فضیلة الشيخ محدث مصر ابو اسحاق الحوینی رحمہ اللہ کا مختصر تعارف
تحریر: ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی (اصل عربی تحریر یہاں ملاحظہ کریں)
اردو ترجمانی: حافظ امجد ربانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ علامہ محدث حجازی محمد یوسف شریف، ابو اسحاق الحوینی (1956ء / 1375ھ) کے انتقال پر مصری عوام اور امتِ مسلمہ سے تعزیت
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ”
“ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور تمہیں تمہارے اجر قیامت کے دن پورے دیے جائیں گے، پس جو شخص جہنم سے دور کردیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا، وہی کامیاب ہوا، اور دنیا کی زندگی تو بس دھوکے کا سامان ہے۔”
(سورۃ آلِ عمران: 185)
♻️ہم انتہائی غم کے ساتھ، مگر اللہ کے فیصلے پر راضی رہتے ہوئے، شیخ علامہ، محدث، فاضل استاد، مجاہد معلم، عظیم مربی، صابر و ہجرت کرنے والے، اور آزمائشوں سے گزرنے والے ابو اسحاق الحوینی کے انتقال کی خبر وصول کرتے ہیں۔
♻️شیخ ابو اسحاق الحوینی رحمہ اللہ کا سوانحی خاکہ♻️
🔘خاندانی پس منظر🔘
شیخ ابو اسحاق حجازی بن محمد بن یوسف بن شریف الحوینی رحمہ اللہ ایک سادہ دیہاتی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نے تین شادیاں کی تھیں، اور ابو اسحاق آخری بیوی سے تھے۔ وہ اپنے پانچ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ ان کے والد دین دار انسان تھے، جیسے کہ اس زمانے کے عام دیہاتی لوگ ہوتے تھے۔
اس زمانے میں روئی کی فصل کی چوری ایک عام بات تھی۔ ایک مرتبہ شیخ ابو اسحاق کے والد اپنے کھیت کے پاس سے گزر رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص ان کے کھیت سے روئی لے رہا ہے۔ لیکن بجائے اس کے کہ وہ اسے ڈراتے یا روکتے، وہ ایک طرف چھپ گئے تاکہ چور انہیں نہ دیکھ سکے۔ جب وہ شخص اپنی مطلوبہ مقدار لے کر چلا گیا، تب ہی وہ باہر آئے!
🔘ابو اسحاق کا لقب اور نسبت🔘
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ “اسحاق” ان کے بیٹے کا نام نہیں تھا، بلکہ انہوں نے یہ کنیت حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی کنیت سے برکت حاصل کرنے کے لیے اختیار کی تھی۔ اسی طرح امام ابو اسحاق الشاطبی رحمہ اللہ کے نام کی نسبت سے بھی انہیں یہ کنیت دی گئی۔
🔅ان کا لقب “الحوینی” ان کے آبائی گاؤں “حوین” کی طرف نسبت سے ہے، جو کفر الشیخ کے علاقے میں واقع ہے۔
🔘پیدائش🔘
شیخ ابو اسحاق حجازی بن محمد بن یوسف بن شریف الحوینی المصری جمعرات، یکم ذوالقعدہ 1375ھ، مطابق جون 1956ء میں حوین، مرکز الریاض، ضلع کفر الشیخ، مصر میں پیدا ہوئے۔
🔘تعلیمی قابلیت🔘
انہوں نے ایک پڑوسی گاؤں (الوزاری) کے غیرالأزہری سرکاری ابتدائی اسکول میں داخلہ لیا، جو کہ حوین سے تقریباً 2 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اور وہاں چھ سال تک تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں، وہ کفر الشیخ شہر میں واقع شہید حمدی ابراہیم انٹرمیڈیٹ اسکول میں داخل ہوئے، جو کہ حوین سے تقریباً پندرہ منٹ کی ڈرائیو کی دوری پر ہے۔ انٹرمیڈیٹ کے پہلے سال میں ہی انہوں نے شاعری لکھنا شروع کر دیا۔
