ ہے کہ نو اور دس دونوں کا روزہ رکھا جائے۔
دلائل ملاحظہ فرمائیں:

پہلی حدیث

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَدِينَةَ فَرَأَى اليَهُودَ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: «مَا هَذَا؟»، قَالُوا: هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ، فَصَامَهُ مُوسَى، قَالَ: «فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ»، فَصَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ. (صحيح البخاري (3/ 44)( 2004)
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا، یہودی عاشوراء (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں، ان سے پوچھا تو بتایا: ہمارے لیے یہ ایک مقدس دن ہے، اس میں اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دلائی تھی، تو موسی علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم تو تم سے زیادہ موسی علیہ السلام پر حق رکھتے ہیں، لہذا آپ نے خود بھی روزہ رکھا، اور اس روزے کا حکم بھی دیا۔
یہ حدیث الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ صحيح مسلم (2/ 796) (1130) میں بھی ہے۔
بخاری ومسلم میں یہ حدیث کئی مقامات پر آئے ہے، بعض میں صراحت ہے کہ اس دن موسی علیہ السلام کو فرعون پر فتح حاصل ہوئی تھی، تو آپ نے شکرانے کے طور پر یہ روزہ رکھا تھا۔ بعض احادیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال یہودیوں کی بجائے صحابہ کرام سے کیا، تو آپ نے فرمایا تم ان سے زیاد حقدار ہو، لہذا روزہ رکھو۔ دونوں قسم کی احادیث میں کوئی اختلاف نہیں، ممکن ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے بھی پوچھا ہو، اور صحابہ کرام سے بھی برسبیلِ افہام وتفہیم سوال کیا ہو، یا پھر پہلے صحابہ کرام سے پوچھا ہو اور پھر بذات خود یہودیوں سے بھی یہ معلوم کرلیا ہو۔ یہ بھی بعض روایات میں ذکر ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کا روزہ پہلے بھی رکھتے تھے، لیکن یہودیوں کو اس طرح پوچھ کر ان کی تالیفِ قلبی مقصود تھی۔

دوسری حدیث

عَنِ الْحَكَمِ بْنِ الْأَعْرَجِ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ رِدَاءَهُ فِي زَمْزَمَ، فَقُلْتُ لَهُ: أَخْبِرْنِي عَنْ صَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: «إِذَا رَأَيْتَ هِلَالَ الْمُحَرَّمِ فَاعْدُدْ، وَأَصْبِحْ يَوْمَ التَّاسِعِ صَائِمًا»، قُلْتُ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ قَالَ: «نَعَمْ» (صحيح مسلم (2/ 797) (1133)
حکم بن اعرج بیان کرتے ہیں، میں ابن عباس کے پاس حاضر ہوا، آپ زمزم کے پاس چادر لپیٹ کر تشریف فرما تھے، میں نے پوچھا: مجھے عاشوراء کے متعلق رہنمائی کریں، فرمایا: جب محرم کا چاند طلوع ہو، تو دنوں کی گنتی شروع کردو، اور نویں دن روزے سے ہو جاؤ، میں نے پوچھا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسے ہی رکھا کرتے تھے؟، فرمایا: جی ہاں۔
بعض لوگ اس حدیث کو ’صرف نو‘ کی دلیل سمجھتے ہیں، حالانکہ اس کے الفاظ پر ذرا غور کریں تو ان میں اس کے لیے کوئی دلیل نہیں، پہلی بات یہ ہے کہ اس میں حصرپر دلالت کرنے والے الفاظ ہی موجود نہیں۔ ہاں یہی روایت بعض کتبِ حدیث میں اختصار کے ساتھ مروی ہے، جس سے شاید بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہو۔ واللہ اعلم۔
دوسری بات یہاں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور بھی ایسے ہی روزہ رکھتے تھے، حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ’صرف 9‘ کا روزہ کبھی رکھا ہی نہیں۔ ہاں البتہ آپ عاشوراء کا رکھا کرتے تھے، اور آئندہ 9 کا بھی رکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل دونوں کے مطابق ابن عباس رضی اللہ عنہا کا اپنا عمل بھی تھا، اور اسی کی دوسروں کو ترغیب دلایا کرتے تھے۔ مصنف عبد الرزاق(4/ 287)( 7839) میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے کہ ابن عباس عاشوراء کے متعلق تلقین کیا کرتے تھے کہ : «خَالِفُوا الْيَهُودَ وَصُومُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ» یہودیوں کی مخالفت کرو اورنو، دس دونوں دنوں کا روزہ رکھو۔ یہی قول بسند صحیح (السنن المأثورة للشافعي (ص: 317)(337) میں بھی مذکور ہے۔

