سوال       (101)

بعض لوگ “عبد الحنان” نام رکھتے ہیں، کیا “حَنان” اسمائے حسنی میں سے ہے؟

جواب:

یہ دو لفظ ہیں:

1۔”حَنَانٌ” ن پر شد کے بغیر۔ جس کا معنی ہے شفقت و رحمت، اور یہ رحمت، عظمت، قدرت وغیرہ کی طرح بطور صفت اللہ رب العالمین کے لیے ثابت ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے:

“وَ حَنَانًا مِّن لَّدُنَّا وَ زَکَاۃً”.[مریم : ۱۳]

’’ہم نے یحییٰ کو اپنی طرف سے رحمت و شفقت اور پاکیزگی عطا فرمائی‘‘۔

اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے:

“ثم يتحنَّن الله برحمته على مَن فيها، فما يترك فيها عبداً في قلبه مثقال حبة من إيمان إلا أخرجه منها”. [مسند احمد:11081]

’’اللہ تعالی اہل جہنم پر شفقت فرمائے گا اور جس کے دل میں ایک ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا، انہیں جہنم سے نکال لے گا‘‘۔

اس حدیث میں بھی صفت حنان کا ذکر ہے۔

2۔ ایک دوسرا لفظ ہے ’حَنّان’ بروزن فَعّال، ن پر شد کے ساتھ، اس کا مطلب ہے شفقت و رحمت کرنے والا۔ یہ بطور اسم اللہ رب العالمین کی ذات کے لیے ثابت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں بعض روایات ہیں، لیکن ضعیف ہیں۔

اسی طرح صفت سے اسم نکالنا بھی درست نہیں، کیونکہ اصول یہ ہے کہ ہر اسم صفت پر دلالت کرتا ہے، لیکن ہر صفت سے اسم نکالنا درست نہیں، مثلا عظیم، رحیم، کریم سے عظمت، رحمت، کرم جیسی صفات ثابت ہوتی ہیں، لیکن ارادہ، مشیئت، غضب وغیرہ سے نام بنانا درست نہیں ہیں، حالانکہ یہ صفات اللہ رب العالمین کے لیے ثابت ہیں۔

لہذا صحیح موقف تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ “الحنان” بطور نام ثابت نہیں، اس لیے “عبد الحنان” نام رکھنا بھی درست نہیں، لیکن چونکہ یہ مسئلہ اختلافی ہے، اور شاید اہل علم کچھ روایات (جن کو وہ قابل اعتبار سمجھتے ہوں گے) کی بنیاد پر اسے اسمائے حسنی میں شمار کرتے ہیں، اس وجہ سے اس بنیاد پر اگر کوئی نام رکھ لیتا ہے تو اسے معذور سمجھا جائے گا۔ ہمارے اہل حدیث کے معروف اور مرکزی ادارے جامعہ سلفیہ کے سینئر استاذ کا نام بھی “عبد الحنان” ہے، جنہیں لوگ ’مفتی عبد الحنان حفظہ اللہ‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ شفاہ اللہ وعافاہ۔

امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

(ومما يدعو به الناس خاصُّهم وعامُّهم، وإن لم تثبت به الرواية عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: الحنَّان) [الدعاء، ص:105]

اگرچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ثابت نہیں، لیکن اس کے باوجود خاص و عام “الحنان”نام کے وسیلے کے ساتھ دعا کرتے ہیں۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