💠پھر وہ ثانوی (ہائی اسکول) کی سائنسی شعبہ میں داخل ہوئے اور شہید عبد المنعم ریاض ثانوی اسکول سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ ثانوی تعلیم ختم کرنے کے بعد وہ مختلف کالجوں کے درمیان انتخاب میں تردد کرتے رہے، یہاں تک کہ آخرکار انہوں نے قاہرہ کی عین شمس یونیورسٹی کے “كلية الألسن” میں اسپینی زبان کے شعبے کا انتخاب کیا۔
💠وہاں انہوں نے پہلے تین سالوں میں کلاس کے ٹاپ تین میں نمایاں مقام حاصل کیا، مگر چوتھے سال میں کارکردگی میں کمی واقع ہوئی۔ بہرحال، وہ مجموعی طور پر ‘امتياز’ یعنی اعلیٰ گریڈ کے ساتھ فارغ التحصیل ہوئے۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ اسپینی زبان کے مجمع کے رکن بنیں اور اسی خاطر انہیں کالج کی جانب سے ملنے والی وظیفے پر اسپین بھی جانا پڑا، مگر وہاں کے ماحول سے عدم پسندیدگی کی وجہ سے وہ واپس آ گئے۔
🔘سفرِ علمی🔘
ابتدائی تعلیم کے دوران، خواہ وہ گاؤں میں ہو یا شہر میں، نہ تو ان کی جانب سے اور نہ ہی کسی اور کی طرف سے دینی علوم کی طرف کوئی خاص توجہ تھی۔ تاہم، جب وہ ثانوی تعلیم کے آخری سال (1395ھ / 1974-1975ء) میں تھے، تو وہ قاہرہ اپنے بھائی کے پاس جا کر پڑھائی کرنے لگے۔
💠وہاں مسجد “عین الحیاة” میں شیخ عبد الحمید کشک کے خطباتِ جمعہ میں شرکت کرنے لگے۔ ایک دن، نماز کے بعد، انہوں نے فٹ پاتھ پر بکنے والی ایک کتاب دیکھی، جو شیخ البانی کی تصنیف “صفة صلاة النبي ﷺ من التكبير إلى التسليم كأنّك تراها” تھی۔ انہوں نے کتاب کے کچھ صفحات پلٹے مگر قیمت زیادہ (15 پیسے) ہونے کی وجہ سے چھوڑ دی۔ بعد میں انہیں اسی کتاب کا خلاصہ ملا، جو انہوں نے خرید لیا۔
جب وہ اس کتاب کا مطالعہ مکمل کر چکے، تو انہیں احساس ہوا کہ بہت سے اعمال، خاص طور پر نماز کے طریقے، جو لوگ اپنے آباء و اجداد سے سیکھ کر انجام دے رہے تھے (بشمول ان کے خود کے)، وہ سنتِ صحیحہ کے خلاف اور غلط تھے۔ اس انکشاف نے ان کے دل میں تحقیق اور سچائی کی جستجو پیدا کر دی۔
💠انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اصل کتاب خریدیں گے، اور جب انہوں نے وہ حاصل کر لی، تو شیخ البانی کی طرزِ بیان اور خصوصاً کتاب کا مقدمہ انہیں بےحد پسند آیا۔ اسی مقدمے نے انہیں صحیح راہ یعنی سلفِ صالحین کے منہج کی طرف متوجہ کیا۔
💠اس مقدمے میں شیخ البانی رحمہ اللہ نے تفصیل سے بیان کیا تھا کہ سنت کی پیروی واجب ہے، اور ہر اس چیز کو ترک کرنا ضروری ہے جو اس کے خلاف ہو۔ اس میں ائمہ اربعہ کے اقوال بھی نقل کیے گئے تھے، جن میں انہوں نے زندگی میں بھی اور وفات کے بعد بھی اپنی کسی بھی ایسی رائے سے براءت کا اظہار کیا جو سنتِ نبویہ کے خلاف ہو۔ یہی وہ موڑ تھا جس نے شیخ ابو اسحاق الحوینی رحمہ اللہ کو علمِ حدیث اور سلفی منہج کی طرف گامزن کر دیا۔
🔘علم حدیث کی طرف میلان🔘
جب انہوں نے شیخ البانی رحمہ اللہ کی کتاب “صفة صلاة النبي ﷺ” پڑھی، تو ان کی توجہ کتاب کے حواشی (حاشیے) کی طرف بہت زیادہ گئی۔ اس وقت وہ حدیث کے فنی اصطلاحات سے بالکل ناواقف تھے۔ حتیٰ کہ ایک مدت تک، وہ امام بخاری رحمہ اللہ کو صحابی سمجھتے رہے، کیونکہ لوگ ان کے ذکر پر “رضی اللہ عنہ” کہتے تھے!