تیسری حدیث

عن عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: حِينَ صَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ» قَالَ: فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (صحيح مسلم (2/ 797) (1134)
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھنا اور رکھوانا شروع کردیا، تو صحابہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول یہ دن یہودی ونصاری کے ہاں بھی لائقِ تعظیم سمجھا جاتا ہے، تو آپ نے ارشاد فرمایا: آئندہ سال ہم نو کا (بھی) روزہ رکھیں گے، لیکن آپ آئندہ سال سے قبل ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
اس کے الفاظ پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام نے بتایا کہ یہ دن یہود و نصاری کے نذدیک تعظیم والا ہے، تو آپ نے کہا کہ میں آئندہ سال 9 کا روزہ رکھوں گا ، حالانکہ پہلی احادیث میں یہ ہے کہ آپ نے 10 کا روزہ رکھنا ہی تب شروع کیا کہ یہودی لوگ اس کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ یہاں بظاہر دونوں احادیث میں تعارض محسوس ہوتا ہے، حالانکہ اس کا حل بالکل آسان ہے کہ نبی کریم نے موسی علیہ السلام کی فرعون سے آزادی کی خوشی میں روزہ شروع کیا، اور آپ کو معلوم تھا کہ یہودی بھی اس کا روزہ رکھتے ہیں، جب مسلمانوں نے اس دن کا ادب و احترام شروع کیا تو ساتھ یہودی بھی اس کی مزید تعظیم کرنے لگے، ، یوں ان کی مخالفت کے طور پر ساتھ 9 کا بھی رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔
امامِ طحاوی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ذکر کرنے کےبعد فرماتے ہیں:
«لَأَصُومَنَّ يَوْمَ التَّاسِعِ» يَحْتَمِلُ لَأَصُومَنَّ يَوْمَ التَّاسِعِ مَعَ الْعَاشِرِ أَيْ لِئَلَّا أَقْصِدَ بِصَوْمِي إِلَى يَوْمِ عَاشُورَاءَ بِعَيْنِهِ , كَمَا يَفْعَلُ الْيَهُودُ , وَلَكِنْ أَخْلِطُهُ بِغَيْرِهِ , فَأَكُونُ قَدْ صُمْتُهُ , بِخِلَافِ مَا تَصُومُهُ يَهُودُ. وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَا يَدُلُّ عَلَى هَذَا الْمَعْنَى ۔(شرح معاني الآثار (2/ 77)
اس میں یہ معنی مراد ہوسکتا ہے کہ میں صرف دس کا روزہ نہیں رکھوں گا، جیسے یہودی رکھتے ہیں، بلکہ ساتھ اور بھی دن کا روزہ ملاؤں گا، یوں میرے اور یہودیوں کے روزے میں فرق ہوجائے، اور یہی مفہوم ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
پھر ابن عباس کا فتوی ذکر کرنے کے بعد رقمطراز ہیں:
فَدَلَّ ذَلِكَ عَلَى أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَدْ صَرَفَ قَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَئِنْ عِشْتُ إِلَى قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ يَوْمَ التَّاسِعِ» إِلَى مَا صَرَفْنَاهُ إِلَيْهِ، وَقَدْ جَاءَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ أَيْضًا. (شرح معاني الآثار (2/ 78)
ثابت ہوا کہ حدیث کا جو معنی ہم نے بیان کیا ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ کےنزدیک بھی وہی مفہوم مراد ہے۔
امام نووی فرماتے ہیں:
قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ وَلَعَلَّ السَّبَبَ فِي صَوْمِ التَّاسِعِ مَعَ الْعَاشِرِ أَنْ لَا يَتَشَبَّهَ بِالْيَهُودِ فِي إِفْرَادِ الْعَاشِرِ وَفِي الحديث اشارۃ الی ھذا. (شرح النووي على مسلم (8/ 13)
بعض علما کے نزدیک نو اور دس کو ملانے کی حکمت یہ ہے تاکہ یہود سے مشابہت نہ ہو، جو صرف دس کا رکھتے ہیں اور حدیث میں اس طرف اشارہ بھی ہے۔
حضور نے یوم عاشوراء کا روزہ کب شروع کیا؟ اور اس کی توجیہ و سبب کیا تھا؟ اس حوالے سے نووی وابن حجر وغیرہ نے مزید کئی ایک روایات ذکر کی ہیں، اور ان میں توجیہ و توفیق کی کوشش کی ہے، لیکن ہمارے لیے یہاں اتنا بیان کردینا کافی ہے کہ آپ نے بہرصورت 10 کا روزہ یہود کے ساتھ رکھا، اور پھر 9 کابھی عزم کیا، تاکہ ان کی مخالفت ہوسکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع سے ہی ان کی مخالفت کیوں نہ کی؟ اس کی بھی کئی ایک توجیہات ہیں کہ شروع میں یہودیوں سے موافقت حکمت کا تقاضا تھا، جیسا کہ قبلہ میں موافقت رہی، وغیرہ۔
مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم میں 10 کا روزہ رکھا اور آئندہ ساتھ 9 کو ملانے کا بھی عزم ظاہر کیا، لیکن اس پر آپ عمل نہ کرسکے، البتہ بعد میں صحابہ کرام اس پر عمل پیرا رہے۔

