سوال (2666)

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کچھ صحابہ مشرکین مکہ سے بھاگ کر سمندر کنارے جمع ہو گئے تھے۔ جن میں ابو بصیر اور ابو جندل وغیرہ تھے، جو آتے جاتے قافلوں سے بقول مسلمان جہاد کرتے اور ان کو مال غنیمت ملتا اور بقول مستشرقین وہ قافلوں کو لوٹتے، کیا واقعی یہ تاریخی سچا واقعہ ہے؟ اگر سچا ہے تو اب ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا یہ صحابہ کی سنت نہیں ہے۔

جواب

صحیح بخاری كِتَابُ الشُّرُوطِ ، بَابُ الشُّرُوطِ فِي الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ)

میں ایک طویل حدیث ہے جس کا کچھ حصہ نقل کیا جا رہا ہے۔
پھر نبی ﷺ مدینہ واپس آئے تو ابو بصیر نامی ایک شخص مسلمان ہو کر آپ کے پاس آیا جو قریشی تھا اور کفار مکہ نے اس کے تعاقب میں دو آدمی بھیجے اور آپ ﷺ کو یہ کہلوا بھیجا کہ جو عہد آپ نے ہم سے کیا ہے۔ اس کا خیال کریں، لہٰذا آپ ﷺ نے ابو بصیر ؓ کو ان دونوں کے حوالے کر دیا اور وہ دونوں اسے لے کر ذوالحلیفہ پہنچے اور وہاں اتر کر کھجوریں کھانے لگے تو ابو بصیر ؓ نے ایک سے کہا: اللہ کی قسم!تیری تلوار بہت عمدہ معلوم ہوتی ہے۔ اس نے سونت کر کہا: بے شک عمدہ ہے، میں اسے کئی دفعہ آز چکا ہوں۔ ابو بصیر ؓ نے کہا: مجھے دکھاؤ میں بھی تو دیکھوں کیسی اچھی ہے؟ چنانچہ وہ تلوار اس نے ابو بصیر ؓ کو دے دی۔ ابو بصیر ؓ نے اسی تلوار سے وار کر کے اسے ٹھنڈا کردیا۔ دوسرا شخص بھاگتا ہوا مدینہ آیا اور دوڑتا ہوا مسجد میں گھس آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو فرمایا: ’’یہ کچھ خوفزدہ ہے۔‘‘ پھر جب وہ نبی ﷺ کے پاس آیا تو کہنے لگا: اللہ کی قسم ! میرا ساتھی قتل کر دیا گیا ہے اور میں بھی نہیں بچوں گا۔ اتنے میں ابو بصیر ؓ بھی آپہنچے اور کہنے لگے: اللہ کے نبی ﷺ ! اللہ نے آپ کا عہد پورا کردیا ہے آپ نے مجھے کفار کو واپس کردیا تھا مگر اللہ نے مجھے نجات دی ہے۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تیری ماں کے لیے خرابی ہو!یہ تو لڑائی کی آگ ہے۔ اگر کوئی اس کا مدد گار ہوتا تو ضرور بھڑک اٹھتی۔‘‘ جب اس (ابو بصیر ؓ)نے یہ بات سنی تو وہ سمجھ گئے کہ آپ اس کو پھر ان (کفار)کے حوالے کریں گے، لہٰذا وہ سیدھے نکل کر سمندر کے کنارے جا پہنچے۔ دوسری طرف سے ابو جندل ؓ بھی مکہ سے بھاگ کراس سے مل گئے۔ اس طرح جو شخص بھی قریش کا مسلمان ہو کر آتا وہ ابو بصیر ؓ سے مل جا تا تھا یہاں تک کہ وہاں ایک جماعت وجود میں آگئی، پھر اللہ کی قسم! وہ قریش کے جس قافلے کی بابت سنتے کہ وہ شام کی جانب جارہا ہے اس کی گھات میں رہتے، اس کے آدمیوں کو قتل کر کے ان کا سازو سامان لوٹ لیتے، پھر آخر کار قریش نے نبی ﷺ کے پاس آدمی بھیجا، آپ کو اللہ اور قرابت کا واسطہ دیا کہ ابو بصیر ؓ کو کہلا بھیجیں کہ وہ ایذارسانی سے باز آجائے اور اب سے جو شخص مسلمان ہو کر آپ کے پاس آئے اس کو امن ہے، چنانچہ نبی ﷺ نے ابو بصیر ؓ کی طرف اس کی بابت پیغام بھیجا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ’’وہی اللہ جس نے عین مکہ میں تمھیں ان پر فتح دی اور ان کے ہاتھ تم سے روک دیے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے جبکہ اس سے پہلے تمھیں ان پر غالب کر چکا تھا۔ ۔ ۔‘‘ (جب کفار نے اپنے دلوں میں) زمانہ جاہلیت کی نخوت ٹھان لی۔ ۔ ۔ اور جاہلانہ نخوت یہ تھی کہ انھوں نے نبی ﷺ کی نبوت کو نہ مانا اور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہ لکھنے دیا، نیز مسلمانوں اور کعبہ کے درمیان حائل ہوئے۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری ؒ) نے کہا: ”معرة ” عره سے مشتق ہے۔ اس کے معنی خارش کے ہیں۔ اور تَزَيَّلُوا کے معنی ہیں: وہ ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ (اور حمية کا لفظ) حَمَيْتُ القَوْمَ سے ہے۔ اس کے معنی ہیں: میں نے لوگوں کو شر سے بچایا۔ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ میں نے چراگاہ کی حفاظت کی۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