💠اگرچہ وہ ان حواشی کو مکمل طور پر سمجھ نہیں پاتے تھے، مگر انہیں محسوس ہوا کہ یہ ایک عظیم اور مضبوط علم ہے، اور اس کتاب کا مصنف بھی غیر معمولی شخصیت ہے۔ اسی احساس نے انہیں علم حدیث سیکھنے کا عزم دے دیا۔
🔘حدیث کی تحقیق کا آغاز🔘
جب وہ یونیورسٹی میں داخل ہوئے، تو علم حدیث کی کتابوں کی تلاش شروع کر دی۔ ان کے ہاتھ سب سے پہلے امام شوکانی کی کتاب “الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة” آئی۔ جیسے ہی انہوں نے اس کا مطالعہ کیا، وہ حیران اور پریشان ہو گئے۔
اس کتاب میں انہوں نے دیکھا کہ لوگ اپنی روزمرہ کی زندگی میں جن احادیث کو نقل کرتے ہیں، ان میں سے بہت سی درحقیقت نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہوتیں! اس انکشاف نے ان کے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
یہی وجہ تھی کہ جب وہ شیخ عبد الحمید کشک کے خطبے سنتے، تو ان کے ذہن میں ہر حدیث کے متعلق شک پیدا ہونے لگتا کہ آیا یہ واقعی صحیح ہے یا نہیں۔
یہاں تک کہ ایک دن جمعہ کے خطبے میں، شیخ کشک نے ایک حدیث بیان کی، جس پر ابو اسحاق کو شبہ ہوا۔ بعد میں انہوں نے اس حدیث کی تحقیق کی، تو پایا کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
💠ابو اسحاق رحمہ اللہ نے ہمت کی اور شیخ کشک کو اس بارے میں آگاہ کیا۔ شیخ کشک نے جواب دیا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے غلطی کی ہے، اور پھر ایک جملہ کہا جو ابو اسحاق الحوینی کے لیے علم حدیث سیکھنے کی ایک بڑی تحریک بن گیا۔
شیخ کشک نے کہا:
“بیٹا! سیکھو، اس سے پہلے کہ تم سکھانے لگو!”
ابو اسحاق کہتے ہیں:
“میں وہاں سے انتہائی شرمندہ ہو کر واپس چلا، جیسے کسی مرغ نے مجھے چونچ مار دی ہو! اس دن جب میں مسجد سے نکلا، تو میرے دل میں علم حدیث سیکھنے کی ایسی شدید خواہش پیدا ہو چکی تھی کہ جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں!”
🔘علم حدیث کی جستجو اور شیخ محمد نجیب المطیعی سے رہنمائی🔘
جب شیخ ابو اسحاق الحوینی میں علم حدیث سیکھنے کا شوق پیدا ہوا، تو انہوں نے ہر کسی سے پوچھنا شروع کر دیا کہ کوئی ایسا عالم یا شیخ بتائیں جو انہیں اس علم کی تعلیم دے سکے۔ لوگوں نے انہیں شیخ محمد نجیب المطیعی کا نام بتایا۔
انہوں نے مزید تحقیق اور مطالعے کا سلسلہ جاری رکھا، یہاں تک کہ شیخ البانی کی کتاب “سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة” کے پہلے سو احادیث ان کے ہاتھ لگیں۔ اس کتاب میں شیخ البانی رحمہ اللہ ان مشہور احادیث پر تنقید کر رہے تھے جو عوام میں عام تھیں، لیکن حقیقت میں ثابت نہیں تھیں۔
جب ابو اسحاق الحوینی رحمہ اللہ نے اس کتاب کو پڑھا، تو انہوں نے محسوس کیا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ ہر حدیث پر مختلف حکم لگاتے ہیں۔ کہیں منکر، کہیں ضعیف، اور کہیں باطل کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ فرق ان کے لیے ایک نیا سوال پیدا کر گیا کہ آخر ان اصطلاحات کا مطلب کیا ہے اور یہ ایک دوسرے سے کیسے مختلف ہیں؟
اسی جستجو میں، انہوں نے شیخ محمد نجیب المطیعی سے سوال کیا، تو انہوں نے اپنی کتاب “تحت راية السنة: تبسيط علوم الحديث” کی طرف رہنمائی کی۔
جب ابو اسحاق الحوینی رحمہ اللہ نے اس کتاب کا مطالعہ کیا، تو انہیں پہلی بار احادیث کی اصل کتب، حدیثی اصطلاحات، اور روایت و درایت کے اصولوں کا صحیح علم حاصل ہوا۔
🔘شیخ البانی کی کتاب سے استفادہ🔘
وہ کہتے ہیں کہ میں نے شیخ البانی رحمہ اللہ کی اس کتاب (سلسلة الأحاديث الضعيفة) کے ساتھ تقریباً دو سال گزارے، اور یہ میری علمی زندگی کے سب سے زیادہ فائدہ مند سالوں میں سے تھے۔
🔘زندگی کی مشکلات اور علمی جدوجہد🔘
جب وہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، تو ان کے لیے اخراجات پورے کرنا آسان نہ تھا۔ دن میں وہ نصر سٹی، قاہرہ میں ایک کریانے کی دکان پر کام کرتے، اور رات کو علم حاصل کرتے۔
اس سخت روٹین کے باعث، ان کی نیند روزانہ محض تین گھنٹے ہوتی تھی!
