سوال (5540)

مشکوة المصابیح سے ضعیف اور موضوع روایات کا مجموعہ، اہل علم، طلباء اور عوام الناس کے لئے پی ڈی ایف میں پیش خدمت ہے تاکہ تمام شیوخ و احباب اور عوام الناس اِن روایات کو بیان کرنے سے بچ جائیں، ابھی یہ کتاب ” الضعاف والموضیع من مشکاة المصابیح ” کمپوزنگ کے مراحل میں ہے، جیسے جیسے کمپوز ہوتی جائے گی، اسی طرح پی ڈی ایف میں شیئر ہوتی رہے گی ان شاءاللہ، یہ اس سلسلے کی پہلی قسط ہے اس کے بعد ان شاءاللہ، قسط نمبر 2، قسط نمبر 3، قسط نمبر 4 قسط نمبر 5، وغیرہ نشر ہوں گی اور جب اس کتاب کی جلد اوّل مکمل ہو جائے گی تو ان شاءاللہ اُسے کتابی شکل میں شائع کر دیا جائے گا اور پھر اس کے بعد جلد دوسری اور جلد تیسری وغیرہ بھی ان شاءاللہ، آپ کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔
راقم: ابو محمد خرم شہزاد
ابو محمد خرم شہزاد ان کی کیا تحقیق ہے؟

جواب

پہلے ان سے کتاب کا نام درست کروائیں۔
مواضیع، موضع کی جمع ہے۔ جس کا معنی جگہ اور جگہیں۔
موضوع روایت کی جمع موضوعات آتی ہے۔
تحقیق اس کے بعد دیکھ لیں۔ اندر حدیث کی تخریج میں لکھا ہوتا ہے، اس حدیث کو مسند احمد، سنن ترمذی اور السنن الکبری نے روایت کیا ہے۔ کبھی پڑھا ہے کہیں رواه مسند أحمد… رواه السنن الكبرى….

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ علیہ

ابو محمد خرم شہزاد صاحب کوئی عالم دین نہیں ہیں۔
کچھ سال پہلے انہوں نے کبار اہل علم کے نقد وتبصرے سن اور دیکھ کر جامعہ البانیہ سیالکوٹ میں داخلہ لیا تھا
جہاں سرے سے درس نظامی نہیں پڑھایا جاتا ہے۔
عام لوگ اور طلبا انہیں علمی شخصیت سمجھتے ہیں۔
مگر اہل علم وفضل،کبار مشایخ کے نزدیک وہ ایسا کچھ نہیں ہیں۔
جو محقق و ناقد ہو گا وہ جان لے گا کہ ان کی کتب میں اصولی، علمی، منہجی غلطیاں موجود ہیں۔
یہ شخص منہج محدثین، ائمہ علل و نقاد کے راستے سے ناواقف ہے۔
یہ کئی ائمہ محدثین کو مطلقا متساہل کہتا ہے اور عجیب وغریب اصول بنا کر حکم لگاتا ہے۔
ہاں اس کی کتب ورسائل کو صرف وہ اہل علم وفضل پڑھیں جو منہج سلف صالحین سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے ہیں۔ میں نے خود بعض اوقات ان کی علمی و اصولی اخطاء پر لکھ کر گروپ میں ہی اطلاع دی مگر یہ جواب نہیں دیتا۔ اس کا علمی تعاقب مختلف اہل علم کر چکے ہیں بس ان کی کوئی تحقیق سامنے آئے تو اہل فن سے تصدیق کروا لیں۔ باقی مجھے اور اہل علم وفضل کو ان سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے بس یہ کہتے ہیں کہ انہیں اصول شرعیہ، عربی وعلوم حدیث کو اچھی طرح سیکھنا چاہیے ہے ان فنون کے ماہرین کے ساتھ رہ کر۔
الله تعالى ہمیں کبر و تعصب سے محفوظ رکھیں۔
الحسين بن محمد بن مودود کی توثیق ائمہ جرح وتعدیل وائمہ رجال سے ( المتوفی:318 ھ)
آپ صحیح ابن حبان ،فوائد تمام،المسند المستخرج علی صحیح مسلم، حلية الأولياء، أمالى ابن بشران، مسند الشهاب،حديث شعبة بن الحجاج، تاريخ بغداد، الكامل لابن عدى وغيره کے راوی ہیں۔
آپ کے بعض تلامذہ:
ﺃﺑﻮ اﻟﻘﺎﺳﻢ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﻨﺼﺮاﺑﺎﺫﻱ اﻟﺼﻮﻓﻲ،
امام ابن حبان، محمد بن علی بن عاصم،
ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﺎﺻﻢ،
ﺃﺑﻮ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻤﻈﻔﺮ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ اﻟﺤﺎﻓﻆ،
ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ اﻷﺑﻬﺮﻱ،
اﻟﻘﺎﺿﻲ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ بندار،أبو أحمد بن عدی الحافظ ،ﺃﺑﻮ اﻟﺤﺴﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺳﻬﻞ اﻟﺴﻠﻤﻲ اﻟﺤﺮﻳﺮﻱ،ابن المقرئ، ابو أحمد الحاکم وغيره،
ہمارے ایک بھائی نے کہا:غالی شیعہ تھا متقدمین محدثین سے اس کی توثیق ثابت نہیں ،لیکن متاخرین محدثین نے اس کی توثیق کی ہے جو قابل قبول نہیں ہے۔
ہمارے بھائی کا یہ منہج ائمہ محدثین کا منہج نہیں ہے بلکہ ان کا یہ منہج خطا پر مبنی اور شاذ ہے۔
کیونکہ اس مسئلہ میں تفصیل ہے۔
جب جرح و تعدیل کا مسئلہ ہو تو بعد کے اہل علم کی نسبت کبار ائمہ نقاد کو ہی مقدم رکھا جاتا ہے اور جرح مفسر و شدید نہ ہونے کے سبب توثیق کو مقدم رکھا جاتا ہے اور اگر جرح مفسر ہو تو اس کی نوعیت وسبب جانی جاتی ہے موثقین کے مقابل اور تب کسی نتیجہ پر پنہچا جاتا ہے۔
اب جس راوی پر کبار ائمہ سے کلام بھی نہیں اس کی توثیق ان کے معاصر کریں یا بعد کے ائمہ واہل فن تو وہ قبول کیوں نہیں ہے۔
اور جسے پہلے اہل فن مجہول کہیں اور تیسری، چوتھی، پانچویں صدی کے ائمہ اس کی توثیق کریں اور وہ متساہل نہ ہوں یا ان کا تساہل قادح اور کثیر نہ ہو اور قرائن بھی اس کی تائید کریں تو اسے بھی قبول ہی کریں گے
ہاں متساہل ائمہ کی توثیق وجرح کبار ائمہ نقاد وعلل کے مقابل قبول نہیں ہے مگر تائید میں
اور امام ابو عروبہ الحرانی کی توثیق جب ان کے شاگرد اور اہل فن کر رہے ہیں تو متقدمین کی شرط عجیب اور ان کی توثیق قبول کیوں نہیں ہے۔
جبکہ آپ کی توثیق وعلمی مقام آپ کے بلند مقام شاگرد وناقد امام ابن عدی نے بیان کر رکھا ہے
امام ابن عدی نے کہا: ﻭاﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﻮﺩﻭﺩ ﺃﺑﻮ ﻋﺮﻭﺑﺔ اﻟﺤﺮاﻧﻲ.
