حافظ ابن حجر اور حافظ سیوطی رحمہما اللہ کے قول سے عید میلاد النبی کے جواز پر استدلال کی حقیقت

محترم قارئین: شریعت اسلامیہ نے پوری امت کو کتاب وسنت اور فہم سلف سے جوڑا ہے، چنانچہ جن چیزوں کا وجود کتاب وسنت میں نہیں ہے، یا تعامل سلف اس کے بر عکس ہے شریعت نے اس سے تحذیر کی ہے، اور ایک قاعدہ مقرر کیا ہے کہ

“من عمل عملا لیس عليه أمرنا فهو ردٌّ”.

[صحیح مسلم (١٧١٨)] .
جس عمل پر کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو وہ مردود ہے.
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“كلُّ عبادة لم يتعبَّد بها أصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، فلا تتعبَّدوا بها؛ فإن الأول لم يدع للآخر مقالًا”.

[الاعتصام (٢/٦٣٠)].
جن عبادتوں کو صحابہ کرام نے انجام نہیں دیا تم بھی ان عبادتوں کو نہ کرو، کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے آنے والوں کے لئے کسی قسم کے اضافے کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے.
امام دار الہجرۃ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ

“لن یصلح آخر هذه الأمة الا وبما صلح به أولها”.

[اقتضاء الصراط (ص: ٣٦٧)].
ملت اسلامیہ کی اصلاح اسی وقت ممکن ہے جب وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے طریقے کو اپنا لے.
وقال الإمام الشافعي رحمه الله:

“كلُّ من تكلَّم بكلام في الدين، أو في شيء من هذه الأهواء، ليس له فيه إمام متقدم من النبي صلى الله عليه وآله وسلم وأصحابه – فقد أحدث في الإسلام حدثًا”.

[الانتصار لأصحاب الحديث (ص: 7)].

جو شخص دین کے سلسلے میں ایسی بات کہے جس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے نہیں ملتی ہے تو اس نے اسلام میں ایک نئی بدعت کو جنم دیا.
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ

:”أترى الناس اليوم أرغبَ في الخير ممن مضى؟”.

[الموافقات (٣ / ٢١٣)] .
کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ سلف کے مقابلے میں نیکی کو انجام دینے کی رغبت آج کے لوگوں میں زیادہ ہے؟

رہی بات حافظ ابن حجر اور حافظ سیوطی رحمہما اللہ کے جواز کے قائل ہونے کی تو آپ خود ان کا کلام ملاحظہ فرمائیں اور پھر فیصلہ کریں:
حافظ سیوطی فرماتے ہیں:

” سئل شيخ الإسلام حافظ العصر أبو الفضل ابن حجر عن عمل المولد، فأجاب بما نصه : أصل عمل المولد بدعة ، لم تنقل عن أحد من السلف الصالح من القرون الثلاثة، ولكنها مع ذلك قد اشتملت على محاسن وضدها، فمن تحرى في عملها المحاسن ، وتجنب ضدها : كان بدعة حسنة ؛ وإلا فلا .
قال: وقد ظهر لي تخريجها على أصل ثابت، وهو ما ثبت في الصحيحين من أن النبي صلى الله عليه وسلم قدم المدينة، فوجد اليهود يصومون يوم عاشوراء، فسألهم فقالوا: هو يوم أغرق الله فيه فرعون، ونجى موسى؛ فنحن نصومه شكرا لله تعالى.
وعلى هذا: فينبغي أن يتحرى اليوم بعينه حتى يطابق قصة موسى في يوم عاشوراء، ومن لم يلاحظ ذلك: لا يبالي بعمل المولد في أي يوم من الشهر، بل توسع قوم فنقلوه إلى يوم من السنة، وفيه ما فيه.
فهذا ما يتعلق بأصل عمله.

[الحاوي للفتاوي (١/ ٢٢٩)] .
ترجمہ: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے عید میلاد النبی کے تعلق سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ: اصل میں عید میلاد النبی بدعت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد تین صدیوں تک کسی بھی سلف سے یہ عمل منقول نہیں ہے، لیکن عید میلاد النبی کے اندر کچھ اچھائیاں اور کچھ برائیاں بھی ہیں، چنانچہ جس نے اس دن اچھائیوں کو انجام دیا اور برائیوں سے بچنے کی کوشش کی تو یہ بدعت حسنہ شمار کی جائے گی، پھر کہتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے عید میلاد النبی منانے کا استدلال عاشوراء کے روزے سے کیا جا سکتا ہے، یہود اس دن اس لئے روزہ رکھتے تھے کیوں کہ اللہ رب العالمين نے فرعون کو ہلاک کیا تھا اور موسی علیہ الصلاۃ والسلام کو نجات عطا کی تھی.
چنانچہ مناسب یہ کہ عید میلاد النبی اسی دن منائی جائے جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت ہوئی تھی، تاکہ موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے قصہ سے مطابقت ہوجائے، کیوں کہ ان کی نجات کے شکرانے میں روزہ بعینہ اسی دن رکھا جاتا تھا جس دن انہیں نجات ملی تھی، جو نبی کی ولادت کے دن کا اعتبار نہیں کرتا اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ مہینے میں کس دن نبی کی ولادت کا جشن منائے، اور بعض لوگوں نے تو اس مسئلے میں اس قدر توسع سے کام لیا کہ اسے سال میں ایک دن کے ساتھ خاص کر دیا.
محترم قارئین: ابن حجر رحمہ اللہ کے اس کلام میں غور کرنے کے بعد مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں.
° عید میلاد النبی بدعت ہے.
° نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے سے لیکر تین صدیوں تک اس کا ثبوت نہیں ملتا.
° عید میلاد النبی کو بدعت حسنہ میں شمار کیا جائے گا.
° عید میلاد النبی بعینہ اسی دن منائی جائے گی جس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت ہوئی .
° یہ ابن حجر رحمہ اللہ کا اپنا اجتہاد ہے جیسا کہ خود ان کے قول سے ظاہر ہے.
قارئین کرام: ابن حجر رحمہ اللہ کے کلام میں تناقض ہے، کیونکہ ایک طرف وہ اس عمل کو بدعت کہہ رہے ہیں، نیز سلف کے زمانے میں معدوم بھی کہہ رہے ہیں، اس کے باوجود جواز کا فتوی دے رہے ہیں تو یہ تناقض ہی کہلا سکتا ہے.
دوسری طرف وہ اس عمل کو بدعت حسنہ میں شمار کر ہے ہیں، جبکہ شریعت نے ہر قسم کی بدعت کو گمراہی قرار دیا ہے:
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

((كل بدعة ضلالة)).

[سنن ابو داؤد (٢١١٨)].
ہر بدعت گمراہی ہے.

اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما* نے فرمایا:

” كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة”.

[الإبانة لابن بطة (١/ ٣٣٩)].
ہر بدعت گمراہی ہے، گرچہ لوگ اسے اچھا سمجھیں.
اور امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

“من ابتدع في الإسلام بدعة يراها حسنة فقد زعم أن محمداً خان الرسالة؛ لأن الله يقول {اليوم أكملت لكم دينكم} فما لم يكن يومئذ ديناً فلا يكون اليوم ديناً”.

[الاعتصام (١/٢٨)].
جس نے دین اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کی اور اسے وہ اچھا سمجھتا ہے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر خیانت کا الزام لگاتا ہے، کیوں کہ اللہ رب العالمين نے فرمایا کہ میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے، چنانچہ جو عبادت نبی کے زمانے میں دین کا حصہ نہیں تھی وہ آج بھی دین کا حصہ نہیں بن سکتی.

اور امام شاطبی رحمہ اللہ بدعت حسنہ اور سیئہ کی تقسیم پر رد کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

“أن هذا التقسيم أمر مخترع، لا يدل عليه دليل شرعي، بل هو نفسه متدافع، لأن من حقيقة البدعة أن لايدل عليها دليل شرعي، لا من نصوص الشرع، ولا من قواعده، إذ لو كان هنالك ما يدل من الشرع على وجوب أو ندب أو إباحة; لما كان ثم بدعة”.

[الاعتصام (١/٢٤٦)].
بدعت کی تقسیم کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، کیوں کہ بدعت کی حقیقت یہی ہے کہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی، اور نا ہی شرعی نصوص کسی بدعت کی تائید کرتے ہیں اور نہ قواعد شرعیہ اس کی حمایت میں ہوتے ہیں، اگر بدعت کی کوئی دلیل ہوتی تو وہ بدعت ہوتا ہی نہیں.

اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ومن تعبد بعبادة ليست واجبة ولا مستحبة؛ وهو يعتقدها واجبة أو مستحبة فهو ضال مبتدع بدعة سيئة لا بدعة حسنة باتفاق أئمة الدين فإن الله لا يعبد إلا بما هو واجب أو مستحب.

[مجموع الفتاوى (١/١٦٠)].
جس نے کوئی ایسی عبادت انجام دی جو نہ شرعی طور پر واجب ہے اور نہ ہی مستحب ہے، اور ایسا کرنے والا گمراہ ہے، اور ائمہ کا اتفاق ہے کہ وہ عمل بدعت سیئہ ہے نہ کہ بدعت حسنہ، عبادت کیلئے ضروری ہے کہ شرعی طور پر وہ واجب یا مستحب ہو.
اس مسئلے میں شرعی نصوص بالکل واضح ہیں، اسی طرح عید میلاد النبی کے بدعت ہونے کے سلسلے میں میں سلف کا تعامل اور علمائے امت کے اقوال بالکل صریح ہیں جن میں کوئی پیچیدگی نہیں، اس کے باوجود ابن حجر اور سیوطی رحمہما اللہ کے قول سے عید میلاد النبی کی بدعت کے جواز پر استدلال کرنا بالکل درست نہیں کیوں کہ، جہاں ابن حجر اور سیوطی رحمہما اللہ ایک محدود دائرہ میں اس کے جواز کے قائل ہیں وہیں جمہور علماء اس کی بدعیت کے قائل ہیں، تو پھر ابن حجر اور سیوطی رحمہما اللہ کے مقابلے میں جمہور امت کی بات کیوں نہیں مانی جائے گی؟
نیز یہ کہ خود ابن حجر رحمہ اللہ اس کی بدعیت کے قائل ہیں، اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس بدعت کا وجود خیر القرون میں سلف کے درمیان موجود نہیں تھا، پھر بھی ابن حجر رحمہ اللہ کے موقف کو ماننے پر اصرار کرنا سمجھ سے پرے ہے، اس کے باوجود اگر کوئی یہ کہے کہ ابن حجر اور سیوطی رحمہما اللہ بڑے محقق ہیں اس لئے ہم ان کی مان رہے ہیں تو انہیں چاہئے کہ ابن حجر اور امام سیوطی رحمہما اللہ نے صفات باری تعالیٰ کی جو تاویل کی ہے کیا وہ بھی ان صفات کی تاویل کریں گے جس سے تعطیل لازم آتا ہو، اور یہی دلیل دیں گے کہ وہ دونوں بڑے محقق ہیں؟
جیسے یہ دونوں بڑے محقق ہیں ویسے دیگر وہ علماء بھی محقق ہیں جنہوں نے عید میلاد النبی کو بدعت کہا ہے، اس لئے ہم اس مسئلے شرعی ضابطے پر پرکھیں گے اور جو نتیجہ نکلے گا ہم اسے مانیں گے، چنانچہ شرعی ضابطہ یہی ہے کہ جس نیکی کے کرنے کے اسباب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں پائے گئے ہوں اور کسی قسم کی کوئی رکاوٹ بھی نہیں رہی ہو اس کے باوجود اس عمل کو انجام نہیں دیا گیا یا ادا کی ترغیب نہیں ملی تو وہ بدعت کہلائے گا. واللہ اعلم بالصواب

ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