ایک صاحب نے اپنے ایک وی لاگ میں کسی سکول کے نصاب کی پہلی کلاس کی کتاب کے ایک سوال پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بچوں میں دوسروں کے بارے منفی سوچ پیدا ہونے اور دوسروں کی ٹوہ لگانے کا سبق ملتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ: آپ کیسے جانیں گے کہ کون اچھا مسلمان ہے؟ اس کا جواب تھا 1. وہ اللہ سے محبت کرتا ہے 2. قرآن شوق سے پڑھتا ہے 3.السلام علیکم کہتا ہے4.اللہ سے دعا مانگتا ہے۔5.رسول اللہ ﷺ سے محبت کرتا ہے۔
وی لاگر نے اس سوال پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے سوال سے بچوں کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ دوسرے برے ہیں پھر وہ اس ٹوہ میں لگا رہے گا کہ کون کون برا ہے اور کون اچھا ہے۔ اس طرح بچوں کو کسی دوسرے کو جج کرنے کی عادت پڑے گی جبکہ پہلے ہی ہم دوسرے کو غلط سمجھتے ہیں اور خود کو اچھا سمجھتے ہیں جس سے معاشرے میں بہت بڑی تفریق ہے۔اس کے جواب میں گزارش ہے کہ:
ایک ننھے سے بچے کے معصوم سے ذہن میں اچھے مسلمان کا امیج پرسیپشن پیدا کرنے کے لیے اس سے بڑھ کر اور اچھی بات کیا ہوسکتی ہے کہ ” نماز پڑھنے والا، قرآن پڑھنے والا ، دعا کرنے والا، نبی کریم ﷺ سے محبت کرنے والا اور السلام علیکم کہنے والا اچھا مسلمان ہوتا ہے۔ یہ سب چیز احادیٹ کے مفہوم ہیں اگر آپ ان احادیث کو تفصیل سے دیکھیں تو پتا چلے گا ان خوبیوں کا حامل نہ صرف اچھا مسلمان ہے بلکہ اچھا انسان بھی ہے۔ جو اعتراض اٹھایا گیا ہے جس میں آگے جاکر فرقہ واریت اور دوسری دقیق ابحاث آجاتی ہیں وہ یقینا چھ یا پانچ سال کے بچے لیے نہیں ہیں۔
ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہونے والے بچے کے لیے اگر اسلام کے یہ بنیادی عناصر اور اشعار جن میں کوئی مسلکی اختلاف بھی نہیں ہے بہتری اور خوبی کا موجب نہیں ہیں تو پھر کیا ہے؟ عام سی بات بارے بھی اتنے گریزاں اور ڈیفنڈنگ پوزیشن پر چلے جانے کا مطلب ناقابل فہم  ہے جبکہ جس نکتے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کا ایک ننھے سے ذہن سے کیا تعلق ہے۔ ایک لمحے کے لیے اس اعتراض کو درست مان لیا جائے تو کیا
1.چار پانچ یا چھ سال کا بچہ اگر ماں کا کہا نہ مانے تو ماں اپنے بچے کو کیا کہے گی؟ مارپیٹ اور تشدد سے ہٹ کر یقینا یہی کہے گی کہ دیکھو بیٹا برے بچے ماما کی بات نہیں مانتے، آپ تو اچھے بچے ہو اس لیے جو میں کہہ رہی بیٹا وہ کرو۔۔۔! ماں کا بچے کو اس طرح سے نصیحت کرنا یقینا ایک ننھی جان کو جج مینٹل تو بنا رہی ہے کہ گندے بچے بھی ہوتے ہیں اور اچھے بچے بھی، میں اگر بات مان لوں گا تو اچھا بن جاؤ گا۔
2. اسی عمر کا بچہ اگر نماز نہ پڑھے تو ایک ماں یا باپ اپنے بچے کو نماز پڑھانے کی تلقین کیسے کرے گا، یقینا اس سلسلے میں وارد عذاب اور وعید کی مشکل اصطلاحات تو نہیں بتائی جائیں گی؟ یہی کہے گا یا کہے گی کہ ” بیٹا نماز پڑھو اچھے بچے نماز پڑھتے ہیں اور یہ ایک مسلمان کے لیے نماز پڑھنا ضروری ہے ورنہ اللہ تعالیٰ مارتے ہیں یا آگ میں پھینک دیتے ہیں۔ تو نماز کے لیے اپنےبچے کو کنونس کرنے کے لیے ماں کا یہ سمجھانا بھی بچے کو دوسروں بارے جج مینٹل کر رہا ہے؟