ﻛﺎﻥ ﻋﺎﺭﻓﺎ ﺑﺎﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭاﻟﺮﺟﺎﻝ ﻭﻛﺎﻥ ﻣﻊ ﺫﻟﻚ ﻣﻔﺘﻲ ﺃﻫﻞ ﺣﺮاﻥ، ﺷﻔﺎﻧﻲ ﺣﻴﻦ ﺳﺄﻟﺘﻪ ﻋﻦ ﻗﻮﻡ ﻣﻦ ﺭﻭاﺗﻬﻢ، ﻓﺬﻛﺮﺕ ﺫﻟﻚ ﻓﻲ ﺫﻛﺮ ﺃﺳﺎﻣﻴﻬﻢ
الکامل لابن عدی:1/ 237 واللفظ له ،بغية الطلب في تاريخ حلب:6/ 2781
حافظ خلیلی نے کہا: ﺛﻘﺔ ﺣﺎﻓﻆ ﻣﺸﺎﺭ ﺇﻟﻴﻪ اﺭﺗﺤﻞ ﺇﻟﻰ اﻟﻌﺮاﻕ ﻭاﻟﺤﺠﺎﺯ ﻭﻟﻪ ﺗﺼﺎﻧﻴﻒ ﻛﺜﻴﺮﺓ ﺃﻛﺜﺮ ﻋﻨﻪ اﺑﻦ اﻟﻤﻘﺮﺉ اﻷﺻﺒﻬﺎﻧﻲ ﻭﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻨﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ اﻟﻔﺘﺢ اﻟﻘﺰﻭﻳﻨﻲ ﻟﻪ ﻛﺘﺎﺏ اﻟﻄﺒﻘﺎﺕ ﻭاﻷﺣﻜﺎﻡ ﻭﺗﺎﺭﻳﺦ اﻟﺤﺮاﻧﻴﻴﻦ، الإرشاد:1/ 458
ابن نقطہ نے کہا: ﻭﺃﺑﻮ ﻋﺮﻭﺑﺔ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﻌﺸﺮ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﻮﺩﻭﺩ اﻟﺤﺮاﻧﻲ ﺳﻤﻊ اﻟﻮﻟﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻤﻠﻚ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺴﺮﺡ اﻟﺤﺮاﻧﻲ ﻭﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ اﻟﺒﺠﻠﻲ ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺼﻔﻰ اﻟﺤﻤﺼﻲ ﻭاﻟﻤﺴﻴﺐ ﺑﻦ ﻭاﺿﺢ ﻭﻛﺜﻴﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ ﻭﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ اﻟﺠﻮﻫﺮﻱ ﻭﺃﺑﻮ ﻛﺮﻳﺐ ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺑﺸﺎﺭ ﺑﻨﺪاﺭ ﻭﻣﺨﻠﺪ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻭﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺳﻴﻒ ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ ﺣﺪﺙ ﻋﻨﻪ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ اﻟﻤﻘﺮﻯء اﻷﺻﺒﻬﺎﻧﻲ،
إكمال الإكمال:4/ 147(4129)
امام ابو احمد الحاکم الکبیر سے توثیق وتعریف:
ابن نقطہ نے کہا: ﻭﻗﺎﻝ اﻟﺤﺎﻛﻢ ﺃﺑﻮ ﺃﺣﻤﺪ اﻟﻨﻴﺴﺎﺑﻮﺭﻱ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ اﻟﻜﻨﻰ ﻛﺎﻥ ﻣﻦ ﺃﺛﺒﺖ ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻛﻨﺎﻩ ﻣﻦ ﻣﺸﺎﻳﺨﻨﺎ ﻭﺃﺣﺴﻨﻬﻢ ﺣﻔﻈﺎ ﻳﺮﺟﻊ ﺇﻟﻰ ﺣﺴﻦ اﻟﻤﻌﺮﻓﺔ ﺑﺎﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭاﻟﻔﻘﻪ ﻭاﻟﻜﻼﻡ ﻭﻗﺎﻝ اﻟﻘﺮاﺏ ﻣﺎﺕ ﺳﻨﺔ ﺛﻤﺎﻥ ﻋﺸﺮﺓ ﻭﺛﻼﺛﻤﺎﺋﺔ، إكمال الإكمال:4/ 147(4129)
آپ سے امام ابن حبان نے الصحیح :(736،1878) میں روایت لی
امام ابو نعیم نے ان سے المسند المستخرج علی صحیح مسلم :(360) میں حدیث لی
حافظ ذہبی سے ان کا ترجمہ و توثیق ملاحظہ فرمائیں:
کہا: اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﻮﺩﻭﺩ ﺃﺑﻮ ﻋﺮﻭﻳﺔ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﻌﺸﺮ اﻟﺤﺮاﻧﻲ اﻟﺴﻠﻤﻲ اﻟﺤﺎﻓﻆ.
ﺃﺣﺪ ﺃﺋﻤﺔ ﻫﺬا اﻟﺸﺄﻥ۔
ﺃﻭﻝ ﺳﻤﺎﻋﻪ ﻭﻃﻠﺒﻪ ﺳﻨﺔ ﺳﺖ ﻭﺛﻼﺛﻴﻦ ﻭﻣﺎﺋﺘﻴﻦ.