چوتھی حدیث

معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں عاشورہ دس محرم کو وعظ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِهَذَا الْيَوْمِ: “هَذَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ، وَلَمْ يَكْتُبِ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، وَأَنَا صَائِمٌ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَصُومَ ؛ فَلْيَصُمْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُفْطِرَ ؛ فَلْيُفْطِرْ “.[صحیح مسلم:1129]
مسند احمد میں (16867)میں اس روایت کے آخر میں الفاظ ہیں: فَمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَصُومَ فَلْيَصُمْ، فَإِنِّي صَائِمٌ “. فَصَامَ النَّاسُ.
تم میں سے جو روزہ رکھنا چاہتا ہے وہ رکھے، میں روزہ رکھنے والا ہوں، تو لوگوں نے بھی اس دن کا روزہ رکھا۔
(حكم الحديث: إسناده صحيح على شرط الشيخين)
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بعد میں بھی دس کا روزہ رکھتے رہے ہیں۔

پانچویں حدیث

عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَعُدُّهُ الْيَهُودُ عِيدًا. قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “فَصُومُوهُ أَنْتُمْ”. [صحيح البخاری:2005]
اس حدیث میں وضاحت ہے کہ کچھ یہودی یوم عاشورا کو جشن مناتے تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا.
اگر محض نو کا روزہ رکھا جائے تو نہ صرف یہ کہ اس حکم کی تعمیل نہیں ہوتی بلکہ بدعتی قسم کے یہودیوں کی موافقت بھی ہو جاتی ہے۔ اس لیے یہودی چاہے مذہبی ہوں چاہے بدعتی قسم کے ان سب کی مخالفت دو روزے رکھنے سے ہی ہوتی ہے اور ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے اسی لیے وضاحت فرما دی کہ نو اور دس دو روزے رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو.

شارحین کرام نے بھی دو یا تین روزے رکھنے کو ہی احوط قرار دیا ہے۔ ابن عباس، معاویہ اور انکے دور خلافت میں مدینہ میں موجود صحابہ رضی اللہ عنھم، تابعین کا عمل کے وہ دس کو روزہ رکھتے تھے، اسی طرح صحیح مسلم اور مسند احمد کے حوالے سے پیچھے گزر چکا۔

مزید صحابہ کا عمل بھی ملاحظہ فرمائیں:
دخل الأشعث بن قيس على ابن مسعود – وهو يأكل يوم عاشوراء – فقال : يا أبا عبد الرحمن، إن اليوم يوم عاشوراء، فقال: قد كان يصام قبل أن ينزل رمضان، فلما نزل رمضان؛ ترك، فإن كنت مفطرا؛ فاطعم. [صحيح مسلم:1127]

صحیح مسلم کی اسی حدیث کی ایک اور روایت میں ہے: إن الأشعث بن قيس دخل على عبد الله يوم عاشوراء -وهو يأكل- فقال:يا أبا محمد! ادن، فكل، قال:إني صائم…”.

