سوال (409)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“الْعَيْنُ حَقٌّ وَلَوْ كَانَ شَيْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْهُ الْعَيْنُ وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا”. [صحیح مسلم : 2188]

’’نظر حق (ثابت شدہ بات) ہے، اگر کوئی ایسی چیز ہوتی جو تقدیر پر سبقت لے جاسکتی تو نظرسبقت لے جاتی۔ اور جب (نظر بد کے علاج کےلیے) تم سے غسل کرنے کے لئے کہا جائے تو غسل کرلو‘‘۔
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

“لَا يَأْتِي ابْنَ آدَمَ النَّذْرُ بِشَيْءٍ لَمْ يَكُنْ قُدِّرَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ يُلْقِيهِ النَّذْرُ إِلَى الْقَدَرِ قَدْ قُدِّرَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَسْتَخْرِجُ اللَّهُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ، ‏‏‏‏‏‏فَيُؤْتِي عَلَيْهِ مَا لَمْ يَكُنْ يُؤْتِي عَلَيْهِ مِنْ قَبْلُ”. [صحيح البخاري : 6694]

’’نذر انسان کو کوئی ایسی چیز نہیں دیتی جو اس کے مقدر میں نہ ہو، البتہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ بخیل سے اس کا مال نکلواتا ہے اور اس طرح وہ چیزیں صدقہ کردیتا ہے جس کی اس سے پہلے اس کی امید نہیں کی جاسکتی تھی‘‘۔
ان دونوں احادیث میں صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ تقدیر پر سبقت لے جانے والی چیز نظر ہے ، صحیح البخاری کی روایت میں ہے کہ نذر سے تقدیر نہیں بدلتی ہے ۔ ان دونوں احادیث کی وضاحت فرمائیں ۔

جواب

«اگر تقدیر الہٰی بر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی، تو وہ نظر ہوتی» اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کا ہر کام تقدیر الہی سے ہوتا ہے، لہذا بڑے سے بڑے کام میں بھی جب تک تقدیر الہی شامل نہ ہو، تو وہ سرانجام نہیں پا سکتا ہے ، گویا کوئی چیز بھی تقدیر کے دائرہ کار سے باہر نہیں ہے، لہذا اگر بالفرض کوئی چیز ایسی طاقت رکھ سکتی کہ وہ تقدیر الہی کے دائرہ کو توڑ کر نکل جاتی، تو وہ نظر ہو سکتی تھی، لیکن نظر باوجود اس قدر مؤثر ہونے کے، وہ بھی تقدیر کو نہیں پلٹ سکتی ہے۔
نیز حدیث بالا میں یہ جملہ بھی ہے: «جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے، تو دھو دو» اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت عرب میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کو نظر لگتی تھی، اس کے ہاتھ پاؤں اور زیر ناف حصے کو دھو کر وہ پانی اس شخص پر ڈالتے تھے، جس کو نظر لگتی تھی اور اس چیز کو شفا کا ذریعہ سمجھتے تھے، اس کا سب سے ادنیٰ فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اس ذریعہ سے مریض کا وہم دور ہو جاتا تھا، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی اور فرمایا کہ اگر تمہاری نظر کسی کو لگ جائے اور تم سے تمہارے اعضاء دھو کر مریض پر ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے تو اس کی فرمائش کو پورا کرلو، ویسے تو تمام اموات ہی قضاء الٰہی سے ہوتی ہیں، تاہم نظر کی وجہ سے بھی بہت سی اموات ہو جاتی ہیں، موت کے دوسرے اسباب میں سے زیادہ تر نظر لگنے کا اثر ہوتا ہے ، اونٹ کا ہنڈیا میں پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ جب اونٹ کو نظر لگتی ہے، تو وہ بیمار ہو جاتا ہے، تو اونٹ کا مالک اس کو مرنے سے پہلے ذبح کر کے حلال کر لیتا ہے، اور اونٹ کا گوشت ہنڈیا میں پکنے کے لیے پہنچ جاتا ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

صحیح مسلم کی حدیث میں نظر کا ذکر ہے،حدیث کی وضاحت شیخ کامران صاحب نے کردی ہے۔ اور صحیح بخاری والی حدیث نذر یعنی (منت) سے متعلق ہے، یعنی نذر ماننے کے بعد جو کام ہوجاتا ہے تو وہ بھی تقدیر میں ہی لکھا ہوتا ہے اور یہ بھی تقدیر ہی ہے کہ بندے نے نذر مانی اور کام ہو گیا ہے ۔ دونوں حدیثوں میں تقدیر کے حوالے سے کوئی تضاد نہیں ہے ۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