شیخ ابو اسحاق الحوینی رحمہ اللّٰہ کا تعارف
ایک ایسے عالم کی داستان جنھوں نے اپنی پوری زندگی حدیث کی خدمت، مفید علم کی نشر و اشاعت، اور اللہ عزوجل کی طرف دعوت میں صرف کردی۔
ولادت اور نشوونما
شیخ ابو اسحاق الحوینی کفر الشیخ کے ایک چھوٹے سے گاؤں حوین میں 1956ء پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام حجازی محمد یوسف شریف تھا۔ ایک سادہ دیہاتی ماحول میں پرورش پانے والے شیخ کے دل میں علم کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ انھوں نے گاؤں کے ہی ایک ابتدائی تعلیمی ادارے میں چھوٹی عمر ہی سے قرآن مجید حفظ کرنا شروع کیا، اور یہی وہ نیکی کا بیج تھا جو ان کے دل میں پنپا اور بعد میں وہ عصر حاضر کے ممتاز علمائے حدیث میں سے ایک بن گئے۔
علم کی طلب اور حدیث کے ساتھ ابتدائی وابستگی
شیخ نے کفر الشیخ کے مدارس میں تعلیم حاصل کی، اور پھر عین شمس یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لینگویجز میں داخلہ لیا، جہاں انھوں نے ہسپانوی زبان میں تعلیم حاصل کی اور امتیازی نمبروں کے ساتھ گریجویشن کیا۔ اگرچہ انھوں نے لسانی علوم میں کامیابی حاصل کی، لیکن ان کا اصل شوق شرعی علوم، خاص طور پر حدیث نبوی میں تھا۔
امام محمد ناصر الدین البانیؒ کی کتابوں نے شیخ کو حدیث کے مطالعہ کی طرف راغب کیا، اور انھوں نے منہجی طریقے سے شرعی علم حاصل کرنے کا سفر شروع کیا۔ انھوں نے کتب حدیث اور تخریج کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ بعد میں انھیں اردن جانے کا موقع ملا، جہاں انھوں نے شیخ البانی رحمہ اللہ سے ملاقات کی اور براہ راست ان سے علم حاصل کیا۔ یہ ملاقات ان کے علمی منہج کی تشکیل میں انتہائی مؤثر ثابت ہوئی۔
شیخ نے شیخ محمد نجیب المطیعی رحمہ اللہ سے بھی علم حاصل کیا، اور مصر و سعودی عرب کے کئی بڑے علماء کے دروس میں شرکت کی، جس سے ان کے حدیث اور فقہ کے علم میں نکھار آیا۔
خدمت حدیث سے متعلق شیخ کی کوششیں
شیخ ابو اسحاق الحوینیؒ عالم اسلام میں حدیث نبویؐ کی پہچان بن گئے۔ انھوں نے اپنی زندگی کتب حدیث کی تحقیق و تخریج اور ان کی نشر و اشاعت کے لیے وقف کردی۔ انھوں نے حدیث اور جرح و تعدیل کے حوالے سے غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی۔ ان کا انداز بیان سادہ مگر مؤثر تھا، آپ پیچیدہ علمی مسائل کو آسان انداز میں پیش کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ طلبہ اور عوام دونوں میں یکساں مقبول ہوئے۔
شیخ نے لوگوں میں پھیلی کئی احادیث کی تصحیح کی، ضعیف اور موضوع احادیث پر رد کیا، اور مسلمانوں میں صحیح حدیث کی اتباع کرنے کی اہمیت اجاگر کی۔ انھوں نے اہل حدیث کے منہج کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا، اور شیخ البانیؒ کے طریقہ کار پر چلتے ہوئے تحقیق اور تدقیق کو اپنایا۔
شیخ ابو اسحاق الحوینیؒ حدیث کے علم میں ایک مستند عالم تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی حدیث کے مطالعہ، تعلیم اور تدریس میں گزار دی۔ تخریج اور اسناد کی تحقیق میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، اور وہ عصر حاضر کے ممتاز علمائے حدیث میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی تنقیدی صلاحیت اور حدیث کے ضعیف و صحیح میں تمیز کرنے کی بصیرت بے مثال تھی۔ وہ محض روایات کے ناقل نہیں تھے، بلکہ ایک محقق، نقاد، اور مدقق تھے، جو اقوال کا ازسرنو جائزہ لیتے اور حقائق کو علمی دیانتداری کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ اگر ان سے کسی قول یا حدیث پر حکم لگانے میں کوئی غلطی سرزد ہوجاتی تو وہ بلا جھجھک اسے تسلیم کرتے اور اس سے علانیہ رجوع کرکے صحیح موقف کو ادب اور عاجزی کے ساتھ بیان کرتے۔ ائمۂ حدیث کا یہی طرز عمل رہا ہے کہ وہ حق کی طرف رجوع کیا کرتے تھے، اور یہ مقام صرف کبار علماء کو حاصل ہوا کرتا ہے۔
