سوال (4455)

احمد بن حنبل نے با سند حسن نعمان بن بشیر سے روایت کی ہے.

حَدَثَنَا أَبو نعَيمٍ، حَدَثَنَا يونس، حَدَثَنَا العِيزَار بن حرَيثٍ، قَالَ: قَالَ النعمَان بن بَشِيرٍ، قَالَ: ”استَأذَنَ أَبو بَكرٍ عَلَى رَسولِ اللهِ صَلَى الله عَلَيهِ وَسَلَمَ، فَسَمِعَ صَوتَ عَائِشَةَ عَالِيًا، وَهِيَ تَقول: وَاللهِ لَقَد عَرَفت أَنَ عَلِيًا أَحَب إِلَيكَ مِن أَبِي، مَرَتَينِ أَو ثَلَاثًا، فَاستَأذَنَ أَبو بَكرٍ، فَدَخَلَ، فَأَهوَى إِلَيهَا، فَقَالَ: يا بِنتَ فلَانَةَ ألَا أَسمَعكِ تَرفَعِينَ صَوتَكِ عَلَى رَسولِ اللهِ صَلَى الله عَلَيهِ وَسَلَمَ، [تعليق شعيب الأرنؤوط: إسناده حسن من أجل يونس بن إسحاق، وباقي رجاله ثقات رجال الصحيح، مسند أحمد بن حنبل تحقيق شعيب الأرنؤوط]

اس روایت کے متعلق راہنمائی فرمادیں۔

جواب

اس میں مجہول النسب کیسے ہو گیا ہے؟ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اُن کو اُن کی والدہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ اس سے مجہول النسب کیسے ہو جاتا ہے؟ نعوذ باللہ، اس سے بے مقصد بات کیوں لی جاتی ہے؟ یہ غصے کے اظہار کا ایک انداز ہے۔ انسان کبھی بچوں کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور کبھی بچوں کی ماں کی طرف۔ اس سے کیا ہوتا ہے؟ “یَا بِنْتَ فُلَانَةَ” کہا ہے، “یَا بِنْتَ فُلَانَ” نہیں کہا ہے۔ بعض جگہ “یَا بِنْتَ أُمِّ رُومَانَ” کہا گیا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

عبد الله ابن أبی کی اولاد اپنے دادا کے نقشے قدم پر چل رہے ہیں، ان منافقین کو دیگر احادیث صحیحہ وقرائن نظر نہیں آتیں جن میں ان کا نسب وولدیت بالکل واضح ہے۔ اس پر خیر القرون وبعد کے سلف صالحین کا اجماع ہے کہ آپ سیدنا صدیق اکبر کی بیٹی ہیں.

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