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اس روایت میں واضح طور پر یوم عاشورا دس تاریخ کو کہا ہے، ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ عہدِ صحابہ میں بھی دس کا روزہ رکھا جاتا تھا۔

دوسرے دلائل کا تجزیہ

نو دس یا دس گیارہ والا موقف اس لیے مرجوح ہے کہ اسکی مستدل روایت ثابت نہیں ہے ملاحظہ فرمائیں.
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ، صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا، أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا “.
یوم عاشوراء کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو (لہٰذا) ایک دن پہلے یا بعد کا (بھی) روزہ رکھو۔‘‘ (مسند احمد 241/1، ح 2154، ابن خزیمۃ: 2095)

یہ روایت داود بن علی کی وجہ سے ضعیف ہے، لہٰذا اس روایت سے 10 اور 11 محرم کو روزہ رکھنے کا استدلال درست نہیں.

صرف نو کا موقف رکھنے والے مشائخ کے دلائل کا تجزیہ ترتیب کے ساتھ ساتھ پیش خدمت ہے:

پہلی دلیل: تمام وہ روایات جن میں صرف نو کا ذکر ہے..مثلاً لان عشت الی قابل لاصومن التاسع وغیرہ روایات۔
تو عرض یہ ہے کہ ان میں یہ کہاں ہے کہ صرف نو کا ہی رکھنا ہے دس کا نہیں رکھنا؟ جبکہ عاشوراء کا لغوی معنی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور آپکے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا عمل اس بات کی قوی دلیل ہے کہ صرف نو کا مراد نہیں بلکہ دس کے ساتھ نو کا مراد ہے۔ ان احادیث سے صرف نو کا استدلال کرنے والوں کے متعلق اہل علم نے لکھا ہے:
وأما إفراد التاسع فمن نقص فهم الآثار، وعدم تتبع ألفاظها وطرقها، وهو بعيد من اللغة والشرع۔ [زاد المعاد: 2/72، المرعاة:3/272]
مرعاۃ کی یہ بحث انتہائی مفید ہے. جس میں عبیداللہ مبارکپوری فرماتے ہیں کہ صرف نو کا استدلال ناقص فهم اور احاديث و آثار كے الفاظ و طرق سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ اور یہ مسلمہ قانون بھی ہے کہ عدمِ ذکر نفیِ ذکر کو مستلزم نہیں ہوتا، یعنی نو والی احادیث میں دس کا ذکر نہیں کا مطلب یہ نہیں کہ دس ہے ہی نہیں!!

دوسری دلیل:  نو والی روایات دس والی روایات کی ناسخ ہیں۔
حالانکہ دو احادیث کو ایک دوسرے کے مخالف ظاہر کرنا، اور پھر ان میں ترجیح اور نسخ کی طرف جانا، یہ طریقہ کار یہاں درست نہیں، کیونکہ مختلف الحدیث کا بنیادی اصول ہے کہ تعارض کے وقت نصوص میں پہلے جمع وتطبیق کی کوشش کی جاتی ہے، جبکہ نسخ و ترجیح کے مراحل بعد کے ہیں۔
امام خطابی فرماتے ہیں:
وسبيل الحديثين إذا اختلفا في الظاهر وأمكن التوفيق بينهما وترتيب أحدهما على الآخر، أن لا يحملا على المنافاة ، ولا يضرب بعضها ببعض ، لكن يستعمل كل واحد منهما في موضعه، وبهذا جرت قضية العلماء في كثير من الحديث. (معالم السنن (3/68)
کہ جب احادیث میں تطبیق و توفیق ممکن ہو تو پھر انہیں ایک دوسرے کے متعارض و مخالف بنا کر پیش کرنا درست نہیں۔
امام نووی ایک مسئلہ میں بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں، کہ یہاں نسخ کی بات کرنا درست نہیں، کیونکہ یہاں جمع ممکن ہے، آپ کے الفاظ ہیں:
النسخ لا يصار إليه إلا إذا تعذر الجمع ولم يتعذر هنا. (المجموع شرح المهذب (ص: 8)
یہاں بھی جب جمع کرنا ممکن ہے کہ نو کا بھی دس کے ساتھ رکھیں تو جمع و تطبيق اولی ہے نہ کہ نسخ.. واللہ اعلم.

