سوال (5961)
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: ابْغُونِي الضُّعَفَاءَ، فَإِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنصَرُونَ بِضُعَفَائِكُمْ. (نسائي، رقم الحديث: 3181ٗٗ)
حضرت ابو درداء ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: میرے پاس کسی ضعیف شخص کو تلاش کر کے لاؤ، کیونکہ ان ضعیف و کمزور لوگوں کی وجہ سے تمہیں رزق ملتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے (یعنی اللہ تعالی انہیں رزق پہنچانے کیلئے تمہیں بھی رزق دے دیتا ہے اور ان کے بھلے کیلئے تمہاری مدد بھی کرتا ہے )۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
جواب
جی یہ حدیث صحیح ہے۔
ﻋﻦ ﺟﺒﻴﺮ ﺑﻦ ﻧﻔﻴﺮ اﻟﺤﻀﺮﻣﻲ، ﺃﻧﻪ ﺳﻤﻊ ﺃﺑﺎ اﻟﺪﺭﺩاء، ﻳﻘﻮﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻝ: اﺑﻐﻮﻧﻲ اﻟﻀﻌﻴﻒ، ﻓﺈﻧﻜﻢ ﺇﻧﻤﺎ ﺗﺮﺯﻗﻮﻥ ﻭﺗﻨﺼﺮﻭﻥ ﺑﻀﻌﻔﺎﺋﻜﻢ،
جبیر بن نفیر سے روایت ہے کہ بے شک انہوں نے سیدنا ابو درداء رضی الله عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرماتے تھے مجھے اپنے ضعیفوں اور کمزوروں میں تلاش کرو، اس لیے کہ تم اپنے ضعیفوں اور کمزوروں کی (دعاؤں کی برکت کی) وجہ سے رزق دیئے جاتے ہو اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔
سنن نسائی: (3179)، سنن أبو داود: (2594)، سنن ترمذی:(1702)، صحیح ابن حبان: (4767)، مسند أحمد بن حنبل: (21731)، المخلصيات: 2/ 208 (1374)، مستدرک حاکم: (2509۔ ،2641) صحيح
اس حدیث پر امام ابن حبان نے یوں عنوان قائم کیا ہے۔
ﺫﻛﺮ اﺳﺘﺤﺒﺎﺏ اﻻﻧﺘﺼﺎﺭ ﺑﻀﻌﻔﺎء اﻟﻤﺴﻠﻤﻴﻦ ﻋﻨﺪ ﻗﻴﺎﻡ اﻟﺤﺮﺏ ﻋﻠﻰ ﺳﺎﻕ،
امام بیھقی نے یوں عنوان قائم کیا ہے۔
ﺑﺎﺏ اﺳﺘﺤﺒﺎﺏ اﻟﺨﺮﻭﺝ ﺑﺎﻟﻀﻌﻔﺎء ﻭاﻟﺼﺒﻴﺎﻥ ﻭاﻟﻌﺒﻴﺪ ﻭاﻟﻌﺠﺎﺋﺰ، السنن الكبرى للبيهقى: (6388)
ایک دوسری حدیث پر توجہ کریں جس سے اس حدیث کا معنی وتفسیر واضح ہو جائے گی۔