ﺳﻤﻊ: ﻣﺨﻠﺪ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ اﻟﺴﻠﻤﺴﻴﻨﻲ، ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺎﺭﺙ اﻟﺮاﻓﻘﻲ، ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻭﻫﺐ اﻟﺤﺮاﻧﻲ، ﻭﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ اﻟﺴﺪﻱ، ﻭﻋﺒﺪ اﻟﻮﻫﺎﺏ ﺑﻦ اﻟﻀﺤﺎﻙ، ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻤﺼﻔﻲ اﻟﺤﻤﺼﻲ، ﻭاﻟﻤﺴﻴﺐ ﺑﻦ ﻭاﺿﺢ، ﻭﻋﺒﺪ اﻟﺠﺒﺎﺭ ﺑﻦ اﻟﻌﻼء، ﻭﺧﻠﻘﺎ ﺳﻮاﻫﻢ۔
ﻭﻛﺎﻥ ﺛﻘﺔ ﻧﺒﻴﻼ۔
ﺭﻭﻯ ﻋﻨﻪ: ﺃﺑﻮ ﺣﺎﺗﻢ ﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ، ﻭﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﺪﻱ، ﻭاﺑﻦ اﻟﻤﻘﺮﺉ، ﻭﺃﺑﻮ ﺃﺣﻤﺪ اﻟﺤﺎﻛﻢ، ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻤﻈﻔﺮ، ﻭﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ اﻟﻘﻄﺎﻥ، ﻭاﻟﻘﺎﺿﻲ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻷﺑﻬﺮﻱ، ﻭﻃﺎﺋﻔﺔ ﺳﻮاﻩ۔
ﺭﺣﻠﻮا ﺇﻟﻴﻪ ﺇﻟﻰ ﺣﺮاﻥ۔
ﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﻋﺪﻱ: ﻛﺎﻥ ﻋﺎﺭﻓﺎ ﺑﺎﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭاﻟﺮﺟﺎﻝ، ﻭﻛﺎﻥ ﻣﻊ ﺫﻟﻚ ﻣﻔﺘﻲ ﺃﻫﻞ ﺣﺮاﻥ، ﺷﻔﺎﻧﻲ ﺣﻴﺚ ﺳﺄﻟﺘﻪ ﻋﻦ ﻗﻮﻡ۔
ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺃﺣﻤﺪ ﻓﻲ اﻟﻜﻨﻰ : ﺃﺑﻮ ﻋﺮﻭﺑﺔ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﻮﺩﻭﺩ ﺑﻦ ﺣﻤﺎﺩ اﻟﺴﻠﻤﻲ ﺳﻤﻊ: ﺃﺑﺎ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ اﻟﺒﺠﻠﻲ، ﻭﺃﺑﺎ ﻭﻫﺐ اﻟﻮﻟﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻤﻠﻚ ﺑﻦ ﻣﺴﺮﺡ. ﻛﺎﻥ ﻣﻦ ﺃﺛﺒﺖ ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻛﻨﺎﻩ ﻭﺃﺣﺴﻨﻬﻢ ﺣﻔﻈﺎ۔
ﻳﺮﺟﻊ ﺇﻟﻰ ﺣﺴﻦ اﻟﻤﻌﺮﻓﺔ ﺑﺎﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭاﻟﻔﻘﻪ ﻭاﻟﻜﻼﻡ۔
ﻭﺫﻛﺮﻩ اﺑﻦ ﻋﺴﺎﻛﺮ ﻓﻲ ﺗﺮﺟﻤﺔ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺃﺑﻮ ﻋﺮﻭﺑﺔ ﻏﺎﻟﻴﺎ ﻓﻲاﻟﺘﺸﻴﻊ، ﺷﺪﻳﺪ اﻟﻤﻴﻞ ﻋﻠﻰ بنيﺃﻣﻴﺔ۔
ﻗﻠﺖ: ﻛﻞ ﻣﻦ ﺃﺣﺐ اﻟﺸﻴﺨﻴﻦ ﻓﻠﻴﺲ ﺑﻐﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﺘﺸﻴﻊ. ﻭﻣﻦ ﺗﻜﻠﻢ ﻓﻴﻬﻤﺎ ﻓﻬﻮ ﻏﺎﻝ ﺭاﻓﻀﻲ.
ﻭﺭﺥ ﻣﻮﺗﻪ اﻟﻘﺮاﺏ، تاريخ الإسلام :23/ 560،561
دوسری جگہ حافظ ذہبی نے کہا: ﻛﻞ ﻣﻦ ﺃﺣﺐ اﻟﺸﻴﺨﻴﻦ ﻓﻠﻴﺲ ﺑﻐﺎﻝ، ﺑﻞ ﻣﻦ ﺗﻌﺮﺽ ﻟﻬﻤﺎ ﺑﺸﻲء ﻣﻦ ﺗﻨﻘﺺ ﻓﺈﻧﻪ ﺭاﻓﻀﻲ ﻏﺎﻝ، ﻓﺈﻥ ﺳﺐ، ﻓﻬﻮ ﻣﻦ ﺷﺮاﺭ اﻟﺮاﻓﻀﺔ، ﻓﺈﻥ ﻛﻔﺮ ﻓﻘﺪ ﺑﺎء ﺑﺎﻟﻜﻔﺮ، ﻭاﺳﺘﺤﻖ اﻟﺨﺰﻱ، ﻭﺃﺑﻮ ﻋﺮﻭﺑﺔ ﻓﻤﻦ ﺃﻳﻦ ﻳﺠﻴﺌﻪ اﻟﻐﻠﻮ ﻭﻫﻮ ﺻﺎﺣﺐ ﺣﺪﻳﺚ ﻭﺣﺮاﻧﻲ؟ ﺑﻠﻰ ﻟﻌﻠﻪ ﻳﻨﺎﻝ ﻣﻦ اﻟﻤﺮﻭاﻧﻴﺔ، ﻓﻴﻌﺬﺭ سیر أعلام النبلاء:14/ 511
ﻭﻗﺪ ﺫﻛﺮﻩ اﺑﻦ ﻋﺴﺎﻛﺮ ﻓﻲ ﺗﺮﺟﻤﺔ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻓﻘﺎﻝ ﻛﺎﻥ ﺃﺑﻮ ﻋﺮﻭﺑﺔ ﻏﺎﻟﻴﺎ ﻓﻲ اﻟﺘﺸﻴﻊ ﺷﺪﻳﺪ اﻟﻤﻴﻞ ﻋﻠﻰ ﺑﻦﻳ ﺃﻣﻴﺔ ﻗﻠﺖ: ﻛﻞ ﻣﻦ ﺃﺣﺐ اﻟﺸﻴﺨﻴﻦ ﻓﻠﻴﺲ ﺑﻐﺎﻝ ﺑﻠﻰ ﻣﻦ ﺗﻜﻠﻢ ﻓﻴﻬﻤﺎ ﻓﻬﻮ ﻏﺎﻝ ﻣﻐﺘﺮ ﻓﺈﻥ ﻛﻔﺮﻫﻤﺎ ﻭاﻟﻌﻴﺎﺫ ﺑﺎﻟﻠﻪ ﺟﺎﺯ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺘﻔﻜﻴﺮ ﻭاﻟﻠﻌﻨﺔ ﻭﺃﺑﻮ ﻋﺮﻭﺑﺔ ﻓﻤﻦ ﺃﻳﻦ ﺟﺎءﻩ اﻟﺘﺸﻴﻊ اﻟﻤﻔﺮﻁ؟ ﻧﻌﻢ، ﻗﺪ ﻳﻜﻮﻥ ﻳﻨﺎﻝ ﻣﻦ ﻇﻠﻤﺔ ﺑﻨﻲ ﺃﻣﻴﺔ ﻛﺎﻟﻮﻟﻴﺪ ﻭﻏﻴﺮﻩ، تذكرة الحفاظ:2/ 240
اور کہا: اﻹﻣﺎﻡ، اﻟﺤﺎﻓﻆ، اﻟﻤﻌﻤﺮ، اﻟﺼﺎﺩﻕ، ﺃﺑﻮ ﻋﺮﻭﺑﺔ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﻌﺸﺮ ﻣﻮﺩﻭﺩ اﻟﺴﻠﻤﻲ، اﻟﺠﺰﺭﻱ، اﻟﺤﺮاﻧﻲ، ﺻﺎﺣﺐ اﻟﺘﺼﺎﻧﻴﻒ۔۔۔
اور یہاں آپ کے تلامذہ کو یوں ذکر کرتے ہیں۔
ﺣﺪﺙ ﻋﻨﻪ: ﺃﺑﻮ ﺣﺎﺗﻢ ﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ، ﻭﺃﺑﻮ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺪﻱ، ﻭﺃﺑﻮ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻤﻈﻔﺮ، ﻭاﻟﻘﺎﺿﻲ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻷﺑﻬﺮﻱ، ﻭﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ اﻟﻘﻄﺎﻥ، ﻭﺃﺑﻮ ﺃﺣﻤﺪ اﻟﺤﺎﻛﻢ، ﻭﺃﺑﻮ ﻣﺴﻠﻢ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﻬﺮاﻥ، ﻭﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺠﺮاﺡ اﻟﻤﺼﺮﻱ ، اﺑﻦ اﻟﻨﺤﺎﺱ ،ﻭﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ اﻟﻤﻘﺮﺉ، ﻭﺃﺑﻮ اﻟﺤﺴﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻼﻥ اﻟﺤﺮاﻧﻲ، ﻭﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ اﻟﺴﻜﻦ، ﻭﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺴﻨﻲ، ﻭﺃﺑﻮ اﻟﺸﻴﺦ ﺑﻦ ﺣﻴﺎﻥ، ﻭﺃﺑﻮ اﻟﺤﺴﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻴﻦ اﻵﺑﺮﻱ، ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ اﻟﺒﻐﺪاﺩﻱ ﻏﻨﺪﺭ اﻟﻮﺭاﻕ ﻭﺃﺑﻮ اﻟﻔﺘﺢ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﺑﺮﻳﺪﺓ اﻷﺯﺩﻱ، ﻭﺧﻠﻖ ﺳﻮاﻫﻢ۔
سیر أعلام النبلاء:14/ 511
حافظ ذہبی ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