علمی مہارت کے ساتھ ساتھ، شیخ دعوت کے میدان میں حکمت اور بصیرت کے حامل تھے۔
وہ ہمیشہ نرمی اور دانشمندی کے ساتھ حق کی دعوت دیتے اور وعظ ونصیحت میں سختی سے اجتناب کرتے، واقعات کی گہری سمجھ بوجھ رکھتے اور حق بات کو بہترین اسلوب میں پیش کیا کرتے تھے۔ ان کی گفتگو میں علمی پختگی، ادبی حسن اور زبان کی شگفتگی نمایاں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ عقل سے پہلے دل ان کی محبت کے اسیر ہو جاتے۔ عام اور خاص سبھی نے آپ سے استفادہ کیا اور آپ کی آواز حدیث نبوی کا منبر بن گئی۔ اپنی زندگی کے آخری ایام تک حق کا دو ٹوک اظہار اور ہمتوں کو بیدار کرتے رہے۔
فصاحت اور ادب سے محبت اور اس کا اثر
شیخ ابو اسحاق الحوینی صرف ماہر علم حدیث ہی نہیں، بلکہ ایک فصیح اور بلیغ ادیب بھی تھے، جن کا بیان دلکش ہوا کرتا تھا، اور وہ اپنے سامعین کے دل موہ لیتے تھے۔ ان کی گفتگو دقیق علمی مسائل کے ساتھ ساتھ حسن بیان کا بھی شاہکار ہوتی تھی۔ ان کے ہاں الفاظ کی اہمیت تھی، وہ اپنے الفاظ کے چناؤ میں احتیاط سے کام لیتے، اور اپنے جملوں کو ایسے انداز میں ترتیب دیتے تھے جس میں زبان کی عمدگی اور بیان کی سلاست دونوں پائے جاتے تھے، یہاں تک کہ ان کا بیان ادبی جواہر پارہ بن گیا۔
شیخ بڑے ادباء سے متاثر تھے، اور علمِ حدیث میں مشغولیت سے پہلے انھوں نے ادب کی کئی کتابیں پڑھی تھیں۔ وہ مصطفی صادق الرافعی اور البارودی کے مداح تھے، اور ان کے اسلوب سے اتنا متاثر تھے کہ ان کے کئی اقوال اور اشعار کو یاد کر لیا تھا۔ وہ بہت بڑے نقاد محمود شاکر سے بھی متاثر تھے۔ لغوی اور تاریخی تحقیق و تدقیق سے متعلق ان کا منہج شیخ کی علمی روح کے مطابق تھا، اور وہ اکثر ان کے اقوال سے استشہاد کرتے اور عربی زبان اور اسلامی تاریخ کے دفاع میں ان کے مکتبۂ فکر سے استفادہ کرتے تھے۔
ان کی ادب سے محبت صرف پڑھنے تک محدود نہیں تھی، بلکہ وہ قدیم اور جدید شاعری کے بھی حافظ تھے، اور اپنے دروس وخطبات میں اس سے استشہاد کرتے تھے، جس سے ان کا کلام اور بھی دلکش ہو جاتا اور دلوں میں اتر جاتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ علم صرف عربی زبان کی سر زمین میں ہی پروان چڑھ سکتا ہے، اور وہ عربی زبان کے محب اور حامی تھے۔ فصیح بیان اور الفاظ کی تدقیق پر زور دیتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ علم اور زبان باہم مربوط ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔
ان کی فصاحت اور بلاغت کی وجہ سے لوگ ان کی باتوں میں کشش محسوس کرتے تھے، یہاں تک جنھیں علم حدیث میں دلچسپی نہیں ہوتی تھی، وہ بھی ان کے بیان میں عقلی اور جمالیاتی لذت پاتے اور ان کی گفتگو سے اکتاتے نہیں تھے، بلکہ توجہ اور شوق سے سنتے تھے۔ ان کا شمار ایسے داعیوں میں ہوتا تھا جن کی گفتگو میں دلیل کی قوت ہوتی ہے اور بیان کا حسن بھی۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ علماء کے دل بھی جیت لیے، اور لوگوں کے اذہان میں ان علماء کی تصویر پھر سے تازہ کردی جو علم، ادب اور فصاحت کے جامع ہوا کرتے ہیں، جیسا کہ ماضی میں کبار ائمہ ہوا کرتے تھے۔