مالی مشکلات کے سبب، وہ اپنی مرضی کی کتابیں خریدنے سے قاصر تھے، مگر ان کی علمی پیاس نے انہیں کبھی رکنے نہ دیا۔
شیوخ و اساتذہ
شیخ ابو اسحاق الحوینی رحمہ اللہ نے متعدد جلیل القدر علماء و محدثین سے علم حاصل کیا، جن میں درج ذیل شامل ہیں:
1️⃣ ابتدائی تعلیم کے اساتذہ
(1) شیخ عبد الحی زیان رحمہ اللہ جو ان کے ماموں بھی تھے، ان سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی۔
(2) استاد عبد الفتاح الجزار رحمہ اللہ ان سے عربی زبان و ادب سیکھا۔ شیخ الحوینی بعد میں بھی اپنے استاد کا بے حد احترام کرتے تھے، اور جب کبھی انہیں مسجد میں دیکھتے، تو انہیں تقریر کے لیے آگے بڑھاتے اور ان کی بے حد تعظیم کرتے۔
2️⃣ باقاعدہ دینی علوم کے اساتذہ
(3) شیخ محمد نجيب المطیعی رحمہ اللہ
ان سے اصولِ فقہ اور اصولِ حدیث کی تعلیم حاصل کی۔
ان کے ساتھ صحیح البخاری، المجموع للنووی، الأشباه والنظائر للسيوطي، اور إحياء علوم الدين للغزالي کے کچھ حصے بھی پڑھے۔
(4) شیخ محمد ناصر الدین الألبانی رحمہ اللہ
وہ شیخ الحوینی کے سب سے محبوب اساتذہ میں سے تھے۔
ان کی کتابوں سے بہت زیادہ علمی استفادہ کیا۔
🔘شیخ البانی سے دو اہم ملاقاتیں کیں🔘
پہلی ملاقات: محرم 1407ھ میں ہوئی۔
دوسری ملاقات: ذو الحجہ 1410ھ میں ہوئی۔
ان ملاقاتوں میں شیخ الحوینی رحمہ اللہ نے شیخ البانی رحمہ اللہ سے تقریباً 200 سوالات صرف علمِ عللِ حدیث پر کیے، اس کے علاوہ دیگر فقہی و شرعی مسائل، اور جدید سیاسی امور (جیسے پارلیمنٹ و سیاسی جماعتوں کے احکام) پر بھی گفتگو کی۔
3️⃣ جامعہ ازہر میں حصولِ علم
شیخ الحوینی رحمہ اللہ نے جامعہ ازہر میں بھی کئی اساتذہ سے علم حاصل کیا، ان میں نمایاں نام:
(5)ڈاکٹر موسى شاهين لاشين رحمہ اللہ جو اس وقت جامعہ ازہر، کلیہ اصول الدین میں شعبہ حدیث کے صدر تھے۔
4️⃣ اکابر علماء اہلِ سنت سے ملاقاتیں اور استفادہ
شیخ الحوینی رحمہ اللہ نے اپنے زمانے کے عظیم اہلِ سنت علماء سے ملاقات کی، ان کے دروس میں شرکت کی، اور ان سے فقہ، اصول، اور عقیدہ میں استفادہ کیا، جن میں شامل ہیں:
❶شیخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ
جامع کبیر اور جدہ میں ان کے گھر کے قریب ایک مسجد میں ان کے دروس میں شرکت کی۔
❷شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ
مسجد الحرام میں ان کے دروس میں شریک رہے۔
❸ شیخ عبد الله بن قعود رحمہ اللہ
ان سے “البرہان فی أصول الفقہ” (امام الجوینی) کی شرح سنی۔
ان کے درس میں شیخ صالح آل الشیخ بھی شریک ہوتے تھے۔
❹شیخ عبد الله بن جبرین رحمہ اللہ
شیخ الحوینی رحمہ اللہ نے ان کی ایک مجلس میں شرکت کی، جہاں شیخ ابن جبرین نے خطاب کیا، اور ان کے بعد شیخ الحوینی رحمہ اللہ نے بھی خطاب کیا۔
شیخ ابن جبرین نے شیخ الحوینی کی علمی مہارت اور حدیث میں مہارت پر بے حد تعریف کی، یہاں تک کہ مجمع کے سامنے انہیں “محدثِ مصر” کا لقب دیا، جس پر شیخ الحوینی شرما گئے۔