ﺃﺑﻮ ﻋﺮﻭﺑﺔ اﻟﺤﺎﻓﻆ اﻹﻣﺎﻡ ﻣﺤﺪﺙ ﺣﺮاﻥ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﻌﺸﺮ ﻣﻮﺩﻭﺩ اﻟﺴﻠﻤﻲ اﻟﺤﺮاﻧﻲ ﺻﺎﺣﺐ اﻟﺘﺎﺭﻳﺦ:
ﻛﺎﻥ ﺃﻭﻝ ﻃﻠﺒﻪ ﻟﻬﺬا اﻟﺸﺄﻥ ﺳﻨﺔ ﺳﺖ ﻭﺛﻼﺛﻴﻦ ﻭﻣﺎﺋﺘﻴﻦ۔۔۔ﻭﻛﺎﻥ ﻣﻦ ﻧﺒﻼء اﻟﺜﻘﺎﺕ۔۔۔
حافظ الصفدی نے کہا:
اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﻮﺩﻭﺩ ﺃﺑﻮ ﻋﺮﻭﺑﺔ اﻟﺤﺮاﻧﻲ اﻟﺴﻠﻤﻲ اﻟﺤﺎﻓﻆ ﺃﺣﺪ ﺃﺋﻤﺔ ﻫﺬا اﻟﺸﺄﻥ ﻛﺎﻥ ﺛﻘﺔ ﻧﺒﻴﻼ ﺭﺣﻞ اﻟﻨﺎﺱ ﺇﻟﻴﻪ ﺇﻟﻰ ﺣﺮاﻥ۔۔۔ الوافی بالوفیات:13/ 28 ،29
ابن العديم نے کہا: اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﻮﺩﻭﺩ:
اﺑﻦ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺩاﻭﺩ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﺴﻠﻤﻲ ﻣﻮﻻﻫﻢ ﺃﺑﻮ ﻋﺮﻭﺑﺔ اﻟﺤﺮاﻧﻲ اﻟﺤﺎﻓﻆ ﻭﻟﻲ ﻗﻀﺎء ﺣﺮاﻥ ﻭﺳﺎﻓﺮ ﻓﻲ ﻃﻠﺐ اﻟﻌﻠﻢ اﻟﻰ اﻟﺸﺎﻡ ﻭاﻟﺜﻐﻮﺭ ﻭاﻟﺤﺠﺎﺯ ﻭاﻟﻌﺮاﻕ ﻭﻓﻲ ﻋﺒﻮﺭﻩ ﻣﻦ ﺣﺮاﻥ اﻟﻰ اﻟﺸﺎﻡ اﺟﺘﺎﺯ ﺑﺤﻠﺐ ﺃﻭ ﺑﺒﻌﺾ ﻧﻮاﺣﻴﻬﺎ۔۔۔ بغية الطلب في تاريخ حلب:6/ 2780
یہاں پر ان کے شیوخ کا کثرت سے ذکر کیا گیا ہے
اور تلامذہ کا ذکر یوں کرتے ہیں:
ﺭﻭﻯ ﻋﻨﻪ اﻟﺤﻔﺎﻅ: ﺃﺑﻮ ﺃﺣﻤﺪ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﺪﻱ اﻟﺠﺮﺟﺎﻧﻲ، ﻭﺃﺑﻮا ﺑﻜﺮ: ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ اﻟﻤﻘﺮﺉ، ﻭﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﺳﺤﺎﻕ اﻟﺴﻨﻲ، بغية الطلب في تاريخ حلب:6/ 2780
اور دیکھیے توضیح المشتبه:2/ 331،طبقات الحفاظ للسيوطى:(741)،العبر فی خبر من غبر:1/ 477،معجم البلدان:2/ 236
الحاصل: آپ ثقہ حافظ رجال وحدیث کی معرفت وپہچان رکھنے والے تھے۔
مثال کے طور پر اس راوی کے بارے خرم صاحب کا موقف اور میری تحقیق ملاحظہ کریں۔
محمد بن صالح بن ھانئ بن زید ابو جعفر الوراق ثقہ راوی ہیں۔
بعض نے متاخرین کا شوشا چھوڑتے ہوے ان کی طرف سے جو محمد بن صالح کی توثیق تھی اسے رد کیا جو کہ اصولا غلط ومرجوح موقف ہے اگر ایسے راوی کی توثیق ان کے معاصر و بعد کے ائمہ محدثین کریں تو وہ بلاشبہ قبول ہو گی خاص کر تلمیذ کی اپنے شیخ کے حق میں توثیق کو تو خاص اہمیت دیں گے۔
کبار ائمہ نقاد کی جرح کے مقابل اگر متساہل ائمہ توثیق کر رہے ہوں تو تب ائمہ نقاد کو ترجیح دیں گے اور جب سرے سے متقدمین جھابذہ سے راوی پر جرح وکلام ہی نہیں ہو تو پھر بعد کے ائمہ محدثین کی توثیق کو قبول کریں گے کیونکہ انہوں نے توثیق سبر واستقراء کے بعد ہی کی ہے۔جیسے امام ابن حبان،ابن عدی،ابن خزیمہ، حاکم وحافظ ذہبی وغیرہ۔
یہ الفاظ بھی میں نے خرم شہزاد صاحب کے متعلق لکھے ہیں۔
اس سے بھی اہل علم ان کے منہج کو معلوم کر سکتے ہیں۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

فضائل عشرة ذوالحجہ کے متعلق ضعیف روایات کا تحقیقی جائزہ
️ راقم: ابو محمد خرم شہزاد
یکم ذی الحجہ سے لے کر 13 ذی الحجہ تک تکبیرات کہنا کیسا ہے؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ذوالحجہ کی پہلی تاریخ سے 13 ذوالحجہ تک تہلیل و تمہید و تکبیر کثرت سے کرنی چاہئے لیکن ان دنوں میں صحیح سند کیساتھ مرفوع یا موقوف روایات میں تکبیرات کہنا ثابت نہیں ، تمام روایات ضعیف ہیں۔ وضاحت پیش خدمت ہے۔
درج ذیل حدیث میں یزید بن ابی زیاد راوی ضعیف الحدیث ہے اور اس کی حدیث قابل حجت نہیں ہے اس کی تفصیل کے لئے راقم کی کتاب  الضعفاء والمتروکین: صفحہ، 252 تا 254  پڑھے۔ اور یہ مدلس ہے اور عمر کے آخری حصہ میں اختلاط کا شکار ہو گیا تھا۔ ( الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین: صفحہ، 66، و الکواکب النیرات لابن الکیال: صفحہ، 509، 510 )، نیز ” عن ” سے روایت کر رہا ہے کسی کتاب میں سماع کی صراحت نہیں ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دس ذی الحجة کے ابتدائی دنوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے ہاں عظیم دن نہیں ہیں اور ان دنوں کے اعمال سے بڑھ کر عام دنوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب نہیں سو تم ان دنوں میں تہلیل ( لا الہ الااللہ ) اور تکبیر ( اللہ اکبر ) اور تمہید ( الحمدللہ ) کا کثرت سے اہتمام کرو۔
( مسند احمد: 2 \ 75 ‘ 131، و مسند عبد بن حمید: 807، و مشکل الآثار للطحاوی: 2502، و اخبار مکة للفاکھی: 1639، و المعجم الکبیر الطبرانی: 3 \ 110، و شعب الایمان للبیھقی: 3751، و فضائل الاوقات للبیھقی: 137، اسنادہ ضعیف ) اس حدیث کا ایک شاہد ہے اور بھی سخت ضعیف ہے۔
تنبیہ: درج بالا سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع حدیث کی ایک اور سند مسند ابی عوانہ: 2 \ 74, ح: 2428 ” وغیرہ سے پیش کی جاتی ہے، جس کی سند کو ہمارے ایک شیخ حفظہ اللہ نے حسن کہا ہے جبکہ وہ حدیث چند وجوہات کی بنا پر ضعیف ہے، وضاحت پیش خدمت ہے:
پہلی علت: ابو یحییٰ عبداللہ بن احمد راوی مجہول الحال ہے، امام ابو عوانہ کا اس کی حدیث کو اپنی کتاب میں نقل کرنا توثیق نہیں ہے، کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، صرف متاخرین محدثین کے اقوال بیان کیے جاتے ہیں جو کہ قابل قبول نہیں، کیونکہ متاخرین محدثین تو ناقلین ہیں اور دوسرا اگر یہ کہا جائے کہ امام ابن ابی حاتم رازی رحمہ اللہ نے اس راوی کے متعلق محلہ صدق کہا ہے تو یہ بھی توثیق نہیں ہوتی، بلکہ ایسا راوی امام ابن ابی حاتم رازی رحمہ اللہ کے نزدیک مجہول ہوتا ہے۔ ( الجراح والتعدیل لابن ابی حاتم: 1 \ 324 )
نیز امام ابن حبان رحمہ اللہ کا اس راوی کی توثیق کرنا، تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، کیونکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ کا شمار مشہور متساہلین محدثین میں ہوتا ہے اور یہ ہیں بھی متاخرین میں سے، اور اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ امام ابنِ حبان رحمہ اللہ کے اکیلے کی توثیق کرنا، کوئی حیثیت نہیں رکھتا، امام ابن حبان رحمہ اللہ کے متساہل ہونے کے دلائل پڑھنے کے لئے راقم الحروف کی کتاب الضعفاء والمتروکین اور اصول حدیث و اصول تخریج کا مطالعہ مفید رہے گا۔ ان شاءاللہ
دوسری علت: عبدالحمید بن غزوان البصری راوی بھی مجہول الحال ہے، اس کو صرف اور صرف متساہل امام ابن حبان رحمہ اللہ نے الثقات میں ذکر کیا ہے اور امام ابن حبان رحمہ اللہ کا شمار مشہور متساہلین محدثین و متاخرین میں ہوتا ہے لہذا ان کی توثیق کی کوئی حیثیت نہیں ہے جیساکہ ابھی بیان ہوا ہے، اور امام ابن ابی حاتم رازی رحمہ اللہ کا اس راوی کو بصری شیخ کہنا، تو یہ توثیق نہیں ہے جیساکہ اہل علم بخوبی جانتے ہیں، بلکہ ایسا راوی بھی امام ابن ابی حاتم رازی رحمہ اللہ کے نزدیک مجہول ہوتا ہے۔ ( الجراح والتعدیل لابن ابی حاتم: 1\ 324 )
امام العلل والرجال امام دارقطنی رحمہ اللہ سے اسی حدیث مسند ابی عوانہ والی سند یعنی عبدالله بن احمد بن ابی میسره عن عبدالحمید بن غزوان البصری عن ابی عوانه عن موسی بن ابی عائشه عن مجاهد عن ابن عمر رضی الله عنه عن النبی صلی الله علیه وسلم،
کے متعلق پوچھا گیا تو امام العلل والرجال امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بڑی تفصیلی وضاحت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے فرمایا: یہ روایت عن ابی عوانہ عن یزید بن ابی زیاد محفوظ ہے۔ (یعنی عبدالله بن احمد بن ابی میسره عن عبدالحمید بن غزوان البصری عن ابی عوانه عن موسی بن ابی عائشه عن مجاهد عن ابن عمر رضی الله عنه محفوظ نہیں)
( کتاب العلل للدارقطنی: 12 \ 375 ‘ 376, حدیث نمبر، 2803 )
جو امام العلل والرجال امام دارقطنی رحمہ اللہ کی تفصیلی بحث پڑھنا چاہے تو وہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کی کتاب سے تفصیلی وضاحت پڑھ سکتا ہے۔
درج ذیل روایت معلق اور بے سند ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت مجھے مفصل سند کے ساتھ نہیں ملی اور امام البیھقی اور امام بغوی نے بھی اس روایت کو معلق روایت کیا ہے (فتح الباری: 590/2)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ذی الحجة کے ابتدائی دس دنوں میں بازار میں نکل کر تکبیرات کہتے اور لوگ بھی ان کی تکبیرات کے ساتھ تکبیرات کہتے تھے۔
( صحیح بخاری: تعلیقاً قبل الحدیث 969، اسنادہ ضعیف )
تنبیہ: اس روایت کی ایک سند  اخبار مکہ للفاکھی: 2 \ 372، ح: 1704  میں ہے، لیکن یہ روایت بھی ضعیف ہے اس روایت کی سند میں راوی  سلام بن سلیمان ابو المنذر  ضعیف ہے۔ جیسا کہ علل و رجال اور جرح و تعدیل کے امام، امام یحیٰی بن معین رحمہ اللہ ( 158 ھجری پیدائش، 233 ھجری وفات ) سے اس راوی کے متعلق پوچھا گیا، تفصیل پیش خدمت ہے: امام ابو اسحاق ابراہیم بن الجنید کہتے ہیں:  سالت یحیٰی بن معین عن سلام ابی المنذر۔ اثقة ھو؟ قال: لا  سوالات ابن الجنید: صفحہ، 194، ت: 713 ) ایک اور مقام پر امام یحیٰی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  سلام ابو المنذر راوی ( حدیث میں ) کچھ چیز نہیں ہے۔ ( یعنی اس کی حدیث کی کوئی حیثیت نہیں ہے ) ( کتاب الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 4 \ 240، ت: 1119، و اسنادہ صحیح ) ضروری نوٹ: امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ کا اس راوی کو، صدوق صالح الحدیث، کہنا۔ علل و رجال اور جرح و تعدیل کے ماہر فن امام، ناقد امام یحیٰی بن معین رحمہ اللہ کے اقوال کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا، جیسا کہ اہل علم پر یہ بات مخفی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں سلام بن سلیمان ابو المنذر راوی کے ضعیف ہونے کے ساتھ اس روایت کی سند میں انقطاع کا شبہ بھی ہے۔ نیز متساہلین محدثین و متاخرین محدثین کی توثیق قابل حجت نہیں ہے اس کی تفصیل کے لئے راقم الحروف کی کتاب  اصول حدیث و اصول تخرہج: صفحہ، 341 تا 366 اور 390 تا 416  پڑھے اور دوسری کتاب  الضعفاء والمتروکین: صفحہ، 63 تا 91  پڑھے۔ ان شاءاللہ حقیقت واضع ہو جائے گی۔
