سوال (1384)

ابدال اور قطب کی کیا حقیقت ہے؟

جواب

ملاحظہ ہو ۔
“غوث، قطب اور ابدال کا عقیدہ رکھنا کفر اور شرک ہے” از: مولانا سیف الرحمن الفلاح (ماہنامہ محدث، لاہور: اکتوبر 1978ء)
سوال سے ملتا جلتا مختصر جواب ماہنامہ محدث ہی کی ایک سابقہ اشاعت میں شائع ہوچکا تھا جو یہاں ذیل میں پیش خدمت ہے۔
(الف) غوث، قطب، ابدال
ایک فرضی چیز جو ہندوستان میں عام ہوگئی جس مدرسہ کو دیکھو مدرسہ غوثیہ، جس مسجد کو دیکھو مسجد غوثیہ لکھا ہوتا ہے۔
محدثین کی تحقیق:
1. المنار المنيف في الصحيح والضعيف لابن قيم ص ١
2. موضوعات كبير للملا علي قاري ص
3. اسنى المطالب في أحاديث مختلفة المراتب لابن درويش البيروني ص
4. “ابن قیم، ملا علی قاری اور بیرونی رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ قطب، غوث، ابدال والی جملہ احادیث محدثین کے نزدیک باطل ہیں!”
سیوطی جیسے حاطب اللیل اور کھوجی کو صرف ایک اثر ملا ہے۔ جس کی سند صرف کتانی تک جا کر ختم ہو جاتی ہے جو تیسری صدی کا آدمی ہے:

حدثا علي بن عبد الله بن جهضم الهمداني بمكة حدثنا عبيد الله بن محمد العبسي قال : سمعت الكتاني [محمد بن علي بن جعفر ابوبكر الكتاني الصوفي] يقول: النُقباءُ ثلاث مائة والنُجباءُ سبعون والبدلاء أربعون والأخيار سبعة والعمد أربعة والغوث واحد. فمسكن النقباء المغرب ومسكن النجباء مصر ومسكن الأبدال الشام والأخيار سياحون في الأرض والعمد في زوايا الأرض ومسكن غوث في مكة، فإذا عرضت الحاجة من أمر العامة ابتهل فيها النقباء ثم النجباء ثم الأبدال ثم الأخيار ثم العمد فإن أجيبوا وإلا ابتهل الغوث فلا بتم مسئلة حتى تجاب دعوته (تاریخ دمشق لابن عساكر جلد اول ص ٢٨٧-٢٨٨)

“یعنی تم کو جب امورِ عامہ میں کوئی مشکل درپیش ہو پہلے نقیب کے پاس جاؤ، اس کے بعد بدل کے پاس، پھر اخیار کے پاس، پھر عمد کے پاس جاؤ۔ اگر وہاں بھی کام نہ بنے تو غوث کے جاؤ اور غوث مکہ میں ہوتا ہے۔”
بس یہی ایک اثر ہے جس سے ہند وپاکستان کے لوگوں نے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کو غوث الاعظم بنا رکھا ہے۔ ایک بات بڑے مزے کی اس روایت میں یہ ہے کہ غوث مکہ میں ہوتا ہے پھر بغداد میں تو غوث نہ ہوا۔ کیونکہ عراق فتنہ کی جگہ آنحضرت ﷺ نے بتلائی ہے۔
مزید برآں اس روایت میں ایک راوی علی بن عبداللہ جہضم کے متعلق اسماء الرجال والے کیا کہتے ہیں یہ بھی سنیے:

علي بن عبد الله بن جهضم الزاهد، أبو الحسن، شيخ الصوفية بحرم مكة، مصنف كتاب بهجة الأسرار . متهم بوضع الحدیث ….. قال ابن خيرون: تكلم فيه. قال: وقيل أنه يكذب. وقال غيره: اتهموه بوضع صلاة الرغائب. (ميزان الاعتدال جلد ٣ صفحه ١٤٢، ١٤٣ ولسان الميزان جلد ٤ ص ٣٣٨)

ترجمہ: علی بن عبداللہ بن جہضم الزاہد ابو الحسن حرم مکہ میں صوفیاء کا شیخ، کتاب بهجة الأسرار کا مصنف، احادیث وضع کرنے میں متہم ہے۔ ابن خیرون کہتے ہیں: متکلم فیہ ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ جھوٹ بیان کرتا ہے۔ دیگر کے نزدیک اس پر صلوة الرغائب کی حدیث وضع کرنے کا الزام ہے۔
(مولوی) محمد شفیع لاہور
(ماہنامہ محدث: جولائی 1978ء)
[اسی موضوع سے متعلق فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالستار الحماد حفظہ اللہ کا فتویٰ کا ملاحظہ کرلیں۔ فتاوی اصحاب الحدیث: ج، 3 ص 29]