ﻋﻦ ﻣﺼﻌﺐ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﺃﻧﻪ ﻇﻦ ﺃﻥ ﻟﻪ ﻓﻀﻼ ﻋﻠﻰ ﻣﻦ ﺩﻭﻧﻪ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻓﻘﺎﻝ ﻧﺒﻲ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺇﻧﻤﺎ ﻳﻨﺼﺮ اﻟﻠﻪ ﻫﺬﻩ اﻷﻣﺔ ﺑﻀﻌﻴﻔﻬﺎ، ﺑﺪﻋﻮﺗﻬﻢ ﻭﺻﻼﺗﻬﻢ ﻭﺇﺧﻼﺻﻬﻢ، سنن نسائی: (3178) صحیح
ﻗﺎﻝ اﻟﺴﻨﺪﻱ: ﻣﻦ ﺑﻐﻰ ﻛﺮﻣﻰ، ﺃﻭ ﺃﺑﻐﻰ، ﺃﻱ: اﻃﻠﺒﻮا ﻟﻲ، ﻭﺃﻋﻴﻨﻮﻧﻲ ﻋﻠﻰ ﻃﻠﺒﻬﻢ، ﻭاﻟﻤﻘﺼﻮﺩ ﻭاﺣﺪ، ﻭﻫﻮ ﺃﻧﻬﻢ ﻫﻢ اﻷﺣﻘﺎء ﺑﻤﺠﺎﻟﺴﺘﻲ، ﻭﺑﺎﻟﻘﺮﺏ ﻣﻨﻲ، ﻗﺎﻝ ﺗﻌﺎﻟﻰ: (ﻳﺒﻐﻮﻧﻜﻢ اﻟﻔﺘﻨﺔ) [ اﻟﺘﻮﺑﺔ: 47]
ﺃﻱ: ﻳﻄﻠﺒﻮﻥ ﻟﻜﻢ اﻟﻔﺘﻨﺔ. موسوعہ حدیثیہ/ مسند أحمد بن حنبل 36/ 61(21731)
یہی حدیث صحیح البخاری میں ان الفاظ سے ہے۔
ﻋﻦ ﻣﺼﻌﺐ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ، ﻗﺎﻝ: ﺭﺃﻯ ﺳﻌﺪ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﺃﻥ ﻟﻪ ﻓﻀﻼ ﻋﻠﻰ ﻣﻦ ﺩﻭﻧﻪ، ﻓﻘﺎﻝ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻫﻞ ﺗﻨﺼﺮﻭﻥ ﻭﺗﺮﺯﻗﻮﻥ ﺇﻻ ﺑﻀﻌﻔﺎﺋﻜﻢ، صحیح البخاری:(2896)
اس حدیث پر امام بخاری نے یوں عنوان قائم کیا ہے۔
ﺑﺎﺏ ﻣﻦ اﺳﺘﻌﺎﻥ ﺑﺎﻟﻀﻌﻔﺎء ﻭاﻟﺼﺎﻟﺤﻴﻦ ﻓﻲ اﻟﺤﺮﺏ،
حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا:
ﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﺑﻄﺎﻝ: ﺗﺄﻭﻳﻞ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺃﻥ اﻟﻀﻌﻔﺎء ﺃﺷﺪ ﺇﺧﻼﺻﺎ ﻓﻲ اﻟﺪﻋﺎء، ﻭﺃﻛﺜﺮ ﺧﺸﻮﻋﺎ ﻓﻲ اﻟﻌﺒﺎﺩﺓ ﻟﺨﻼء ﻗﻠﻮﺑﻬﻢ ﻋﻦ اﻟﺘﻌﻠﻖ ﺑﺰﺧﺮﻑ اﻟﺪﻧﻴﺎ.
ﻭﻗﺎﻝ اﻟﻤﻬﻠﺐ: ﺃﺭاﺩ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﺬﻟﻚ ﺣﺾ ﺳﻌﺪ ﻋﻠﻰ اﻟﺘﻮاﺿﻊ ﻭﻧﻔﻲ اﻟﺰﻫﻮﻋﻠﻰ ﻏﻴﺮﻩ، ﻭﺗﺮﻙ
اﺣﺘﻘﺎﺭ اﻟﻤﺴﻠﻢ ﻓﻲ ﻛﻞ ﺣﺎﻟﺔ. فتح الباری: 6/ 89
اس کے بعد موسوعہ حدیثیہ کے محققین نے یوں تعلیق لگائی ہے۔
ﺛﻢ ﺃﻭﺭﺩ اﻟﺤﺎﻓﻆ ﺣﺪﻳﺚ “اﻟﻤﺴﻨﺪ” ﻭﺟﻤﻊ ﺑﻴﻨﻪ ﻭﺑﻴﻦ ﺣﺪﻳﺚ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻭﻗﺎﻝ: ﻓﺎﻟﻤﺮاﺩ ﺑﺎﻟﻔﻀﻞ ﺇﺭاﺩﺓ اﻟﺰﻳﺎﺩﺓ ﻣﻦ اﻟﻐﻨﻴﻤﺔ، ﻓﺄﻋﻠﻤﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻥ ﺳﻬﺎﻡ اﻟﻤﻘﺎﺗﻠﺔ ﺳﻮاء، ﻓﺈﻥ ﻛﺎﻥ اﻟﻘﻮﻱ ﻳﺘﺮﺟﺢ ﺑﻔﻀﻞ ﺷﺠﺎﻋﺘﻪ، ﻓﺈﻥ اﻟﻀﻌﻴﻒ ﻳﺘﺮﺟﺢ ﺑﻔﻀﻞ ﺩﻋﺎﺋﻪ ﻭﺇﺧﻼﺻﻪ. مسند أحمد بن حنبل: 3/ 87