یکم ذوالحجہ سے لے کر نو ( 9 ) تک روزے رکھنا۔
بعض ازواج النبی ﷺ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ ( کے پہلے عشرة ) میں نو ( 9 ) روزے رکھا کرتے تھے ۔ ( یعنی یکم ذوالحجہ سے لے کر نویں ذوالحجہ تک ) دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے ( پہلے عشرة کے ) دس روزے رکھا کرتے تھے ۔( یعنی یکم ذوالحجہ سے لے کر دس ذوالحجہ تک ، اس میں عید کا دن بھی شامل ہے۔ )
( مسند احمد: 5 \ 271، و 6 \ 288، و سنن نسائی: حدیث نمبر، 2376، 2440، 2421، 2422، و السنن الکبری للنسائی: حدیث نمبر، 2681، و السنن الکبری للبیھقی: 4 \ 284، و شعب الایمان للبیھقی: حدیث نمبر، 3754، و فضائل الاوقات للبیھقی: حدیث نمبر، 175، و اسنادہ ضعیف )
درج بالا دونوں حدیثیں ضعیف ہیں، ان دونوں روایات میں  ہندة بنت خالد مجہولہ  ہے۔
( تحریر تقریب التھذیب: 4 \ 44 ) متساہلین محدثین و متاخرین محدثین کی توثیق قابل قبول نہیں ہے۔
تنبیہ: صحیح بخاری کی حدیث میں عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے۔ نیز یہ حدیث صحیح مسلم کی حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے بھی ضعیف ہے، وضاحت پیش خدمت ہے:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ( ذوالحجہ کے پہلے ) عشرہ میں کبھی روزے سے نہیں دیکھا۔ ( صحیح مسلم: 1176 )
فضائل عشرة ذوالحجہ کے متعلق صحیح احادیث
عشرہ ذوالحجہ کے دنوں کی فضیلت
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( ذوالحجہ ) کے دس دنوں سے بڑھ کر کسی دن کا عمل افضل نہیں، لوگوں نے عرض کیا، کیا جہاد بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاد بھی نہیں، مگر وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ نکلے اور کچھ بھی واپس نہ آے۔
( صحیح بخاری: 969 )
سورہ فجر کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے اس عشرے کی راتوں کی قسم اٹھائی ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:  صبح کی قسم اور ( ذوالحجہ کی ) دس راتوں کی قسم اور جفت اور طاق کی قسم اور رات کی جب وہ گزرنے لگے۔
( سورہ الفجر: آیت، 1 تا 4 )
مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ( سورہ فجر کی اس آیت میں ) جن دس راتوں کی قسم اٹھائی ہے، یہ ذوالحجہ کے اول عشرہ کی دس راتیں ہیں۔ ( یعنی یکم ذوالحجہ سے لے کر دس ذوالحجہ تک کی راتیں ہیں )۔
( تفسیر طبری: 24 \ 396، و اسنادہ صحیح ) کتنا بابرکت عشرہ ہے، جن کی راتوں کی اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھائی ہے۔ و الحمدللہ
یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی فضیلت
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوم عرفہ ( 9 ذوالحجہ ) کے روزہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ ( اس کے ذریعے) گزشتہ ایک سال کے اور آنے والے ایک سال کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔( صحیح مسلم: 1162 )
یوم عرفہ کے دن اسلام مکمل ہوا، یعنی یہ تکمیل دین کا دن ہے۔ ( صحیح بخاری: 45، و صحیح مسلم: 3017 )
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یوم عرفہ کے علاوہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ کثرت سے بندوں کو آگ سے آذاد کرتا ہے، اس دن اللہ تعالیٰ ( اپنے بندوں کے ) بہت قریب ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے ان ( بندوں ) کی وجہ سے فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے: یہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ ( صحیح مسلم: 1348 )
تنبیہ: یوم عرفہ یعنی 9 ذوالحجہ کا روزہ سعودی عرب کے ساتھ نہیں رکھا جائے گا، بلکہ ہر ملک میں رہنے والا اپنی 9 ذوالحجہ کی تاریخ کے حساب سے روزہ رکھے گا، جس طرح پاکستانی رمضان کے روزے اپنی تاریخ کے مطابق رکھتے ہیں اسی طرح عیدالفطر اور عیدالاضحی سعودی عرب کے ساتھ نہیں، بلکہ اپنے حساب سے کرتے ہیں، یعنی پاکستان میں چاند نظر آنے پر کرتے ہیں، الغرض ہر ملک میں رہنے والا شخص اپنے ملک کے مطابق یوم عرفہ کا روزہ 9 ذوالحجہ کو رکھے گا۔
9 ذوالحجہ کی صبح سے لے کر 13 ذوالحجہ کی نماز مغرب سے پہلے تک تکبیرات کہنا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ یوم عرفہ ( 9 ذوالحجہ ) کے دن فجر کی نماز کے بعد سے لے کر تشریق کے آخری دن ( 13 ذوالحجہ ) تک تکبیرات کہا کرتے تھے۔( یعنی نماز مغرب سے پہلے تک )۔
( مصنف ابن ابی شیبة: حدیث نمبر، 5677، اسنادہ صحیح، و حدیث نمبر، 5692، واسنادہ صحیح ) عشرة ذوالحجہ کے موضوع پر مفصل تفصیل کے لئے راقم الحروف کی کتاب  عیدالاضحی کے صحیح احکام و مسائل:صفحہ، 20 تا 23  پڑھے۔
جواب: اس تحقیق کے بعض حصوں پر میرا نقد و تبصرہ ملاحظہ فرمائیں۔
محله الصدق کا جو معنی وتفسیر آپ نے بیان کیا ہے اس پر وہ عبارت پیش کریں،
امام ابو حاتم الرازی وامام ابن معین کے کلام اور دیگر ائمہ کے قبول ورد میں منہج محدثین اصول کیا ہیں واضح فرمائیں۔۔۔امام ابن حبان کی صریح توثیق کو بغیر کسی مضبوط دلیل و قرینہ کے رد کرنا کس دلیل کی بنیاد پر ہے۔۔۔امام ابن حبان کی صریح توثیق کو آپ سے پہلے کس ناقد امام وعالم نے رد کیا ہے۔
امام ابن حبان ائمہ علل میں سے ہیں ان کے تساہل صریح توثیق کے بارے میں نہیں ہے اس پر غور کریں
آپ ائمہ محدثین کے منہج وتعامل ،جرح والتعدیل کے احکام وضوابط سے پہلے اچھی طرح واقفیت ومہارت حاصل کریں پھر اس عظیم موضوع کو اختیار کریں۔
منہج محدثین وعلل کے منہج و تعامل جرح و تعدیل کی تفسیر و تعبیر کو سمجھے بغیر ان کے الفاظ کو کچھ سے کچھ سمجھ لینا نہایت حساس معاملہ ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

اگست 2018 کی میری ایک تحریر ہے، جس سے آپ کو خرم صاحب کے ساتھ میرے تعلق کی نوعیت اور ان کی علمی حیثیت سمجھنے کا موقع ملے گا. تحریر درج ذیل ہے:
محترم خرم شہزاد صاحب سے ملاقات:
چند سالوں سے خرم شہزاد نام سے ایک محقق منظر عام پر آئےہیں، شہزاد بھائی سے آٹھ دس سال پہلے سے تعارف ہے، محنتی آدمی ہیں، علوم حدیث کا بہت ذوق رکھتےہیں، لیکن علوم اسلامیہ کی مبادیات میں کمزور ہونے کے سبب، ان کی تحقیقات عجیب و غریب رخ اختیار کر جاتی ہیں، شروع سے اب تک ایک متنازعہ شخصیت ہیں، لیکن کم از کم مجھے ان کے مخلص ہونے پر کوئی شک نہیں۔ انہوں نے پہلے بھی اپنی بعض کتابیں مجھے ارسال کی تھیں، پچھلے سال پھر کچھ کتابیں بھیجیں، خصی جانور کی قربانی کے حوالے سے ان کی ایک کتاب کو میں نے حرف بہ حرف پڑھا تھا، جس میں طرز استدلال اور عبارت کی رکاکت بعض مقامات میں بالکل نمایاں تھی، ایسی چیزوں کا رد لکھنے بیٹھ جانا کوئی فائدہ مند چیز نہیں۔
لیکن بالکل خاموشی بھی درست نہیں، میرے ذہن میں تھا کہ شہزا د صاحب سے مل کر اس حوالے سے کچھ باتیں عرض کروں گا، پھر بات ذہن سے نکل گئی۔ اس دفعہ میں پاکستان آیا، پتہ چلا شہزاد صاحب یہاں ساتھ والے محلے میں ہی رہتے ہیں، ان سے ملاقات ہوئی، بڑی خوشی سے ملے، باتوں باتوں میں ، عرض کیا کہ آپ تھوڑا مجھے وقت دیں، تاکہ آپ کی کچھ تصنیفات پر آپ سے مذاکرہ کیا جائے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ آپ مجھے جو قابل اعتراض چیزیں ہیں، لکھ کر دے دیں، میں نے پھر براہ راست تبادلہ خیال والی بات عرض کی، کہنے لگے، ٹھیک ہے، کوئی ٹائم نکالتے ہیں، اور پھر بیٹھیں گے، اس کے بعد بھی ایک دو مرتبہ میں نے اس حوالے سے ان سے رابطہ کیا، لیکن ہمارے مل بیٹھنے کی کوئی صورت پیدا نہ ہوسکی۔
بالکل قریب رہتے ہوئے، کسی بھائی کے لیے وقت نہ نکال پانا، اس میں میں اپنی بھی کمزوری سمجھتا ہوں، اور شہزاد صاحب کے لیے بھی یہ رویہ نقصان دہ ہے، جب تک طالبعلموں کے ساتھ بیٹھیں گے نہیں، تحریر میں موجود کمزوریاں کبھی دور نہیں کرسکتے، دوسرا عوام الناس میں سے کچھ لوگ تو بات سے متاثر ہوں گے، لیکن اہل علم اور طلبا ان کی تحقیقات و تصنیفات کو کوئی حیثیت نہیں دیں گے۔
خرم صاحب پھر ایک مخلص آدمی ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں، یہ نت نئی تحقیق و تنقید والے فتنے اسی لیے سامنے آرہے ہیں، کہ علم والوں کے پاس علمی موضوعات کے لیے ٹائم نہیں، اور جو وقت نکالتے اور محنت کر رہے ہیں، بدقسمتی سے، ان کے پاس مطلوبہ علمی استعداد نہیں ہے۔
خرم شہزاد صاحب کے ساتھ واٹس ایپ وغیرہ پر جو لوگ موجود ہیں، انہیں تواتر کے ساتھ ان کی پوسٹیں ملتی رہتی ہوں گی۔ ہر روز قرآن کریم کی ایک آیت کا ترجمہ، ایک صحیح حدیث ، ایک ضعیف حدیث، ساتھ ہجری و عیسوی تاریخ، اور یہ سب چیزیں وہ ہر روز موبائل پر خود لکھ کر سینڈ کرتے ہیں۔
کمپیوٹر ان کے پاس ہے، لیکن فائدہ اس سے اسی قدر اٹھاتے ہیں، جتنا کسی فریزر کو کپڑوں والی الماری بناکر اٹھا یا جاسکتا ہے، جب میں نے ان کی یہ صورت حال دیکھی، خود اپنی سستی و کاہلی پر شرمندگی بھی ہوئی، ان کی محنت اور لگن پر رشک بھی آیا، لیکن ساتھ بے چینی بھی ہوئی کہ وہ کام جو کمپیوٹر کے ذریعے دو منٹ میں ہوسکتا ہے، اس کے لیے یہ صاحب ہر روز دو گھنٹے صرف کرتے ہوں گے۔ ابھی تک کتابیں ساری خود کاپی پینسل سے لکھتے ہیں، اور بعد میں ہزاروں روپیہ دے کر اس کی ٹائپنگ اور ڈیزائننگ کرواتےہیں، ان کا ایک بیٹا کمپیوٹر کے متعلق کچھ سیکھ رہا ہے، میں نے عرض کیا، ترجیحی بنیادوں پر اسے ان پیج، ورڈ، اور کمپیوٹر میں واٹس ایپ وغیرہ استعمال کرنا سیکھنا چاہیے، مجھے جو آتا تھا، سکھانے کا وعدہ بھی کیا، لیکن افسوس بعد میں ملاقات کا ٹائم ہی نہ مل سکا۔
میں نے یہ بات بھی عرض کی تھی کہ تحقیق کا مطلب صرف روز مرہ مسائل کو تختہ مشق بنالینا ہی نہیں ہوتا، تحقیق کےلیے اور بھی کئی میدان اختیار کیے جاسکتے ہیں، جس سے نتیجہ صحیح نکلے یا غلط، کم از کم لوگوں کےنماز، روزہ، حج، زکاۃ، قربانی، سحری افطاری کے مسائل میں نت نئی الجھنیں پیدا نہیں ہوں گی۔ خود عوام کو بھی چاہیے کہ ان مسائل میں فتوی یا تحقیق پڑھتے ہوئے ، قابل اعتماد اور مستند عالم دین کی طرف رجوع کریں۔
چند دن پہلے انہوں نے خصی جانور کی قربانی والی روایت کے متعلق اپنی تحقیق کسی مجموعہ میں ارسال کی، اس پر فضیلۃ الشیخ حافظ شریف صاحب حفظہ اللہ نے ٹھیک ٹھاک علمی تبصرہ کیا، روایت کی تضعیف میں خرم صاحب نے ثوری کی تدلیس اور ایک اور راوی کا عند الجمہور ضعیف ہونا نکالا تھا، جبکہ حضرت حافظ صاحب نے واضح کیا کہ دونوں علتیں در حقیقت علت ہے ہی نہیں ہیں۔ ( تفصیل اس آڈیو میں سنی جاسکتی ہے۔) حقیقت یہی ہے کہ بعض معاصر علما نے اجتہادا اس قسم کی تعلیلات کو متعار ف کروایا، اور اس کے بعد ان کے خوشہ چینوں نے انہیں باقاعدہ مسلمہ قاعدہ سمجھ کر ایک تیزدھار چھری بناکر احادیث پر پھیرنا شروع کردیا۔
یہاں مدارس سے جڑے طبقے کو بھی اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرنا چاہیے، دیکھیے خرم شہزاد صاحب کی تحقیق صحیح ہے یا غلط، لیکن ان کی محنت اس حد تک ہے کہ جو لوگ ان سے مسائل پوچھتے ہیں، ان عامۃ الناس کو بھی احادیث کے حوالہ جات اور راویوں تک کی تفصیلات یاد ہوتی ہیں، جبکہ دوسری طرف میرے جیسے مدرسے کے فارغ التحصیل سے کوئی مسئلہ پوچھ لیا جائے، تو مسئلے کا صحیح علم ہو بھی تو ڈھنگ سے دلیل اور اس کا حوالہ یاد نہیں ہوتا۔ ضرورت یہ ہے کہ جدید محققین علمی گہرائی پیدا کریں، اور قدیم نظام کے فارغ التحصیل علما احتیاط اور گہرائی تھوڑی کم کرکے، عوام الناس کوفائدہ دینے کی صلاحیت و جرات پیدا کریں۔
جو بات میں نے اس تحریر میں ذکر نہیں کی، وہ بھی عرض کر دیتا ہوں کہ میں نے اسی مجلس کے اندر انہیں تہذیب الکمال کے مقدمے سے حافظ مزی کی نصحیت نکال کر پڑھنے کو کہا، جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ میری اس کتاب سے استفادے کے لیے کن کن علوم و فنون کی معرفت ہونی چاہیے… لیکن خرم شہزاد صاحب اس عبارت کو سمجھنا تو درکنار پڑھ نہیں سکے، مجھے کہا کہ آپ اس عبارت پر نشان لگا دیں، میں اس پر غور کروں گا۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

“خرم شہزاد صحابہ ہیں جنہوں نے شیخ البانی کی صحیح احادیث کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے یا اس قسم کا کوئی اور کام کیا ہے، تو یہ عالم نہیں ہیں اور اس درجہ کے کام کے اہل ہی نہیں ہیں۔ اب ان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہماری نظر میں چونکہ یہ عالم نہیں ہیں، اس لیے اس کام کے بالکل اہل نہیں ہے کہ وہ ایسی نازک علمی بحثوں میں حصہ لیں۔ اس کے ذریعے یہ مزید فتنہ پھیلا رہے ہیں، اور ان کو خود نہیں پتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ اب وہ یہ سب جان بوجھ کر کر رہے ہیں یا محض اپنی جہالت کی وجہ سے، یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ ان سے دور رہنا بہتر ہے۔ انہوں نے بہت سی چیزوں کو بگاڑ دیا ہے۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے: جس کے پاس خود کچھ نہ ہو، وہ کسی کو کچھ کیا دے سکتا ہے؟ ایک بے علم شخص سے صرف جہالت ہی پھیلتی ہے، علم نہیں۔ وہ خود منحرف ہو چکے ہیں، ان کے اپنے بقول، نہ ان کا علم ہے، نہ عربی زبان سے واقفیت۔ پہلے وہ برزخی تھے، پھر نہ جانے کیسے اہل حدیث بن گئے، پھر برزخی ہو گئے، پھر دوبارہ اہل حدیث — ان کے منہج (نظریاتی راستے) کا یہ حال ہے، ان کے اپنے ہی بقول۔”

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