بچہ اگر کوئی کسی قسم کا غلط کام کرے تو اس مینٹل لیول کے بچے کو نہ صرف ماں بلکہ اس کا استاد یا کوئی بھی بڑا یہی کہے گا ” بیٹا ایسا کام نہیں کرتے برے بچے یا برے لوگ یہ کام کرتے ہیں۔ اس طرح بھی ہم ان بچوں کے اذہان کو کسی دوسرے بارے میں جج مینٹل کر رہے ہیں کہ وہ کیسا ہے؟ پھر تو اس عمرکے بچوں کو کسی قسم کا اخلاقی نصیحت کرنا بھی دوسروں کوجج کرنے کے زمرے آ جائے گا؟ تو کیا اس انداز نصیحت و تربیت  کو ترک کر دیا جائے گا ؟
الغرض اس ایج سرکل کے بچوں کو اچھائی یا برائی کا تصور دینے کے لیے یہی انداز اپنایا جاتا ہے اور لا محالہ طور پر اپنایا جانا چاہیے۔ اگر یہ بھی آپ کے نذدیک درست نہیں ہے اس کے علاوہ کون سا انداز ہونا چاہیے وہ بھی بتا دیں ۔
3.صرف بچے کے لیے ہی نہیں بحیثیت مسلمان ہم نے اگر انہیں کسی چیز کی طرف راغب کرنا یا تحریض دلانی ہے تو یقینا اس چیز اور اس کے فاعل کے محاسن بیان کیے جائیں گے اور اس کا بالعکس یا اپوزٹ بیان کرنے کے لیے اس کی برائی اور برے انجام کو واضح کیا جائے گا۔ کسی کی تربیت اور اصلاح کے لیے عمومی طر پر یہی طریق کار ہے۔ اس میں کسی دوسرے کے بارے میں حکم لگانے یا اس کے انجام بارے جج مینٹل ہونا کیسے بنتا ہے؟
اس انداز اور طریق کار کی شریعت سے کئی مثالیں ملتی ہیں بات کی تفہیم کے لیے چند ایک کا تذکرہ ہی کافی ہے۔ مثلا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عبد الله بڑا ہی اچھا آدمی ہے۔ کاش وہ رات میں نماز بھی پڑھا کرتا“۔ سالم کہتے ہیں کہ عبد اللہ رضی اللہ عنہ اس کے بعد رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔”(بخاری و مسلم ) اس حدیٹ کی روشتی میں اب کوئی کسی کو تہجد یا قیام اللیل پڑھنے پر اچھا کہے تو کیا اس نے دوسرے کو جج کیا یا اس پر برا تاثر قائم کر لیا؟
اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہیں” اب یہاں بھی دوسروں بارے ایک تاثر قائم ہو رہا ہے کہ کون بہتر ہے۔
عرض کرنے کا مقصد ہے کسی کو ترغیب کے لیے کسی کام کی فضیلت بتانا یا کسی برے کام سے روکنے کے لیے اس کے شر اور نقصان سے آگاہ کرنا ہر معاشرے اور مذہب میں مروج ہے اور اس میں کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ اس سے دوسرے کے بارے میں اچھا برا تاثر قائم کرنا کیسے ہو سکتا ہے۔
رہی بات کہ کسی دوسرے بارے میں جج منٹل ہونا یا کوئی نتیجہ نکالنا، یہ بحث ہی الگ سے ہے۔ اس سلسلے میں دوسرے بارے حسن ظن رکھنے کی تاکید ہے اور اسلام نے اس پر بہت زیادہ زور دیا ہے جو کہ الگ سے ایک بڑا موضوع ہے۔
اصل میں یہ مسئلہ اور بحث شروع کب ہوتی ہے۔ آپ کسی کے بارے میں جج منٹل کیوں ہوتے ہیں اور کسی بارے میں اچھا یا برا تاثر قائم کرنے کا آپ کو کیا حق ہے؟ یہ اور اس طرح کے دیگر الفاظ، فریزز اور جملے جو لوگ لبرل ، سیکولر یا دین بے زار ہیں کی طرف سے بولے جاتے ہیں۔ ان کے ہاں جزا و سزا کا مسئلہ ہی نہیں ہے، جب ان سے یہ بات کی جائے کہ اس ایکٹ اور عمل کی وجہ سے یہ خرابی پیدا ہوتی ہے یا یہ کام درست نہیں ہے خالق نے بندے کو بتادیا ہے کہ اچھا کام کرو اور اس کی نا فرمانی سے بچو تو وہ آگے سے یہی کہتے ہیں کہ آپ کو کسی کے بارے میں ججمنٹل ہونے کا کوئی حق نہیں ہے، بھائی ہم کہاں کہہ رہے ہیں کہ آپ برے ہو بس یہ کہہ رہے کہ اچھے کام کا نتیجہ اچھا ہے اور برے کام کا نتیجہ برا ہے۔

الیاس حامد