شیخ حوینی اور شیخ البانی رحھما اللہ کا باہمی تعلق
شیخ ابو اسحاق الحوینی شیخ البانی کے ممتاز شاگردوں میں سے تھے، اور علم حدیث کے حوالے سے ان کے تحقیق و تدقیق کے منہج سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ شیخ ابو اسحاق الحوینی نے تحقیق ، حدیث نبوی کی گہری سمجھ اور جرح و تعدیل کا منہج شیخ البانی سے سیکھا۔ شیخ البانی کے دروس ان کے لیے ایک تحریک کا ذریعہ تھے، اور اسناد کی تصحیح وتضعیف میں ان کا منہج ہی ان کی علمی زندگی کا بنیادی اصول قرار پایا۔
شیخ الحوینی نے شیخ البانی سے حدیث نبوی اور اسناد کے ساتھ گہرے لگاؤ کو بھی ورثے میں پایا، اور وہ ہمیشہ صحیح اور ضعیف حدیث کے درمیان فرق کرنے کی اہمیت پر زور دیتے تھے۔ شیخ الحوینی شیخ البانی کو ایک عظیم علمی مثال کے طور پر دیکھتے تھے، اور اپنی علمی شخصیت کی تعمیر میں ان کے فضل کا اعتراف کرتے تھے، اور اپنے علمی سفر میں شیخ البانی کی تصحیح اور تحقیق کے منہج کو ایک بنیادی حوالہ کے طور پر پیش کرتے تھے۔
شیخ الحوینی اور مشایخ دعوت سلفیہ کے ساتھ ان کے تعلقات
جہاں تک مشایخ دعوت سلفیہ کے ساتھ ان کے تعلق کی بات ہے، تو شیخ الحوینی کے مصر اور بیرون ملک کے کئی مشایخ دعوت سلفیہ کے ساتھ گہرے اور خوشگوار تعلقات رہے۔ ان میں سے نمایاں ترین شیخ محمد اسماعیل المقدم تھے، جن کا شیخ الحوینی کی علمی اور دعوتی زندگی میں نمایاں کردار رہا۔ ان دونوں کے درمیان محبت، باہمی احترام اور علم کے حصول میں تعاون کا رشتہ تھا، خاص طور پر جوانی کے ایام میں۔
شیخ محمد اسماعیل المقدم کے ساتھ ان کی علمی جدوجہد کی یادیں علم اور رہنمائی سے بھرپور تھیں۔ وہ سلفی بیداری اور دعوتی تحریک کے بڑے رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں، اپنے ہم عصر علما اور ساتھیوں جیسے محمد عبداللطیف عمرو، حسان، یعقوب، برہامی، فرید، حطیبة، اور سعید عبدالعظیم کے ساتھ مل کر علمی دروس میں شرکت کرتے، فقہی و حدیثی مسائل اور سماجی امور پر تبادلہ خیال کرتے اور مختلف چینلز کے ذریعے سیکڑوں لیکچر اور علمی و دعوتی سلسلے چلایا کرتے، جن کے ذریعے بہت سے لوگوں نے ہدایت پائی اور سنت اور علم سے محبت پیدا کی۔
شیخ الحوینی اور مشایخ دعوت سلفیہ، بالخصوص شیخ مقدم کے درمیان تعلق ایک بابرکت تعلق تھا، جس نے نہ صرف ان کی رہنمائی اور سنت کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا، بلکہ حدیث کے علم اور سلف صالحین کے منہج سے وابستہ نوجوانوں کی ایک نسل پر اثر بھی ڈالا۔
اہم تصانیف و تحقیقات
شیخ الحوینی نے ایک عظیم علمی ورثہ چھوڑا، جو کتب و تحقیقات پر مشتمل ہے اور صحیح حدیث کی اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کی چند نمایاں تصانیف درج ذیل ہیں:
1۔ تخریج تفسیر ابن کثیر
2۔ الثمر الدانی في الذب عن الألبانی
3۔ تحقیق الدیباج شرح صحیح مسلم للسيوطی
4۔ بذل الإحسان بتخریج سنن النسائی لأبی عبدالرحمن
5۔ تحقیق الناسخ والمنسوخ لابن شاہین
6۔ مسيس الحاجة إلى تخريج سنن ابن ماجہ
7۔ إتحاف الناقم بوھم الذهبي والحاكم
8۔ النافلة في الأحاديث الضعيفة والباطلة
9۔ تنبيه الهاجد إلى ما وقع من النظر في كتب الأماجد
10۔ شرح وتحقیق المغني عن الحفظ والكتاب بقولهم لم يصح شيء في هذا الباب
11۔ صحیح القصص النبوی