یہ تمام اساتذہ شیخ ابو اسحاق الحوینی کی علمی شخصیت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنے والے تھے، اور انہی کے علمی ورثے کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ عصرِ حاضر میں علمِ حدیث کے ایک نمایاں محدث کے طور پر پہچانے گئے۔
شیخ کی تصنیفات اور علمی منصوبے
شیخ ابو اسحاق الحوینی کو علم حدیث، تحقیق، اور علمی مسائل کی تنقیح کا خصوصی شغف تھا۔ وہ متقدمین کے اقوال کا تتبع، علمی مباحث کی تحقیق، اور فقہی و اصولی مسائل کی وضاحت میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کی ادبی پرورش اور عربی زبان و ادب سے گہری دلچسپی نے ان کے اسلوبِ تحریر کو نکھارا، جس کے اثرات ان کی تصانیف، محاضرات، اور دروس میں نمایاں نظر آتے ہیں۔
🔘مشہور مؤلفات🔘
شیخ الحوینی رحمہ اللہ کی بیشتر تصانیف کا تعلق علم حدیث، تحقیقِ اسناد، اور متونِ احادیث کے تخریج و درایت سے ہے۔ ان کی تصانیف میں درج ذیل شامل ہیں:
1️⃣ اصولِ حدیث و تخریجِ احادیث
(1)غوث المكدود بتخريج منتقى ابن الجارود
(2)بذل الإحسان بتقريب سنن النسائي
(3)تسلية الكظيم بتخريج أحاديث وآثار تفسير القرآن العظيم
(4)جنة المستغيث بشرح علل الحديث، لابن أبي حاتم
(5)الظِلُّ الوريف في حكم العمل بالحديث الضعيف
2️⃣ نقد و تحقیقِ احادیث
(6)النافلة في الأحاديث الضعيفة والباطلة
(7)جزء في تصحيح حديث القلتين والكلام على أسانيده، للحافظ العلائي
(8)تَنبيه الهاجد إلى ما وقع من النظر في كتب الأماجد
(9)الفجر السافر على أوهام أحمد شاكر
(10)كشف المخبوء بثبوت حديث التسمية عند الوضوء
3️⃣ سیرت و فضائلِ اہلِ بیت و صحابہ
(11)فضائل فاطمة رضي الله عنها، لابن شاهين
(12)مسند سعد بن أبي وقاص، للبزار
(13)رسالتان في الصلاة والسلام على النبي ﷺ وعقيدة أهل السنة والجماعة في الصحابة الكرام
4️⃣ متونِ حدیث کی شروحات و شروحِ کتبِ حدیث
(14)درة التاج على صحيح مسلم بن الحجاج
(15)سد الحاجة بتقريب سنن ابن ماجة
(16)الديباج على صحيح مسلم بن الحجاج، للسيوطي
(17)العِباب بتخريج قول الترمذي: “وفي الباب”
5️⃣ فقہ و آدابِ اسلامی
(18)الانشراح في آداب النكاح
(19)كتاب الصمت وآداب اللسان، لابن أبي الدنيا
(20)القول الرجيح في صلاة التسبيح
(21)القَالاتُ الحِسَان عن ليلة النصف من شعبان
6️⃣ تراجم و سیرتِ محدثین
(22)نبع الأماني في ترجمة الألباني
(23)الفَجر السافر على أوهام أحمد شاكر
7️⃣ فتاویٰ و علمی مقالات
(24)إقامة الدلائل على عموم المسائل (فتاویٰ ابو اسحاق الحوینی)
(25)الفتاوى الحديثية المسمى إسعاف اللبيث بفتاوى الحديث
یہ شیخ کی تصانیف میں سے چند اہم کتب ہیں، جبکہ ان کے بہت سے دیگر علمی کام مخطوطات کی صورت میں محفوظ ہیں۔
شیخ ابو اسحاق الحوینی سے متعلق علماء و فضلاء کے تعریفی کلمات