تیسری دلیل: عدد میں حصر ہوتا ہے اور یہاں. لاصومن التاسع. میں تاسع عدد مستعمل ہے لھذا صرف نو مراد ہے۔

آپ اندازہ کیجیے جو لوگ اقوالِ صحابہ اور ائمہ محدثین کے فہم کو نہیں مانتے( جو اھل عرب سے تھے انہوں نے التاسع سے حصر نہیں نکالا) ، وہ استدلال کرنے پر آئے ہیں تو کس چیز سے استدلال کر لیا…؟
ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ’لأصومن التاسع‘ بغیر کسی سیاق و سباق کے ہوتا تو پھر بھی حصر والوں کی دلیل میں کوئی قوت ہوتی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ’ یوم العاشر‘ یا ’عاشوراء‘ کی فضیلت و حکم بھی موجود ہے،اور صحابہ رضی اللہ عنھم کا عمل بھی تو پھر کس دلیل سے ایک کو دوسرے کا نقیض سمجھا جارہا ہے؟ حضور نے نو بھی بولا ہے، اس پر بھی عمل کریں، حضور نے دس بھی بولا اور روزہ رکھ کر بھی دکھایا، وہ بھی رکھیں۔ جیسے صحابہ و ائمہ مجتہدین رکھتے رہے.

چوتھی دلیل: کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا تو انہوں صحیح مسلم کے الفاظ کے مطابق گنتی شمار کرنے کا کہا اور نو کو روزہ رکھنے کا کہا..حالانکہ اس کے الفاظ پر ذرا غور کریں تو ان میں اس کے لیے کوئی دلیل نہیں، پہلی بات یہ ہے کہ اس میں حصر پر دلالت کرنے والے الفاظ ہی موجود نہیں۔
دوسری بات یہاں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور بھی ایسے ہی روزہ رکھتے تھے، حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ’صرف 9‘ کا روزہ کبھی رکھا ہی نہیں۔ ہاں البتہ آپ عاشوراء کا رکھا کرتے تھے، اور آئندہ 9 کا بھی رکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل دونوں کے مطابق ابن عباس رضی اللہ عنہا کا اپنا عمل بھی تھا، اور اسی کی دوسروں کو ترغیب دلایا کرتے تھے۔ مصنف عبد الرزاق(4/ 287)( 7839) میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے کہ ابن عباس عاشوراء کے متعلق تلقین کیا کرتے تھے کہ : «خَالِفُوا الْيَهُودَ وَصُومُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ» یہودیوں کی مخالفت کرو اورنو، دس دونوں دنوں کا روزہ رکھو۔ یہی قول بسند صحیح (السنن المأثورة للشافعي (ص: 317)(337) میں بھی مذکور ہے۔

پانچویں دلیل: دس کا ساتھ رکھنے سے یہود کی مخالفت نہیں ہوتی بلکہ موافقت ہوجاتی ہے تو عرض کرتا چلوں. مخالفت کی بھی مختلف صورتیں ہیں کبھی بلکل ہی ان جیسا عمل چھوڑ کر مخالفت مراد ہوتی ہے تو کبھی اس عمل کے ساتھ دوسرا ملاکر مخالفت مراد ہوتی ہے اور یہاں یہی مخالفت مراد ہے، اسکی مثال دلیل سے دیتا چلوں:
یھود جوتا پہن کر نماز نہیں پڑھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی مخالفت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
خَالِفُوا الْيَهُودَ ؛ فَإِنَّهُمْ لَا يُصَلُّونَ فِي نِعَالِهِمْ وَلَا خِفَافِهِمْ
یھود کی مخالفت کرو ( جوتوں میں نماز پڑھا کرو) کیوں کہ وہ جوتوں اور موزوں میں نماز نہیں پڑھتے۔ [سنن ابی داؤد:652 سندہ صحيح]
اب دیکھیں ادھر مخالفت یہی مراد ہے کہ جوتا پہن کر اور اتار کر دونوں طرح نماز پڑھنے کو ہم جائز سمجھتے ہیں، كوئي عالم یہ نہیں کہتا کہ اگر آپ جوتا اتار کر نماز پڑھيں گے تو یہود کی مشابہت ہوجائے گی؟ تو عاشورہ کے روزے میں بھی اس طرح کی ہی مخالفت مراد ہے.