12۔ الإنشراح في آداب النکاح
13۔ جنة المرتاب بنقد المغني عن الحفظ والكتاب
14۔ الفوائد المنتقاة الحسان العوالي لأبی عمر السمرقندی
15۔ کتاب الزهد للإمام أسد بن موسى (تحقیق)
16۔ فضائل فاطمہ رضی اللہ عنہا للإمام ابن شاہین (تحقیق)
16۔ تهذيب خصائص الإمام علي رضی اللہ عنه للإمام النسائي (تحقیق)
17۔ البعث والنشور للإمام أبی بكر بن أبی داود (تحقیق)
18۔ الصمت وآداب اللسان للإمام ابن أبی الدنيا (تحقیق)
یہ کتب اور ان کے علمی و دعوتی دروس تحقیق کے متلاشی افراد کے لیے ایک روشن چراغ اور ان تمام لوگوں کے لیے ایک مستند ماخذ ہیں جو اپنے دین میں پختگی اور احادیث کی تصدیق چاہتے ہیں۔
میڈیا اور دعوت میں کردار
شیخ الحوینی کی خدمات تدریس اور تحقیق تک محدود نہیں تھیں، بلکہ وہ اسلامی ٹی وی چینلز پر بھی فعال رہے، جہاں انھوں نے کئی علمی اور دعوتی پروگرامز پیش کیے، جو لوگوں کے دلوں میں سنت کی محبت پیدا کرنے کا ذریعہ بنے۔
ان کے مشہور ٹی وی پروگرام درج ذیل ہیں:
فضفضة
عطر الكلام
فك الوثاق
مدرسة الحياة
قطوف
وبالحق نزل
شیخ رحمہ اللہ کی وفات اور امت کا غم
17 رمضان 1446ھ، مطابق 17 مارچ 2025ء کو، امتِ مسلمہ نے ایک عظیم محدث کو الوداع کہا، جو ایک طویل بیماری کے بعد دار فانی سے رخصت ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی ایک ایسے عالم کی زندگی کا پردہ گر گیا، جنھوں نے اپنی زندگی علم سے بھر دی تھی۔
شیخ الحوینی کے انتقال پر اسلامی دنیا کے بڑے سنی علمی اداروں اور دینی تنظیموں نے افسوس کا اظہار کیا۔ جید علما نے ان کی علمی اور دعوتی خدمات کو یاد کرتے ہوئے انھیں خراج عقیدت پیش کیا اور ان کی جدوجہد کو سنت کی ترویج، غلط تصورات کی اصلاح اور حدیثِ نبوی کے دفاع میں اہم سنگِ میل قرار دیا۔
شیخ ابو اسحاق الحوینی کی سیرت نوجوانوں کے لیے ایک عملی درس ہے کہ علم کے حصول کے لیے صبر اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے، اور اللہ کے لیے اخلاص ہی سنت کی اشاعت میں قبولیت اور برکت کا ذریعہ بنتا ہے۔
شیخ ایک عالم پیدا نہیں ہوئے تھے، نہ ہی ان کے لیے شروع سے شرعی علوم کی راہیں ہموار تھیں جیسے کہ دیگر علما کے لیے تھیں، لیکن انھوں نے جہد مسلسل کی اور اس مقام تک پہنچے کہ وہ اپنے زمانے کے بڑے محدثین میں شمار ہونے لگے۔
ان کے بارے میں وہی کہا جا سکتا ہے جو امام ذہبیؒ کے بارے میں کہا گیا:
مَنْ لِلرِّوَايَةِ وَالأَخْبَارِ يَنْشُرُهَا
بَيْنَ الْبَرِيَّةِ مِنْ عَجَمٍ وَمِنْ عَرَبِ
مَنْ لِلدِّرَايَةِ وَالآثَارِ يَحْفَظُهَا
بِالنَّقْدِ مِنْ وَضْعِ أَهْلِ الْغَيِّ وَالْكَذِبِ
مَنْ لِلصِّنَاعَةِ يَدْرِي حَلَّ مُعْضَلِهَا
حَتَّى يُرِيكَ جَلَاءَ الشَّكِّ وَالرَّيبِ
“عرب و عجم میں کون ہے جو روایاتِ حدیث کو پھیلانے والا ہو؟
کون ہے جو آثارِ نبویہ کی حفاظت کرے،
اور اہلِ باطل و کذب کی وضع کردہ باتوں پر نقد کرے؟
کون ہے جو حدیث کے مشکل اور مغلق پہلوؤں کو جانتا ہو،
اور شکوک و شبہات کا ازالہ کر کے وضاحت فراہم کرے؟”
اللہ انھیں اپنی رحمتِ واسعہ سے نوازے، انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے، ان کے علم کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے، اور ان کی بیماری کو ان کی حسنات میں شمار کرے۔
مرتب: محب شیخ الحوینی، عبد الرحمن العماری
اردو پیش کش: عمران صارم
یہ بھی پڑھیں: فضیلة الشيخ ابو اسحاق الحوینی رحمہ اللہ کا مختصر تعارف