شیخ ابو اسحاق الحوینی کی علمی و حدیثی خدمات کو اہلِ علم و فضل کی ایک جماعت نے سراہا ہے، جن میں ان کے شیخ، امام الالبانی بھی شامل ہیں۔ امام الالبانی رحمہ اللہ نے ان سے فرمایا: “صحَّ لك ما لم يصحَّ لغيرك” (آپ کو وہ میسر آیا جو دوسروں کو نہ ملا)۔ نیز، انہوں نے اپنی مختلف کتب میں شیخ الحوینی کا ذکر خیر کیا اور انہیں “صديقنا الفاضل” (ہمارے فاضل دوست) کے لقب سے یاد کیا۔ شیخ الحوینی کی تصنیف “غوث المكدود في تخريج منتقى ابن الجارود” کے بارے میں امام الالبانی “السلسلة الصحيحة” (5/586) میں لکھتے ہیں:
“اس کتاب میں ہمارے فاضل دوست ابو اسحاق الحوینی نے اس نکتے کو واضح کیا ہے، اور انہوں نے اس کا پہلا حصہ مجھے ہدیہ کیا، اللہ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے”۔
💠اسی طرح، “السلسلة الصحيحة” (2/720) میں امام الالبانی نے شیخ الحوینی کو “اس فن کے ہمارے مضبوط ساتھیوں میں سے ایک” قرار دیا۔
💠شیخ عبدالعزیز الراجحی نے بھی ان کی تعریف کی۔ ایک سائل نے ان سے دریافت کیا کہ مصر میں کس سے علم حاصل کیا جائے؟ تو انہوں نے جواب دیا: “ابو اسحاق الحوینی، شیخ ابو اسحاق ایک محدث اور علمِ حدیث کے عالم ہیں”۔
💠شیخ مشهور حسن آل سلمان فرماتے ہیں:
“میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ابو اسحاق حدیث کے علماء میں سے ہیں، اور اس فن میں راسخ ہیں۔ میں نے شیخ الالبانی کو کسی کے آنے پر اتنا خوش نہیں دیکھا جتنا میں نے شیخ ابو اسحاق کی آمد پر دیکھا۔ ان کی امام الالبانی کے ساتھ نشستیں محفوظ ہیں، جو ان کے وسیع علم اور دقیق نظر کی گواہی دیتی ہیں، جس درجے تک کم ہی کوئی پہنچتا ہے”۔
💠شیخ احمد النقیب فرماتے ہیں:
“اگر میں شیخ ابو اسحاق کو ایک جملے میں بیان کروں تو وہ یہ ہوگا: وہ دین کے ساتھ جیتے ہیں، دین کے لیے جیتے ہیں، اور دین ہی میں جیتے ہیں۔ ان کی کوئی فکر دین کے سوا نہیں”۔
💠ان کے دعوتی ساتھی، شیخ محمد حسین یعقوب نے کہا:
“بدعتیوں کے دل جل اٹھتے ہیں جب وہ آپ کا نام سنتے ہیں، اور اہلِ سنت کے دل غمزدہ ہو جاتے ہیں جب آپ نظر نہیں آتے۔ میں اور الحوینی ایک امت ہیں”۔
💠اسی طرح، ان کے شیوخ، ہم عصروں، اور شاگردوں کی جانب سے بے شمار تعریفی کلمات منقول ہیں، جنہیں یہاں بیان کرنا طویل ہو جائے گا۔
وفات
شیخ ابو اسحاق الحوینی بروز پیر 17 رمضان 1446ھ / 17 مارچ 2025ء کی شام ایک عارضہِ صحت کے باعث وفات پا گئے۔ انہیں تشویشناک حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ جانبر نہ ہو سکے اور اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ مرحوم پر اپنی وسیع رحمت فرمائے، انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے، اور اپنے عفو و رضوان سے نوازے۔
إنا لله وإنا إليه راجعون۔
والحمد لله رب العالمين۔
بروز پیر، 17 رمضان 1446ھ / 17 مارچ 2025ء