فضیلۃ العالم سید کلیم حسین شاہ حفظہ اللہ

قطب وابدال کی شرعی حیثیت
سوال: قطب وابدال کی شرعی طور پر کیا حیثیت ہے؟ کچھ اہل علم مشکوٰۃ المصابیح کے حوالے سے احادیث پیش کرتے ہیں، جن میں ابدال وغیرہ کا ذکر ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں اس کے متعلق ہماری راہنمائی کریں۔
جواب: قطب وابدال کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ہمارے ہاں صوفیاء حضرات نے اس طرح کی باتیں لوگوں میں مشہور کر رکھی ہیں کہ فلاں شخص ابدال میں سے تھا، مشکوٰۃ المصابیح کی درج ذیل حدیث کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے:
حضرت شریح بن عبید کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس اہل شام کا ذکر کیا گیا اور ان سے کہا گیا:اے امیرالمومنین رضی اللہ عنہ ! ان پر لعنت کریں تو آپ نے فرمایا، نہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ’’ابدال شام میں ہوں گے اور وہ چالیس افراد پر مشتمل ہوں گے، ان میں سے جب ایک آدمی فوت ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے کو لے آئے گا، ان کی وجہ سے بارش برستی ہے اور ان کے ذریعے دشمنوں سے بدلہ لیا جاتا ہے اور ان کی بنا پر اہل شام سے عذاب دور کیاجاتا ہے۔‘‘[مشکوۃ،ذکر اھل شام،حدیث نمبر:6277[
اس روایت کو صاحب مشکوٰۃ نے مسند امام احمد کے حوالہ سے ذکر کیا ہے، اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو مسند علی رضی اللہ عنہ میں بیان کیا ہے۔ [مسندامام احمد،ص:112،ج1]
لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کے راوی حضرت شریح بن عبید کی ملاقات حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے جیسا کہ حافظ احمد شاکر نے اس کے متعلق لکھا ہے۔ [مسنداحمد،ص:171،ج2 تحقیق احمدشاکر۔]
اسی طرح امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت بیان کی ہے کہ ایک خلیفہ کی وفات کے وقت امت میں اختلاف رونما ہو گا تو اہل مدینہ سے ایک آدمی بھاگ کر مکہ مکرمہ آئے گا، لوگ اس کی مقام ابراہیم اور رکن یمانی کے درمیان بیعت کریں گے پھر جب لوگ یہ منظر دیکھیں گے تو اس کے پاس شام کے ابدال اور عراق کے گروہ آئیں گے اور اس کی بیعت کریں گے۔[ابوداؤد،المھدی:4286۔]
لیکن یہ روایت بھی قابل حجت نہیں ہے کیونکہ اس روایت میں ابو قتادہ مدلس راوی ہے جس نے صالح ابی الخلیل سے عن کے صیغہ سے روایت بیان کی ہے پھر اس روایت میں صالح ابی الخلیل کے استاد ’’صاحب لہ‘‘ بھی مجہول ہے، ان علتوں کی وجہ سے یہ روایت بھی ناقابل اعتبار ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ اس امت میں تیس ابدال ہوں گے۔ [مسندامام احمد،ص:322،ج : 5]
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد اسے منکر قرار دیا ہے چنانچہ اس کی سند میں حسن بن ذکوان نامی راوی ضعیف ہونے کی بنا پر یہ روایت ناقابل حجت ہے، حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح کی جملہ روایات پر بایں الفاظ تبصرہ کیا ہے:
”بعض کتب میں ابدال، اقطاب، اغواث، نقباء، نجباء اور ورثاء سے متعلق احادیث ہیں، اس طرح کی تمام روایات باطل ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف باطل طور پر انہیں منسوب کیا گیا ہے۔‘‘ [المنارالمنیف،ص:136]
بہرحال دنیا کا نظام بدلنے یا چلانے والے ابدال سراسر جھوٹ کا پلندا ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی کوئی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) [فتاویٰ اصحاب الحدیث]

فضیلۃ الباحث مرتضی ساجد حفظہ اللہ