چھٹی دلیل: یھود تعظیم کرتے ہیں دس محرم کی اگر ہم نے دس کا روزہ رکھا تو ہم بھی انکی تعظیم میں شامل ہو جائیں گے.. گزارش ہے کہ یھود اسی طرح یوم السبت ہفتے کے دن کی بھی تعظیم کرتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ہفتہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک دن ملا کر رکھنے کی اجازت دی ہے دلیل ملاحظہ فرمائیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ” لَا تَصُومُوا يَوْمَ السَّبْتِ إِلَّا فِيمَا افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ أَحَدُكُمْ إِلَّا لِحَاءَ عِنَبَةٍ، أَوْ عُودَ شَجَرَةٍ فَلْيَمْضُغْهُ “. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَمَعْنَى كَرَاهَتِهِ فِي هَذَا : أَنْ يَخُصَّ الرَّجُلُ يَوْمَ السَّبْتِ بِصِيَامٍ ؛ لِأَنَّ الْيَهُودَ تُعَظِّمُ يَوْمَ السَّبْتِ. [سنن ابی داؤد:744، صحيح]
پھر اس جگہ اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہی احباب دس کے روزہ رکھنے کے جواز کے قائل ہیں کہ دس محرم کا روزہ رکھنا جائز ہے،
تو آپ جواز کے قائل ہیں تو تعظیم میں شراکت کی اجازت تو آپ خود ہی دے رہے ہیں؟ لیکن دس والے موقف کی تردید بھی اسی نقطہ نظر سے کر رہے ہیں؟!
اصل بات یہ ہے یھود کچھ تعظیمی طور پر روزہ رکھتے تھے اور کچھ اسکو عید کے طور پر مناتے تھے جیسا کہ دونوں باتیں صحیح بخاری کی روایات میں موجود ہیں تو ہم روزہ رکھ کر عید والوں کی بھی مخالفت کریں گے اور جو تعظیم کرتے تھے ساتھ نو کا رکھ کر انکی بھی مخالفت کریں گے یہی احادیث کا اصل مفہوم ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی پیچھے بیان کیا جاچکا ہے۔

ساتویں دلیل: امام أبو داؤد رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے. ان عاشوراء یوم التاسع.. تو گزارش یہ ہے کہ ابواب تو مرجوح مسائل کے عنوان سے بھی حدیث کی کتب میں مل جاتے ہیں تو ادھر کیا کہیں گے ہم؟ دوسری بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قول اور عمل و فہم تابعی حسن بصری رحمہ اللہ کا قول: العاشوراء یوم العاشر، ائمہ مجتہدین ابن القیم. ابن حزم، ابن حجر، امام شوکانی، عبدالرحمن مبارک پوری، عبیداللہ مبارک پوری رحمھم اللہ رحمۃ واسعہ اور خود ابوداؤد کے شارح کا کلام سب کچھ امتیوں کے اقوال کہہ کر چھوڑتے ہیں، لیکن پھر خود امام ابو داؤد کا ترجمۃ الباب پیش کر کے استدلال کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں؟!

قارئین کرام اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کیلئے زاد المعاد، نیل الاوطار، محلی ابن حزم، فتح الباری شرح صحیح البخاری، شرح مسلم، عون المعبود، تحفۃ الاحوذی، مرعاۃ المفاتيح وغیرہ کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

خلاصۃ البحث یہ ہے تمام دلائل و براہین وعمل صحابہ کے پیش نظر راجح موقف یہی معلوم ہوتا ہے کہ نو اور دس دونوں کا روزہ رکھا جائے۔

آخر میں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ یہ اجتھادی مسئلہ ہے، تمام علمائے کرام کی رائے کا احترام کرنا چاہئے اور اپنا موقف احسن انداز میں پیش کرنا چاہیے، جو بھی مجتھد کسی موقف تک بھی پہنچ کر اس پر عمل کرے گا، ان شاء اللہ عاشوراء کے روزہ کا(یکفر السنۃ الماضیۃ) کا مصداق اور مستحق ہوگا۔
ایک ضروری وضاحت اس کالم میں کچھ مواد اور عبارت عزیزم برادرم دوست حافظ خضر حیات حفظہ اللہ کے کالم سے انکی اجازت کے ساتھ لی گئی ہیں۔
کوئی خوبی ہو تو اللہ کی طرف سے نقص و کمی ہو تو میری طرف سے، کوئی اصلاح والی بات ہو تو ضرور اصلاح فرمائیں، خوشی اور مسرت ہوگی۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

جمع و ترتیب: حافظ اظہار الحق
(مدرس جامعہ الدعوہ الاسلامیہ مرکز طیبہ مریدکے)