شرح صحیح البخاری لابن بطال میں ہے۔
ﺫﻛﺮ اﻟﻨﺴﺎﺋﻰ ﺯﻳﺎﺩﺓ ﻓﻰ ﺣﺪﻳﺚ ﺳﻌﺪ ﻳﺒﻴﻦ ﺑﻬﺎ ﻣﻌﻨﺎﻩ ﻓﻴﻘﺎﻝ ﻓﻴﻪ: (ﻫﻞ ﺗﻨﺼﺮﻭﻥ ﻭﺗﺮﺯﻗﻮﻥ ﺇﻻ ﺑﻀﻌﻔﺎﺋﻜﻢ ﺑﺼﻮﻣﻬﻢ ﻭﺻﻼﺗﻬﻢ ﻭﺩﻋﺎﺋﻬﻢ) ﻭﺗﺄﻭﻳﻞ ﺫﻟﻚ ﺃﻥ ﻋﺒﺎﺩﺓ اﻟﻀﻌﻔﺎء ﻭﺩﻋﺎءﻫﻢ ﺃﺷﺪ ﺇﺧﻼﺻﺎ ﻭﺃﻛﺜﺮ ﺧﺸﻮﻋﺎ؛ ﻟﺨﻼء ﻗﻠﻮﺑﻬﻢ ﻣﻦ اﻟﺘﻌﻠﻖ ﺑﺰﺧﺮﻑ اﻟﺪﻧﻴﺎ ﻭﺯﻳﻨﺘﻬﺎ ﻭﺻﻔﺎء ﺿﻤﺎﺋﺮﻫﻢ ﻣﻤﺎ ﻳﻘﻄﻌﻬﻢ ﻋﻦ اﻟﻠﻪ ﻓﺠﻌﻠﻮا ﻫﻤﻬﻢ ﻭاﺣﺪا؛ ﻓﺰﻛﺖ ﺃﻋﻤﺎﻟﻬﻢ، ﻭﺃﺟﻴﺐ ﺩﻋﺎﺅﻫﻢ ﻗﺎﻝ اﻟﻤﻬﻠﺐ: ﺇﻧﻤﺎ ﺃﺭاﺩ (ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ) ﺑﻬﺬا اﻟﻘﻮﻝ ﻟﺴﻌﺪ اﻟﺤﺾ ﻋﻠﻰ اﻟﺘﻮاﺿﻊ ﻭﻧﻔﻰ اﻟﻜﺒﺮ ﻭاﻟﺰﻫﻮ ﻋﻦ ﻗﻠﻮﺏ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ. ﻓﻔﻴﻪ ﻣﻦ اﻟﻔﻘﻪ ﺃﻥ ﻣﻦ ﺯﻫﺎ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﻫﻮ ﺩﻭﻧﻪ ﺃﻧﻪ ﻳﻨﺒﻐﻰ ﺃﻥ ﻳﺒﻴﻦ ﻣﻦ،
ﻓﻀﻠﻪ ﻣﺎ ﻳﺤﺪﺙ ﻟﻪ ﻓﻰ ﻧﻔﺲ اﻟﻤﺰﻫﻮ ﻣﻘﺪاﺭا ﺃﻭ ﻓﻀﻼ ﺣﺘﻰ ﻻ ﻳﺤﺘﻘﺮ ﺃﺣﺪا ﻣﻦ اﻟﻤﺴﻠﻤﻴﻦ؛ ﺃﻻ ﺗﺮﻯ ﺃﻥ اﻟﺮﺳﻮﻝ ﺃﺑﺎﻥ ﻣﻦ ﺣﺎﻝ اﻟﻀﻌﻔﺎء ﻣﺎ ﻟﻴﺲ ﻷﻫﻞ اﻟﻘﻮﺓ ﻭاﻟﻐﻨﺎء ﻓﺄﺧﺒﺮ ﺃﻥ ﺑﺪﻋﺎﺋﻬﻢ ﻭﺻﻼﺗﻬﻢ ﻭﺻﻮﻣﻬﻢ ﻳﻨﺼﺮﻭﻥ. ﻭﺫﻛﺮ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﻋﻦ ﻣﻜﺤﻮﻝ ﺃﻥ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻰ ﻭﻗﺎﺹ ﻗﺎﻝ: (ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، ﺃﺭﺃﻳﺖ ﺭﺟﻼ ﻳﻜﻮﻥ ﺣﺎﻣﻴﺔ اﻟﻘﻮﻡ ﻭﻳﺪﻓﻊ ﻋﻦ ﺃﺻﺤﺎﺑﻪ ﻟﻴﻜﻮﻥ ﻧﺼﻴﺒﻪ ﻛﻨﺼﻴﺐ ﻏﻴﺮﻩ؟ ﻓﻘﺎﻝ اﻟﻨﺒﻰ (ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ): ﺛﻜﻠﺘﻚ ﺃﻣﻚ ﻳﺎ اﺑﻦ ﺃﻡ ﺳﻌﺪ، ﻭﻫﻞ ﺗﻨﺼﺮﻭﻥ ﻭﺗﺮﺯﻗﻮﻥ ﺇﻻ ﺑﻀﻌﻔﺎﺋﻜﻢ). ﻓﻴﻤﻜﻦ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻫﺬا اﻟﻤﻌﻨﻰ اﻟﺬﻯ ﻟﻢ ﻳﺬﻛﺮﻩ اﻟﺒﺨﺎﺭﻯ ﻓﻰ ﺣﺪﻳﺚ ﺳﻌﺪ اﻟﺬﻯ ﺭﺃﻯ ﺑﻪ اﻟﻔﻀﻞ ﻟﻨﻔﺴﻪ ﻋﻠﻰ ﻣﻦ ﺩﻭﻧﻪ ﻭاﻟﻠﻪ ﺃﻋﻠﻢ، شرح صحیح البخاری لابن بطال: 5/ 90 ،91
اس حدیث کی شرح و فوائد میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر مقصود وبیان واضح ہو چکا ہے تفصیل کا طالب کتب شروحات کی طرف رجوع کرے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ




