سوال (5309)
چہرے کے بالوں کو نکالنا یا آئی برو بنوانا، اور خاص طور پر آئی برو کے درمیانی بالوں کو نکالنا، نیز جسم کے دوسرے حصوں جیسا کہ پاؤں اور ہاتھوں وغیرہ کے بال ہٹانا، کیا شرعاً درست ہے؟ رہنمائی فرما دیں۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
ابرو/بھنووں کے بالوں کو خوبصورتی کے لیے باریک کروانا یا اکھیڑنا شرعاً حرام اور ناجائز ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے بلکہ ایسے عمل کو باعثِ لعنت قرار دیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
حاجبین (ابرو) کے بال اکھاڑنے والی (نامِصہ) اور بال اکھڑوانے والی (مُتنمِّصہ) پر لعنت کی گئی ہے۔
[سنن أبی داؤد: 4170]
لہٰذا ابرو/بھنوؤں کے بال خوبصورتی کے لیے اکھیڑنا یا باریک کروانا ناجائز ہے، چاہے اس کا مطالبہ خاوند ہی کیوں نہ کرے۔ خاوند کی اطاعت اسی حد تک واجب ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہو۔
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“لا طاعةَ لِمخلوقٍ في معصيةِ الخالقِ”. [صحیح الجامع: 7520]
’’خالق (اللہ تعالیٰ) کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں‘‘۔
یہ اس وجہ سے ناجائز ہے کہ اس میں قطعاً خوبصورتی نہیں بلکہ یہ اللہ احسن الخالقین کی بنائی ہوئی خلقت میں تبدیلی ہے، اور یہی وہ بات ہے جس کا تذکرہ قرآن میں شیطان کے قول کے ضمن میں یوں ہوا:
“وَلَاُضِلَّـنَّهُمۡ وَلَاُمَنِّيَنَّهُمۡ وَلَاٰمُرَنَّهُمۡ فَلَيُبَـتِّكُنَّ اٰذَانَ الۡاَنۡعَامِ وَلَاٰمُرَنَّهُمۡ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلۡقَ اللّٰهِؕ وَمَنۡ يَّتَّخِذِ الشَّيۡطٰنَ وَلِيًّا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ فَقَدۡ خَسِرَ خُسۡرَانًا مُّبِيۡنًا”. [النساء: 119]
’’اور یقینا میں انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور یقینا میں انھیں ضرور آرزوئیں دلاؤں گا اور یقینا میں انہیں ضرور حکم دوں گا تو یقینا وہ ضرور چوپاؤں کے کان کاٹیں گے اور یقینا میں انہیں ضرور حکم دوں گا تو یقینا وہ ضرور اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت بدلیں گے اور جو کوئی شیطان کو اللہ کے سوا دوست بنائے تو یقیناً اس نے خسارہ اٹھایا، واضح خسارہ‘‘۔
لہٰذا آئی برو یا بھنوؤں کو بنوانا یا باریک کروانا شرعاً جائز اور درست نہیں۔
لیکن جسم کے باقی حصوں جیسے چہرے، پاؤں یا ہاتھوں کے بال صاف کرنا جائز ہے، کیونکہ ان کی ممانعت پر کوئی واضح نص نہیں، اسی طرح ناک کے اوپر اور بھنوؤں کے درمیان والے حصے پر اگر بال نکل آئیں تو انکا ازالہ کرنا بھی جائز ہے کیونکہ اسکے متعلق بھی کسی حدیث میں ممانعت نہیں اور جو حدیث میں “نمص” کی ممانعت آئی ہے، نمص سے مراد آنکھوں کے اوپر ابھری ہوئی ہڈی پر اگنے والے بال ہیں، جس کو ابرو یا بھنویں کہا جاتا ہے، اس پر اگنے والے بالوں کو باریک کرنا یا اکھیڑنا ہے۔ اور حاجبین/آئی برو کے درمیان والا حصہ اس سے الگ ہے، اسکے بال صاف کرنا یا اکھیڑنا بالکل جائز ہے، اسکے متعلق “اللجنة الدائمة” سے سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ یہ حاجبین میں شامل نہیں اس لیے حاجبین کے درمیانی حصے کے بالوں کو اکھیڑنا بالکل جائز ہے۔ اسی طرح شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ سے سوال ہوا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ میرے علم میں اسکی ممانعت پر کوئی دلیل نہیں کیونکہ یہ حصہ حاجبین میں شامل نہیں۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