سوال (2975)
سنن الترمذی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری حصے میں ترک رفع الیدین کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن مسعود کی کوئی روایت ہے؟ اگر ہے تو اس کا حکم کیا ہے؟
جواب
روایت تو ہے، لیکن ضعیف ہے۔ محدثین کے پیمانے پر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ضعیف ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے، امام ابوداؤد نے بھی ضعیف کہا ہے، عبداللہ بن مبارک نے بھی ضعیف کہا ہے، باقی امام ترمذی کی حسن وہ حسن نہیں ہے جو مقبول ہوتی ہے، احناف میں سے بھی اکثر رفع الیدین کے قائل ہیں، امام ترمذی رحمہ اللہ بھی رفع الیدین کرتے تھے، باقی اس موضوع پر کئی علماء نے کتابیں لکھی ہیں، ان کتابوں کو ایک دفعہ دیکھ لیں، تمام دلائل مل جائیں گے۔ جیسا کہ نور العینین وغیرہ
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
شیخنا محدثین کو دلیل بنائیں اگر تو جو رفع الیدین کے قائل نہیں تھے، ان میں امام ترمذی بھی موجود تھے، آپ کیا فرماتے ہیں، کیا ہم اس میں نرمی اختیار نا کریں؟
دوسری التماس ابن مسعود کی روایت کو آپ فرما رہے ہیں محدثین نہیں مانتے یعنی ضعیف کہتے ہیں تو جو اس کو حسن درجہ دیتے ہیں، اور ساتھ کرنے نا کرنے کا جواز نکالتے ہیں، کیا خیال ہے ہمارا مؤقف بھی ایسا ہی نہیں ہونا چاہیے؟
اختلافات کی بات کی جائے تو میرے خیال میں اہلحدیث محدثین اور قریبی مشائخ علماء و مدرسین ایک مجلس میں 3 طلاق کے قائل ہیں، رفع الیدین میں نرمی ہے، نکاح میں ولی کا ہونا نہ ہونا اس پر جواز موجود ہے، داڑھی کے مسائل میں ترمیم، خیر کئی ایک مسائل پر ان کا اتفاق ہے، لیکن ایسا کیوں ہے کہ جو بات قرآن و حدیث سے مخالف ہو، اس پر بھی میں نے اہل حدیث علماء و مشائخ کو متفق ہوتے ہوئے دیکھا؟
فضیلۃ الباحث حمزہ مدنی حفظہ اللہ
شیخ محترم میرے خیال میں اس معاملے میں مندرجہ ذیل دو انتہائیں پائی جاتی ہیں۔
(1) پہلی یہ کہ میں ہی صرف صحیح ہوں باقی سارے غلط ہیں۔
(2) دوسری یہ کہ سارے ہی صحیح ہیں جیسے مرضی کرتے رہیں۔
درمیانی صورت وہی ہے، جو ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بیان کی ہے کہ آپ کو اپنا پتا ہے تو آپ کہ سکتے ہیں، میں بھی صحیح ہوں، باقیوں کا علم نہیں، ان میں کچھ صحیح ہو سکتے ہیں، کچھ غلط ہو سکتے ہیں، وہ ان کی تحقیق پہ منحصر ہے، اگر وہ اپنی تحقیق کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں (مثلا رفع الیدین نہیں کرتے) تو اجتہادی لحاظ سے غلط ہوتے ہوئے بھی اخروی لحاظ سے درست ہو سکتے ہیں، البتہ اگر وہ تحقیق کے خلاف عمل کرتے ہیں مثلا تمام دلائل کو دیکھنے کے بعد کوئی یہ سمجھتا ہے کہ رفع الیدین کرنا ہی بہتر ہے اور پھر بھی نہیں کرتا تو وہ غلط ہی ہوگا، پس چونکہ ہمیں یہ نہیں علم ہوتا کہ مخاطب کے دل میں کیا ہے، کیا وہ اپنی تحقیق کے مطابق عمل کر رہا ہے یا نہیں تو ہم اس کو اخروی لحاظ سے غلط نہیں کہ سکتے البتہ اجتہادی لحاظ سے اسکو غلط کہنا تو متفق علیہ بات ہی ہے۔
لیکن یہ اجتہادی وسعت دینا صرف ان معاملات میں ہوگی، جن میں سلف صالحین میں اختلاف رہا ہے، پس جن میں سلف صالحین میں کوئی اختلاف نہیں رہا۔ مثلا جیسے کچھ رافضی و مشرکانہ و غامدی عقائد وغیرہ تو وہاں یہ وسعت نہیں ہوگی واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ
اللہ آپ کو عزت دے، میرا بھی یہی خیال ہے، جو ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے فرمایا، لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ میں لوگوں کو بازار میں کھڑا کر کے کہوں کہ بھائی کرو نہ کرو ایک بات ہے، میں کہتا ہوں ہمارے فتوے بڑے سخت ہیں، حدیث کی مخالفت پر تو ہم خاموش نہیں ہونگے، مگر جب احادیث میں گنجائش ہوگی تو ہمیں بھی گنجائش سمیت جواب دینا چاہیے۔
فضیلۃ الباحث حمزہ مدنی حفظہ اللہ
امام ترمذی رحمہ خود رفع الیدین کرنے والوں میں شمار ہیں، میں نے وضاحت کردی ہے، اس کے ساتھ کتب ستہ کے مصنفین اور ائمہ اربعہ رفع الیدین کے قائل ہیں، صحیح سند سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بھی ترک ثابت نہیں ہے، باقی رفع الیدین کو منسوخ کہنا یہ عجیب بات ہے جو آج سے پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا، باقی امام ترمذی رحمہ اللہ کا تحسین کرنا، یہ تحسین وہ نہیں ہے جو مقبول ہو، امام ترمذی رحمہ اللہ ضعیف کو بھی حسن کہہ دیتے ہیں، یہ بھی ایک اصول ہے، اس کو بھی یاد رکھنا چاہیے، ہم یہ کہتے ہیں کہ جس نے تحقیق مکمل کی ہے، وہ اس نتیجے میں پہنچا ہے کہ نہ کرنے کی گنجائش ہے، پھر وہ جانے اور اس کا رب جانے، لیکن اس مسئلے کی تحقیق بڑی دیانت سے ہوچکی ہے، اب بھی کوئی بندہ نہیں کرتا ہے، اس کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔
باقی یہ یاد رکھیں کہ افراد میں اختلاف یہ ایک الگ چیز ہے، لیکن من حیث الجماعہ جو اہل حدیث کو موقف ہے، وہ بالکل واضح ہے، کتاب و سنت علی منھج سلف میں جمہور کو دیکھا جاتا ہے، تفرد کو نہیں دیکھا جاتا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
کتاب سے پہلے صاحب کتاب کا منہج اور کتاب کے بارے اصول ومنہج اور اسلوب وتعارف جاننا ضروری ہے، امام ترمذی کے منہج واسلوب اصطلاحات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ائمہ محدثین نے ہر روایت کو بطور حجت ودلیل کے نقل نہیں کیا ہوتا ہے بلکہ انہوں نے معرفت وپہچان اور دیانت علمی کے طور پر نقل اور بیان کیا ہوتا ہے اور پھر الگ سے رجال پر کتب، سند وتخریج وعلل کے فنون وعلوم پر کتب مرتب کر دی ہوئی ہیں، عدم رفع الیدین پر کوئی بھی روایت ثابت نہیں ہے، سنن ترمذی کا اس مسئلہ پر خاص باب پڑھیے تو معلوم ہو جائے گا، حدیث ابن مسعود رضی الله عنہ کو تو ائمہ علل کی جماعت نے ضعیف ومعلول قرار دے رکھا ہے، منکرین رفع الیدین یا تو ضعیف و معلول روایات پیش کرتے ہیں یا وہ روایات جن میں عدم ذکر ہے اور یہ معلوم ہے کہ عدم ذکر نفی ذکر کو مستلزم نہیں ہے، آپ ان کتب کی طرف رجوع کریں جن میں عدم رفع الیدین والی روایات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ثقہ علماء میں سے کون ہیں جنہوں نے حسن قرار دیا ہے۔؟؟
امام ترمذی نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے، پہلے امام ترمذی کے منہج کو جاننے کی ضرورت ہے، امام بخاری کی جز رفع الیدین پڑھیں، بعض جہلاء نے جزء رفع الیدین پر جو عدم رفع الیدین کے نام پر کام کیا ہے، وہ علمی و تحقیقی میزان میں کچھ اہمیت نہیں رکھتا ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