ہندوستان کے قدیم اور عظیم سلفی ادارہ دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کے ناظم اعلیٰ جناب ڈاکٹر سید عبد العزیز سلفی صاحب قضاء الٰہی سے انتقال کر گئے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء کرے۔
آپ کا تعلق عظیم علمی اور دینی خانوادہ سے تھا، آپ کے دادا ڈاکٹر سید فرید صاحب پیشہ سے ڈاکٹر تھے، لیکن علم اور اہل علم سے تعلق کی وجہ سے مولانا عبد العزیز محدث رحیم آبادی رحمہ اللہ سے گہرا تعلق تھا، لہٰذا ان کے انتقال کے بعد سلفیہ کی ذمہ داری ڈاکٹر فرید صاحب نے سنبھالی، آپ کے والد ڈاکٹر سید عبد الحفیظ سلفی رحمہ اللہ، دار العلوم سے فارغ تھے، ڈاکٹر بنے، اور بیک وقت اچھے عالم دین، ماہر ڈاکٹر، عظیم قائد، اور مشہور رہنما تھے، انہوں نے دار العلوم کو نئی اونچائی پر پہنچایا، اس میں طبیہ کالج، سلفیہ اسکول جیسے بے شمار شعبہ جات قائم کئے، عرصہ تک جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر رہے، مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر رہے، دار العلوم کے لئے شب و روز محنت کرتے تھے، اور اپنے فرزندان کو بھی اس ادارہ کی خدمت کے لئے وقف کر چکے تھے، لہٰذا آپ کی زندگی میں ہی آپ کے فرزند ڈاکٹر سید عبد العزیز سلفی، اور ڈاکٹر عبد الحلیم صاحب مدرسہ کی خدمت میں لگے رہتے تھے، اور جب ۱۹۹۹ میں ان کی وفات ہو گئی تو ان کے بڑے فرزند ڈاکٹر سید عبد العزیز سلفی نے ادارہ کی ذمہ داری سنبھالی، اور اس وقت سے لے کر آخری دم تک اپنے آپ کو مدرسہ کے سپرد کر چکے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بڑی خوبیاں عنایت کی تھیں، اور اس میں سب بڑی خوبی تواضع وانکساری تھی، ایک علمی خانوادہ کے چشم وچراغ، اورچعظیم ادارہ کے قائد تھے، لیکن ہر آدمی سے بڑی خندہ پیشانی سے ملتے۔ لوگ اپنے سے بڑوں سے تو اچھے سے پیش آتے ہیں، لیکن ایسا کم ہوتا ہے کے چھوٹوں پر بھی شفقت کریں، لیکن آپ کے اندر خورد نوازی کی صفت بھی ودیعت تھی، مجھے اس زمانے میں بھی بڑی شفقت سے نوازتے تھے جب میں بہت چھوٹا تھا، سلفیہ میں پڑھتے وقت یوں تو ہر طالب علم کی طرح میں بھی دور دور سے دیکھتا تھا، لیکن قریب سے ملنے کا اتفاق ۱۹۸۹ میں اس وقت ہوا جب میری طبیعت خراب ہوئی، اور والد محترم حفظہ اللہ ورعاہ کے ساتھ آپ کے گھر علاج کے لئے گیا۔
آپ ہر سال مدرسہ کے کام سے سعودی عرب آتے تھے، جب میں ۱۹۹۸ میں مدینہ آیا تو پابندی سے ہر سال رمضان میں دس دن آپ کے ساتھ گزارنے کا موقع ملتا تھا، وہاں آپ کو بہت قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا، آپ سے ملنے والا پہلے پہل یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ آپ اتنے اداروں کے ذمہ دار ہیں، ہر آدمی سے ایک عام انسان کی طرح ملتے، سب سے ان کے احوال وکوائف دریافت کرتے۔
آپ کی ایک بہت بڑی خوبی آپ کے مزاج کا اعتدال تھا، ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کی عزت کرتے تھے، لیکن اپنی فکر سے سمجوتہ کئے بغیر، یہ خوبی کم لوگوں میں پائی جاتی تھی۔
ابھی کچھ سالوں سے بہت کمزور ہو گئے تھے، لیکن اس کے باوجود مدرسہ کے کام کاج کو دیکھتے تھے، اور اپنے عزیزوں کو زیارت اور ملاقات کا موقع بھی دیتے تھے۔
آپ کے انتقال کے بعد دار العلوم، اور ہم جیسے بے شمار معتقدین کو آپ کی کمی کھلے گی۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی بشری لغزشوں کو درگزر فرمائے، آپ کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے، اور جنت الفردوس میں آپ کو اعلیٰ مقام عطا کرے آمین۔
عبداللہ محمد مشتاق